اب آخری آپشن کے بعد؟

محمد سعید آرائیں  منگل 28 دسمبر 2021
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

میاں نواز شریف اور پیپلز پارٹی کی تین تین حکومتوں کے بعد ملک میں اقتدار میں لانے والی قوتوں کے پاس آخری آپشن صرف عمران خان تھے جن کا کریڈٹ 1992 میں پاکستان کو ورلڈ کرکٹ کپ جتوانا تھا جس میں پوری ٹیم کی کوشش شامل تھی مگر کامیابی یا ناکامی کا کریڈٹ ہمیشہ سربراہ کو ملتا ہے جو انھیں ملا اور بعد میں انھوں نے اپنی شہرت کے ذریعے اپنی والدہ کے نام پر کینسر اسپتال بنانا چاہا جس کے لیے انھوں نے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف سے زمین اور گرانٹ کی تحریری درخواست دی تھی ۔ میاں نواز شریف اور ان کے والد میاں شریف نے عمران خان کے اسپتال کی تعمیر میں مالی امداد بھی کی تھی۔

عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل دو بار قومی اسمبلی کے رکن ضرور منتخب ہوئے تھے کوئی انتظامی عہدہ ان کے پاس کبھی نہیں رہا تھا جس کی وجہ سے ان کی شہرت سیاسی طور پر اچھی تھی اور انھوں نے اپنی شہرت کے باعث کینسر اسپتال کے بعد 1996 میں اپنی سیاسی جماعت تحریک انصاف بنائی جس میں اس وقت کے اچھی شہرت کے حامل متعدد سیاستدان اور شخصیات صرف عمران خان کی وجہ سے ان سے اچھی توقعات وابستہ کرکے شامل ہوگئے تھے۔

عمران خان سے قبل ملک میں اچھی شہرت کے حامل ایک اور سیاستدان اصغر خان نے ایک نئی جماعت تحریک استقلال بنائی تھی جس میں متعدد اہم سیاستدانوں سمیت میاں نواز شریف بھی شامل رہے اور بھٹو صاحب کے خلاف بنائے گئے پاکستانی قومی اتحاد میں تحریک استقلال بھی شامل تھی اور اصغر خان نے ملک بھر میں اپنی صلاحیت سے زبردست مقبولیت حاصل کی تھی اور انھوں نے عمران خان سے بھی بڑے جلسے کیے تھے۔

اصغر خان پاک فضائیہ کے سربراہ تھے اور بھٹو دور میں سیاست میں آئے۔ اس وقت ملک میں کرپشن اتنی زیادہ نہیں تھی مگر وزیر اعظم بھٹو کی من مانیوں اور جمہوری آمریت نے اپوزیشن کو اسی طرح متحد کردیا تھا جیسے وزیر اعظم عمران خان نے اپنے غیر جمہوری رویے، من مانی اور خود کو عقل کل سمجھنے کی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے۔

بھٹو صاحب کا یہ بھی کارنامہ تھا کہ خودسر ہونے کے باوجود انھوں نے اپوزیشن کے مکمل تعاون سے ملک کو 1973 کا متفقہ آئین دیا تھا اور قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے سمیت متعدد فیصلے ملک کی اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر کیے تھے مگر اپوزیشن کو ساتھ لینے کی سیاسی ضرورت کے عمران خان قائل ہی نہیں ہیں اور انھوں نے اقتدار میں آتے ہی اپوزیشن کو نظرانداز کیا۔ قائد اپوزیشن کے تعاون کی پرخلوص پیشکش کو ٹھکرایا اور اپوزیشن کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کی پالیسی کے تحت اپوزیشن کے تمام اہم رہنماؤں اور اپنے مخالف سیاستدانوں کو گرفتار کرایا اور سب پر کرپشن سمیت متعدد الزامات لگائے جو اب تک عدالتوں میں ثابت نہیں کیے جاسکے اور سب ضمانتوں پر رہا ہو چکے ہیں۔

جنرل ضیا الحق کو مداخلت کی دعوت دینے کا الزام اصغر خان پر ضرور ہے۔ اصغر خان 1977 میں کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے اور سربراہ پاک فضائیہ کی حیثیت سے ان کی ایمانداری اور اچھے منتظم کی شہرت بھی تھی مگر جنرل ضیا کے طویل اقتدار اور ملک میں کرپشن کم ہونے کی وجہ سے بالاتروں کو اصغر خان کو اقتدار میں لانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی۔

جنرل ضیا نے 1985 میں مارشل لا کے باوجود اچھی شہرت کے ایک سیاستدان محمد خان جونیجو کو سیاسی وزیر اعظم بنایا تھا اور غیر جماعتی انتخابات کرائے تھے اور جنرل جیلانی کی سفارش پر نواز شریف کو پہلے صوبائی وزیر خزانہ اور بعد میں وزیر اعلیٰ پنجاب اس لیے بنایا تھا کہ وہ صنعت کار خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور نئے سیاستدان تھے جن سے کرپشن کی توقع جنرل ضیا کو شاید نہیں تھی اسی لیے انھیں آزمایا گیا تھا اور بالاتروں کے لیے بھی وہ قابل قبول تھے۔

1988 میں ملک میں عام انتخابات ہونا تھے مگر اگست 1988 میں ایک فضائی حادثے میں جنرل ضیا اور اعلیٰ فوجی افسروں کی شہادت کے باوجود ملک میں عام انتخابات کرائے گئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو اکثریت نہ ہونے کے باوجود قائم مقام صدر غلام اسحاق خان اور بالاتر اقتدار میں لائے تھے۔

صدر غلام اسحاق بیورو کریٹ تھے اور بے نظیر حکومت میں نواز شریف دوبارہ پنجاب کے منتخب وزیر اعلیٰ بنائے گئے تھے جو بے نظیر بھٹو کا متبادل سمجھے جاتے تھے اور بے نظیر کے پاس پنجاب کا اقتدار نہیں تھا۔ بے نظیر دور میں آصف علی زرداری کو اہمیت ملی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔