گوادر تا خیبر پختونخوا

فاروق عادل  پير 27 دسمبر 2021
farooq.adilbhuta@gmail.com

[email protected]

خیبرپختونخوا میں جے یو آئی کی فتح کو ماضی قریب کے پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ خود مولانا فضل الرحمن نے بھی اسی جانب اشارہ کیا ہے۔ انھوں نے اپنی جماعت کی حالیہ کامیابی کو 2018 کی ناکامی سے منسلک کیا۔

انھوں نے اپنی گفتگو سے یہ حقیقت اجاگر کرنے کی کوشش کی کہ زمینی حقائق پہلے بھی یہی تھے۔ بس، پس پردہ بازی گری کے ذریعے انھیں بدل دیا گیا تھا۔ حالیہ انتخابی نتائج کے سامنے آنے پر انھوں نے یہ کہنا مناسب سمجھا کہ اب ہمارا راستہ نہ روکا جائے۔ مولانا فضل الرحمن کا یہ بیان صرف ان کے سیاسی اعتماد اور فتح مندی کا مظہر نہیں ہے۔ مستقبل قریب کے سیاسی منظرنامے کا ایک نقشہ بھی پیش کرتا ہے۔

صدر آصف علی زرداری نے بھی نئے حالات کی مناسبت سے زبان کھولی ہے۔ ان کے سامنے آنے سے بھی جے یو آئی کی فتح کو ایک نیا تناظر ملا ہے۔ انھوں نے نت نئے سیاسی فارمولوں کی آزمائش کو ناپسندیدہ قرار دیا۔ انھوں نے تجویز کیا کہ یہ روش اب ترک کر دینی چاہیے۔ ان کے بیان کا دوسرا اہم نکتہ اس سے بھی اہم تھا۔ انھوں نے کہا کہ اگر آپ ہماری مدد چاہتے ہیں تو پھر ضروری ہے کہ موجودہ نظام کو رخصت کر دیا جائے۔

مولانا فضل الرحمن اور آصف علی زرداری کے یہ بیانات آگے پیچھے آئے۔ شاید یہی سبب رہا ہو گا کہ سیاست سے دلچسپی رکھنے والوں نے انھیں ملا کر پڑھا۔ صرف پڑھا نہیں بلکہ نتائخ اخذ کرنے کی کوشش بھی کی۔ اس نوعیت کے بیانات فوری طور پر بھی کچھ تاثر پیدا کرتے ہیں۔ اس سے ایک فوری تاثر یہی بنا ہے کہ مستقبل کے سیاسی منظر نامے پر ہم جلد یا بدیر مولانا فضل الرحمن اور آصف علی زرداری کو یکجا دیکھ سکتے ہیں۔

ان دنوں اکثر قیاس آرائی کی جاتی ہے۔ بعض نیوز میکر ایسی بھی خبریں دیتے ہیں کہ لندن میں میاں نواز شریف سے روابط کا سلسلہ جاری ہے۔ آصف علی زرداری کے بیان سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ روابط کا یہ سلسلہ ان کی ذات تک بھی توسیع پا چکا ہے۔ حقیقت کیا ہے؟ کبھی کھلے یا نہ کھلے، کیا کہا جا سکتا ہے۔ البتہ تن آسان تجزیہ نگاری کو خیال کے گھوڑے دوڑانے کا ایک راستہ ضرور مل گیا ہے۔

چند ماہ قبل کرنل اشفاق حسین نے سیاست کے ٹھہرے ہوئے پانی میں پتھر پھینکا تھا۔ یہ پتھر ان کی تازہ کتاب تھی جو جنرل مرزا اسلم بیگ کی یادداشتوں پر مشتمل ہے۔ انھوں نے اس کتاب میں مستقبل کے بارے میں تجزیے اور پیشین گوئیاں بھی کی ہیں۔ اس کتاب کا نام بھی بڑا معنی خیز ہے۔’ ـاقتدار کی مجبوریاں‘۔ آنے والے دنوں میں یہ مجبوریاں کیا رنگ لائیں گی؟

جنرل صاحب نے اس بارے میں بھی اظہار خیال کیا ہے۔ ان کے تجزیے کی پہلی بنیاد دلچسپ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قومی سیاسی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ دینی قوتوں کو اقتدار میں نمایندگی دی جائے۔ یہ تجویز پیش کرنے کے بعد انھوں نے ایک پیشین گوئی کی ہے۔ وہ کہتے ہیںکہ وہ مستقبل قریب میں مولانا فضل الرحمن کو ایسا کردار ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

جنرل مرزا اسلم بیگ کی تجویز اور پیشین گوئی کو ذہن میں رکھئے۔ اور تازہ سیاسی منظر نامے کے ساتھ ملک کے مختلف حصوں میں رونما ہونے والے چند دیگر واقعات کو ملا کر دیکھیے۔ خیبرپختونخوا میں جے یو آئی کی فتح سے متصل قبل گوادر میں مولانا ہدایت الرحمن کی زیر قیادت ایک غیر معمولی واقعہ رونما ہوا۔ مولانا چند روز پہلے تک ایک غیر معروف شخصیت ضرور تھے۔ لیکن جماعت اسلامی کے ساتھ ان کی وابستگی کو ذہن میں رکھا جائے تو ان کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔

گوادر کے واقعے سے قبل پنجاب اور کراچی وغیرہ میں تحریک لبیک مختلف طریقوں سے اپنی اہمیت تسلیم کرا چکی ہے۔ فیصلہ سازوں تک کسی قدر رسائی رکھنے والے لوگ خبر دیتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ایم ایم اے کی طرز کا کوئی اور انتظام وجود میں آ جائے تو اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ ایسا کوئی نظام بنتا ہے تو پھر گجرات کے چوہدری بھی اپنے موجودہ کردار سے آگے بڑھتے ہوئے دکھائی دے سکتے ہیں۔

یہ سارے مظاہرِ و امکانات قطعی داخلی ہیں۔ خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو اگر ان کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو تصویر مکمل ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ افغانستان میں طالبان آ چکے ہیں۔ ان کی غیر معمولی فتوحات کے راستے میں کسی رکاوٹ کا نہ ہونا کچھ کم تعجب خیز نہیں تھا۔ اب او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے ذریعے انھیں تسلیم کرانے کی ایک زیریں تحریک شروع ہو چکی ہے۔ کتنی دلچسپ بات ہے کہ اس تحریک میں امریکا بھی شریک ہے۔ نہیں بھولنا چاہیے کہ او آئی سی کے اسلام آباد اجلاس میں شریک امریکی نمایندے نے طالبان کے نائب وزیر خارجہ سے ملاقات کی۔ اس موقع پر انھوں نے یہ کہنا بھی مناسب جانا کہ امریکا طالبان سے اپنے روابط بڑھانا چاہتا ہے۔

ان واقعات میں بعض اہم تجزیہ کاروں کے سوالات کو ذہن میں رکھیں تو تصویر کچھ اور واضح ہوتی ہے۔ گوادر میں دھرنے کے موقع پر ایک سینئر اینکر نے کہا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ چین سے متعلق منصوبوں کی افادیت اور موزونیت کو ایک بار پھر پرکھا جائے۔ الجھے ہوئے اس کھیل میں اگر کسی سے امید وابستہ کی جا سکتی ہے تو صرف مولانا فضل الرحمن کی ذات ہے۔ ان سے زیادہ اور کون جانتا ہو گا کہ پس پردہ کیا ہو رہا ہے۔ ان کی دانش مندی سے یہ توقع بھی کی جاسکتی ہے کہ وہ کچھ ایسا ضرور کریں گے جس سے ملک کے مفادات پر کوئی ضرب نہ پڑے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔