- بونیر میں مسافر گاڑی کھائی میں گرنے سے ایک ہی خاندان کے 8 افراد جاں بحق
- بجلی 2 روپے 75 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی گئی
- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا
- حکومت نے 2000 کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیدی
- کراچی: ڈی آئی جی کے بیٹے کی ہوائی فائرنگ، اسلحے کی نمائش کی ویڈیوز وائرل
- انوار الحق کاکڑ، ایمل ولی بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- جناح اسپتال میں خواتین ڈاکٹروں کو بطور سزا کمرے میں بند کرنے کا انکشاف
- کولیسٹرول قابو کرنیوالی ادویات مسوڑھوں کی بیماری میں مفید قرار
- تکلیف میں مبتلا شہری کے پیٹ سے زندہ بام مچھلی برآمد
- ماہرین کا اینڈرائیڈ صارفین کو 28 خطرناک ایپس ڈیلیٹ کرنے کا مشورہ
- اسرائیل نے امن کا پرچم لہرانے والے 2 فلسطینی نوجوانوں کو قتل کردیا
- حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی مشروط اجازت دے دی
- سائفر کیس میں امریکی ناظم الامور کو نہ بلایا گیا نہ انکا واٹس ایپ ریکارڈ لایا گیا، وکیل عمران خان
- سندھ ہائیکورٹ میں جج اور سینئر وکیل میں تلخ جملوں کا تبادلہ
- حکومت کا ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان
- زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 8 ارب ڈالر کی سطح پر مستحکم
- پی ٹی آئی کا عدلیہ کی آزادی وعمران خان کی رہائی کیلیے ریلی کا اعلان
- ہائی کورٹ ججز کے خط پر چیف جسٹس کی زیرصدارت فل کورٹ اجلاس
- اسلام آباد اور خیبر پختون خوا میں زلزلے کے جھٹکے
- حافظ نعیم کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس
جامعات کے اساتذہ اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن
ادارے خواہ نجی ہوں یا سرکاری، وہاں کام کرنے والوں کو اچھا ماحول اور ترقی کے مواقعے پیش کرنا، تاکہ کام کرنے والے ترقی کی خواہش میں بہتر کار کردگی کا مظاہرہ کریں، ایک نمایاں اصول رہا ہے۔ نجی ادارے اپنے ملازمین کو اس ضمن میں تجربے، سینیارٹی کے مواقع پر ترقی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ادارے کے سالانہ منافع پر بونس بھی دیتے آئے ہیں تاکہ ملازمین میں اور زیادہ محنت اور ایمانداری سے کام کرنے کی لگن اور جذبہ پیدا ہو۔ اس قسم کے یہ یونیورسل اصول بدقسمتی سے پاکستان کی جامعات کے اساتذہ کو قطعی حاصل نہیں بلکہ جامعات کے اندر تدریسی اور غیر تدریسی ملازمین کے پروموشن کے الگ الگ قوانین موجود ہیں۔
تجربے اور سینیارٹی کی بنیاد پر اساتذہ کے پروموشن یا ترقی کے مواقعے قانوناً بند ہیں۔ انھیں جب بھی اگلے عہدے/ گریڈ میں جانا ہوتا ہے، اس کےلیے انھیں اپنے ہی ادارے اور شعبے میں بھرتی کےلیے آنے والے اشتہار کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور پھر اس اشتہار میں کسی نئے امیدوار کی طرح درخواست دے کر تمام مراحل سے گزرنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے، جس میں اسے اپنے تجربے اور سینیارٹی کی بنیاد پر کوئی ترجیح نہیں ملتی۔
بظاہر اساتذہ کے ساتھ یہ پالیسی اس جواز کے ساتھ جاری ہے کہ اس طرح ایک اعلیٰ پائے کا استاد جامعات کو ملے گا، مگر یہاں کئی سوالات اٹھتے ہیں مثلاً یہ کہ جو اساتذہ پہلے ہی سے تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں اگر وہ نئی آسامی کےلیے درخواست نہیں جمع کرا سکیں، یا جمع تو کرائیں مگر سلیکشن بورڈ میں کوئی اور امیدوار باہر سے آکر کامیاب ہوجائے تو کیا ایسے اساتذہ کی مایوسی نہیں بڑھے گی؟ کیا پروموشن ان اساتذہ کا حق نہیں، انھیں یوں ہی ریٹائرڈ ہوجانا چاہیے؟ ذرا غور کیجئے ایسے مایوس اساتذہ کس طرح سے طلبا کو مثالی تعلیم دے سکیں گے؟ جبکہ ان کے سامنے دیگر اداروں اور خود ان کی جامعہ کے غیر تدریسی ملازمین اپنے تجربے اور سینیارٹی کی بنیاد پر گریڈ سترہ، اٹھارہ اور انیس میں ترقیاں، ٹائم پے اسکیل، انسینٹیو اسکیم وغیرہ کے نام پر حاصل کررہے ہوں؟
یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ ایک لیکچرار اگلے عہدے میں ترقی کےلیے اپنی ہی جامعہ کے اشتہار میں درخواست دینے کےلیے تجربے کے علاوہ درجن بھر ریسرچ آرٹیکل رکھنے کی شرط کس طرح پوری کرے گا؟ جبکہ کسی معیاری ریسرچ جرنل میں صرف ایک آرٹیکل شائع کرانے کےلیے کم ازکم پچاس ہزار روپے فیس درکار ہوتی ہے، یوں اگر دس آرٹیکل ہوں تو یہ فیس پانچ لاکھ کے قریب بنتی ہے۔ ایک لیکچرار جس کی بنیادی تنخواہ ہی لاکھ بمشکل بنتی ہو اور وہ کرائے کے مکان میں رہتا ہو، تو اس کا صرف مکان کا کرایہ اور یوٹیلیٹی بلز کا خرچہ ہی کوئی ساٹھ، ستر ہزار ماہانہ بن جاتا ہے، ایسے میں وہ استاد ترقی کےلیے درخواست دینے کا خرچہ کیسے برداشت کرسکتا ہے؟
یوں دیکھا جائے تو ترقی کے مروجہ طریقے کے باعث ترقی اور معیار مکس ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے سارا زور اور رحجان ریسرچ آرٹیکل کی تعداد پر چلا گیا ہے۔ چونکہ آرٹیکل کی تعداد بڑھانے پر زور زیادہ ہے اور یہ پروموشن کی بنیادی ضرورت بھی ہے، منطقی طور پر جب تعداد بڑھتی ہے تو معیار کم ہوجاتا ہے۔ یوں آج ریسرچ کے معیار پر بھی تنقید کی جارہی ہے۔ حقائق تو صاف نظر آرہے ہیں کہ یہ پروموشن کی غلط پالیسی کا نتیجہ ہے۔
یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہمیں واقعی اعلیٰ معیار کی ریسرچ چاہیے تو پھر ہمیں اپنی پالیسی میں پروموشن اور ریسرچ کے ٹریک کو الگ الگ کرنا ہوگا۔ یعنی جامعات کے اساتذہ کے پروموشن اور دیگر سہولیات کی فراہمی کےلیے دیگر اداروں کے ملازمین کے طریقہ کار کو اپنانا ہوگا اور ریسرچ کےلیے بینیفٹ کا ٹریک الگ رکھنا ہوگا۔
اس ضمن میں ایک بہترین راستہ یہ ہے کہ غیر تدریسی ملازمین کی طرح اساتذہ کو بھی ہر پانچ سال کے تجربے/ سروس پر صرف اگلا پے اسکیل دے دیا جائے جبکہ اگلے عہدے پر پروموشن کےلیے دیگر شرائط رکھ لی جائیں، مثلاً ریسرچ آرٹیکل کی تعداد وغیرہ۔ نیز جب اگلے عہدے پر ترقی ہو تو پھر اس عہدے کے گریڈ کے اعتبار سے وہ سہولیات بھی دی جائیں جو دیگر اداروں کے ملازمین کو دی جاتی ہیں، مثلاً گاڑی اور ڈرائیور وغیرہ۔ اس عمل سے اساتذہ کو مالی نقصان نہیں ہوگا۔ خاص کر ایسے اساتذہ جو پروموشن کے انتظار میں ریٹائر ہوجاتے ہیں (اور پروموشن تو دور کی بات، ان کے سلیکشن بورڈ کا انعقاد تک نہیں ہوتا)۔ وہ کم از کم اگلے پے اسکیل پر تو ریٹائر ہوں گے جہاں انھیں عہدہ نہ ملے مگر مالی نقصان تو نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ سلیکشن بورڈ کے انعقاد میں چار سے چھ سال تک لگ جاتے ہیں، لہٰذا جن اساتذہ کا میرٹ پر پروموشن فوری ہوسکتا ہے وہ بھی اس عمل سے برسوں انتظار میں رہتے ہیں اور بہت سے تو انتظار میں ریٹائر ہی ہوجاتے ہیں۔
راقم کے نزدیک اس وقت ہائیر ایجوکیشن کمیشن اساتذہ کی بہتری کے جو قدم اٹھانے جارہا ہے، اس میں اساتذہ کی مختلف تنظیموں سے بھی تجاویز لے کر فیصلے کرے، تاکہ اساتذہ میں سکون اور خوشی کی لہر دوڑے۔ کیونکہ ایک پرسکون ذہن ہیں طلبا کی بہتر تعلیم و تربیت کرسکتا ہے اور سکون ایک اچھے ماحول ہی سے میسر آتا ہے اور یہ اچھا پرسکون ماحول ہائیر ایجوکیشن کمیشن فراہم کرسکتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔