- لانگ مارچ؛ راولپنڈی میں اگلے 6 روز تک سیکورٹی ہائی الرٹ رکھنے کا فیصلہ
- زمینی فضا میں نیا اور انتہائی تعامل والا کیمیکل دریافت
- میراڈونا کے نام سے منسوب جہاز قطر فٹبال ورلڈکپ کیلئے اڑان بھرنے کو تیار
- سرکاری خزانے سے ایک دھیلا تنخواہ نہیں لی، پیٹرول تک اپنے پاس سے ڈلواتا ہوں، وزیراعظم
- پاکستانی کوہ پیماؤں کا کارنامہ، دنیا کی 5ویں بلند ترین چوٹی سرکرلی
- فرانس نے سوئمنگ پولز میں برکینی پہننے پر پابندی عائد کردی
- حکومت کرنے والے اپنےکیسز ختم نہیں کراسکیں گے جلد جیل جائیں گے، شیخ رشید
- یوم تکبیر پر چاغی کی پکار
- آئی ایم ایف کیساتھ بجلی 7 روپے یونٹ مہنگی کرنے پر بات چیت
- محمد رضوان کی ٹی20 بلاسٹ چیمپئین شپ لگاتار دوسری نصف سنچری
- پاکستان کو ایٹمی طاقت بنے 24 برس مکمل، آج یوم تکبیر منایا جا رہا ہے
- سورج آج خانہ کعبہ کے عین اوپرہوگا
- بجٹ 23-2022؛ مختلف وزارتوں کے ترقیاتی فنڈز میں کٹوتی کا فیصلہ
- کراچی میں دہشتگردی کاخطرہ، اہم تنصیبات نشانہ، گولہ بارود پہنچ گیا
- ڈیوڈ وارنر کے جلد آؤٹ ہونے پر بیٹیاں رونے لگیں، ویڈیو وائرل
- بابر اعظم کی عمدہ بیٹنگ نے کارتھک کا دل جیت لیا
- ملتان میں میدان سجانے کیلیے حکومتی گرین سگنل کا انتظار طویل
- انتخابی اصلاحات، نیب قوانین میں ترامیم مسترد، سراج الحق
- شہر میں آوارہ کتوں کی بہتات، سگ گزیدگی کے واقعات بڑھ گئے
- ریل گاڑیوں کے کرایوں میں 20 فیصد تک اضافے کی تجویز
خوشبوؤں کی شاعرہ پروین شاکر کی 27 ویں برسی

منفرد لہجے کی شاعرہ ہونے کی بنیاد پر بہت کم عرصے میں اندرون اور بیرون ملک بے پناہ شہرت حاصل کی ۔ فوٹو : فائل
خوشبووٴں کی شاعرہ پروین شاکر کو مداحوں سے بچھڑے 27 برس بیت گئے، مگر ان کی شاعری آج بھی خوشبو کی طرح کو بہ کو پھیلتی محسوس ہوتی ہے۔
نامور شاعرہ کی زندگی اور شاعری پر ایک نظر
محبتوں اور خوشبوؤں کی شاعرہ پروین شاکر کو مداحوں سے بچھڑے 27 سال بیت گئے ہیں لیکن اردو زبان و ادب سے محبت کرنے والے آج بھی انہیں نہیں بھولے۔
انکی شاعری کی خوشبو نے کئی عشروں بعد بھی گلشن ادب کو مہکا رکھا ہے۔ اردو ادب کے منفرد لہجے کی حامل پروین شاکر 24 نومبر 1952 کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔
انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری لینے کے بعد انہوں نے سی سی ایس کیا اور اعلیٰ عہدے پر فائز رہیں، انہوں نے کچھ عرصہ جامعہ کراچی میں تدریس کے فرائض بھی سر انجام دئیے۔
پروین شاکر کی شاعری اردو ادب میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا تھا ان کی منفرد شاعری کا موضوع عورت اور محبت رہا، ان کے مجموعہ کلام میں ’خوشبو‘، ’صد برگ‘، ’خود کلامی‘، ’انکار‘ اور ’ماہ تمام‘ قابل ذکر ہیں۔
منفرد لہجے کی شاعرہ ہونے کی بنیاد پر بہت کم عرصے میں انہوں نے اندرون اور بیرون ملک بے پناہ شہرت حاصل کرلی تھی، انہیں پرائڈ آف پرفارمنس اور آدم جی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔
اردوادب کومہکانے اور ادبی محفلوں میں اشعار کی خوشبو بکھیرنے والی پروین شاکر 26 دسمبر 1994 کو اسلام آباد میں ایک ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوگئیں۔ وفاقی دارالحکومت کے سکیٹر ایچ ایٹ میں پروین شاکرکی آخری آ رامگاہ پہ شائقین ادب بڑی تعداد میں آکر انہیں سلامی پیش کرتے ہیں۔
یاد کیا آئیں گے وہ لوگ جو آئے نہ گئے
کیا پذیرائی ہو اُن کی جو بُلائے نہ گئے
اب وہ نیندوں کا اُجڑنا تو نہیں دیکھیں گئے
وہی اچھّے تھے جنھیں خواب دکھائے نہ گئے
رات بھر میں نے کھُلی آنکھوں سے سپنا دیکھا
رنگ وہ پھیلے کہ نیندوں سے چُرائے نہ گئے
بارشیں رقص میں تھیں اور زمیں ساکت تھی
عام تھا فیض مگر رنگ کمائے نہ گئے
پَر سمیٹے ہوئے شاخوں میں پرندے آ کر
ایسے سوئے کہ ہَوا سے بھی جگائے نہ گئے
تیز بارش ہو ، گھنا پیڑ ہو ، اِک لڑکی ہو
ایسے منظر کبھی شہروں میں تو پائے نہ گئے
روشنی آنکھ نے پی اور سرِ مژگانِ خیال
چاند وہ چمکے کہ سُورج سے بجھائے نہ گئے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔