قائد اعظم محمد علی جناح ؒ …دنیا کی نظر میں

سرور منیر راؤ  اتوار 26 دسمبر 2021
فوٹوفائل

فوٹوفائل

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا146 واں یوم پیدائش 25 دسمبر ہفتے کے دن منایاگیا۔ قائداعظم کی شخصیت اور ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا پیرو کار بننے کا دعوی تو پاکستان کے حکمرانوں اور سیاسی قائدین ہروقت کرتے ہیں لیکن کیا ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا ہے جو قائد اعظم کا پاسنگ تو ہونا در کنار کیا ان کا چوتھائی بھی بن سکا ہے۔1947سے لے کر 2021 تک پاکستان کے تمام حکمرانوں سول اور عسکری دونوں طرح کی قیادتیں اور نئے پاکستان کے دعوے داروں کے کردار اور اطوار کا اگر غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے آئے تو یہی کہہ سکتے ھیں کہ۔۔

درقفس خود نگاہ اٹھتی ہے

جب گلستاں میں کوئی رہبر نظر نہیں آتا

بانی پاکستان کے حوالے سے ہماری تدریسی کتابوں،سیاسی قائدین کی تقریروں اور ذرایع ابلاغ میں لکھے جانے والے مضامین بھی ہم سب پڑھتے رہتے ہیں لیکن قائد اعظم محمد علی جناح کے ہم عصر سیاستدان، دانشور اور تاریخ دان ان کی شخصیت، کردار اور صلاحیتوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں، اس کا مختصر سا جائزہ پیش خدمت ہے۔

سر آغا خان کہتے ہیں کہ ان تمام سیاست دانوں میں جنھیں میں جانتا ہوں۔ کلینو، لائیڈجارج، چرچل، کرزن، مسولینی اورمہاتما گاندھی ان کے مقابلے میںقائداعظم کردار کی مضبوطی کے لحاظ سے عظیم ہیں۔

محمد علی جناح ’’قائداعظم‘‘ کے محبوب لقب سے پکارے گئے ۔سیاسی زندگی کا آغاز کانگریس سے کیا،اور ہندو مسلم اتحاد کے سفیر بھی کہلائے۔مگر جب ہندو قیادت کے متعصبانہ ذہن نے ان پر ہندو عزائم کو واضح کر دیا تو انھوں نے مسلم لیگ کی تنظیم نو کرتے ہوئے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور اپنی مساعی جمیلہ سے ایک طویل اور تھکا دینے والی آئینی جنگ کے صلہ میں پاکستان حاصل کر لیا۔

قائداعظمؒ کی سیاسی زندگی کی نمایاں خصوصیات یہ تھیں کہ ایک بار بھی جیل نہ گئے۔قائداعظمؒ عزم و عمل، دیانت، خطابت، اور خود داری کا مرقع تھے۔ ان کے اندر وہ تینوں خوبیاں موجود تھیں جو میر کارواں کا رخت سفر کہلاتی ہیں۔ ان کے کمزور اور نحیف جسم میں ہر دم، دم گرم اور جان بے تاب کا لاوا ابلتا رہتا تھا۔محمد علی جناح کی شخصیت اور کردار کی وضاحت مندرجہ ذیل واقعات سے پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔

عام طور پر سیاستدان، سیاست اور حکمت عملی میں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے جائز و ناجائز ذرایع کی تمیز نہیں کرتے۔ لیکن قائداعظمؒ کی افتاد طبع بالکل مختلف تھی، وہ دیانت داری اور راست بازی پر یقین رکھتے تھے۔کبھی کبھار شیریں طنز و مزاح کے نشتر بھی چلاتے تھے۔ ایک دفعہ گاندھی نے ان سے کہا:۔’’آپ نے مسلمانوں پر مسمریزم کر دیا ہے‘‘۔ جناح نے برجستہ جواب دیا:۔’’ جی اور آپ نے ہندؤوں پر ہپناٹزم ‘‘۔

ایک مرتبہ دونوں راہنما اکٹھے اخباری نمایندوں اور فوٹو گرافروں کے ہجوم کے سامنے آئے گاندھی نے جناح سے پوچھا!’’ انھیں دیکھ کر آپ دل میں خوش تو ضرور ہوئے ہوں گے؟ جناح بولے: ’’جی میں خوش تو ضرور ہوا مگر آپ سے کم‘‘۔ان دونوں لیڈروں کے مزاج اور انداز فکر ہمیشہ ایک دوسرے سے مختلف رہے۔کراچی کے ایک پارسی مئیرجمشید نو شیرواں نے قائداعظم کے لیے کہا،’’ان کی یاد بڑی دلکش ہے، انھیں اپنے اوپر پورا کنٹرول تھا۔جذبات کا اظہار بہت کم کیا کرتے تھے۔ وہ کم آمیز اور با وقار تھے۔ ان کی زندگی تنہا تھی۔میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جناح بڑے انسان دوست تھے۔ایک دن مجھ سے کہا کہ میری دلی خواہش ہے کہ پاکستان کے مسلمان اقلیتوں سے رواداری برتیں‘‘۔

میں نے دو موقعوں پر انھیں روتے دیکھا۔تقیسم ہند کے بعد ان کے ہمراہ مہاجر کیمپ دیکھنے گئے ۔ان کی مصیبت دیکھ کر جناح رو پڑے۔میں نے ان کے رخساروں پر آنسو چمکتے دیکھے۔ میں نے پہلی مرتبہ ان کے آنسو 1928ء میں دیکھے۔ کلکتہ کانفرنس میں انھوں نے بڑی خوبی اور قابلیت سے مسلمانوں کی وکالت کی مگر ان کے مطالبات رد کر دیے گئے۔ایک شخص نے مخالفت میں کہا کہ انھیں مسلمانوں کی طرف سے بولنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ وہ ان کے نمایندے نہیں۔جناح کو اس میں بڑی سبکی محسوس ہوئی اور اپنے ہوٹل واپس چلے گئے۔ دوسرے دن صبح آٹھ بجے کلکتہ کے لیے روانہ ہوئے تو فسٹ کلاس کے ڈبے کے دروازے پر کھڑے تھے انھوں نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور بولے،’’جمشید یہ افتراق کا آغاز ہے‘‘۔اور میں نے دیکھا ان کی آنکھیں پرنم تھیں۔

جن دنوں جناح لندن میں وکالت کرتے تھے ۔ ان کے دفتر کے متصل ایک انگریز وکیل مسٹر ٹی ڈبلیو ریمزکا دفتر تھا۔یہ صاحب بھی وہاں وکالت کرتے ہیں۔ انھوں نے جناح کی لندن سے مراجعت کا حال یوں بیان کیا:مجھے وہ دن یاد ہے جب جناح نے میرے دفتر ا ٓ کر مجھے بتایا کہ وہ وطن واپس جا رہے ہیں۔ان کے خوبصورت اور شاندار فرنیچر پر بہت سے وکیلوں کی نظر تھی۔وہ اسے خریدنا چاہتے تھے۔ایک وکیل نے جناح سے کہا، وہ انھیں خریدنا چاہتا ہے۔جناح نے جواب دیا۔’’مجھے ان لکڑی کے ٹکڑوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔تم یہ سب لے لو۔میں ایک بہت بڑے مقصد کے لیے ہندوستان واپس جا رہا ہوں‘‘۔

واپس آتے ہی محمد علیؒ جناح نے ہندوستان کی سیاست میں نئی روح پھونک دی۔ مسلم لیگ کے جھنڈے تلے مسلمانوں کو متحد کیا ۔ ان کے تحت الشعور میں یہ فکر تھی کہ ہندو ، مسلم اب ایک مملکت میں باہم متحد نہیں رہ سکتے، اس لیے مسلمانوں کے لیے الگ ریاست ضروری ہے۔

تقسیم ہندکے نتیجے میں قائم ہونے والی دونوں ریاستوں بھارت اورپاکستان میں خطے کی سیاست کی نئی راہیں متعین ہوئیں اگر چہ یہ تقسیم دو قومی نظریے کی بنیا د پرہوئی مگر اس سے جنوبی ایشیا میں طاقت کا نیا توازن سامنے آیا ۔آج کا ایٹمی پاکستان دنیاکے نقشے پر مضبوط ،سیاسی ،دفاعی اور ابھرتی ہوئی معاشی طاقت کی پہچان رکھتاہے۔معاشی میدان کے بدلتے تقاضوں میں پاکستان کی اہمیت دنیاتسلیم کررہی ہے اور پاکستان پاک چین اقتصادی راہداری کی شکل میں خطے کی تاریخ کی سب سے بڑی معاشی سرگرمی کامحو ربن چکا ہے۔

قائداعظم نے نظریہ پاکستان کے بارے میں کہا تھا۔”یہ زندگی اور موت کا معرکہ ہے اور ہماری کوشش صرف اس لیے نہیں ہے کہ ہمیں مادی فوائد حاصل ہوں بلکہ یہ تو مسلمانوں کی بقائے روح کے لیے حیات و ممات کامسئلہ ہے اور اسے سودے بازی سے کوئی واسطہ نہیں۔ مسلمانوں کو اس حقیقت کا پورا احساس ہو چکا ہے اگر ہم شکست کھائیں گے تو سب کچھ کھو بیٹھیں گے۔ آئیے اس ولندیزی ضرب المثل کو اپنا دستور العمل بنائیں۔”جب انسان دولت کھو دے تو کچھ نہیں کھوتا۔ اگر حوصلہ کھو دے تو بہت کچھ کھو جاتا ہے لیکن روح مر جائے تو پھر کچھ بھی باقی نہیں رہتا”۔

یہ الفاظ اس شخص کے ہیں جو انتقال کے تہتر سال برس بعد بھی زندہ باد کہلاتا ہے اور کیوں نہ ہو؟

خاک قبرش از من و تو زندہ تر

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔