محترمہ بے نظیر بھٹو اور تاریخ کی چند غلطیاں !

علی احمد ڈھلوں  منگل 28 دسمبر 2021
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

محترمہ بینظیر بھٹو کو 27دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں قتل کردیا گیا۔گزشتہ روز ان کی 14ویں برسی تھی۔

بے نظیر بھٹو کے چاہنے والے اور معتمدین آج بھی ان کے ساتھ گزرے ہوئے ایام کو یاد کرتے ہیں ، کیوں کہ بے نظیر بھٹو شہید پاکستان کا روشن چہرہ اور روشن مستقبل تھیں،انھیں عالمی سطح پر آئرن لیڈی، دخترِ اسلام اور مشرق کی بیٹی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔محترمہ بینظیر بھٹو شہید وفاقِ پاکستان کی علامت اور عوام کی امنگوں کا مظہر بھی تھیں۔

آج نہ تو ہمیں اُن کے کھونے کا کوئی افسوس ہے اور نہ اُن کے قاتلوں کو ڈھونڈنے میں کوئی دلچسپی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو سے بھی کئی سیاسی غلطیاں سرزد ہوئی تھیں جن کا یہاں ذکر کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں کیوں کہ جب تک ہم اپنی اور اپنے قائدین کی غلطیوں کی نشاندہی نہیں کریں گے تب تک ہم خود احتسابی کے عمل سے گزرنے سے قاصر رہیں گے۔

لہٰذااگر ہم محترمہ کے سیاسی کیریئر کی بات کریں تو محترمہ کی سب سے بڑی غلطی یہ رہی کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پیپلزپارٹی کو حقیقی سیاسی پارٹی یا حقیقی عوامی پارٹی نہ بنا سکیں۔ وہ نہ تو پارٹی میں ڈسپلن قائم کر سکیں اور نہ کارکنوں اور جیالوں کو پارٹی کے ساتھ Connect کر کے رکھ سکیں۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں اتنا ظلم کسی نے نہیں سہا جتنا ضیاء الحق کے دور میں پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے سہا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ 1977 کے بعد پارٹی پر جب برا وقت شروع ہوا تو پاکستان بھر میں کارکنوں کو اُٹھایا جانے لگا، اُس وقت میرے والد محترم تحصیل قصور کے پیپلزپارٹی کے صدر تھے۔ تو ہمارے گھروں میں بھی چھاپے پڑنے شروع ہوئے، جس کے بعد والد صاحب کو دو مرتبہ جیل بھی جانا پڑا، اور ساتھ مجھے بھی جیل کی ہوا کھانا پڑی، حتیٰ کہ اُن دنوں حالات یہ تھے کہ ہمارے گھروں میں آئے مہمانوں کو بھی اُٹھا لیا جاتا۔

بھٹو کی پھانسی کے بعد حالات بدل گئے، پیپلزپارٹی نے سب سے پہلے 1979اور 1983 کے غیر جماعتی بلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور پھر 1985 کے غیر جماعتی عام انتخابات کا بائیکاٹ کرکے سب سے بڑی سیاسی غلطی کی۔ حالانکہ بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی نے لاہور میں کلین سویپ کیا تھا، لیکن جماعت کی سرپرستی نہ ہونے کے سبب تمام اُمیدوار تتر بتر ہو کر یا فروخت ہو کر حکومت کے ساتھ شامل ہوگئے۔

پھر 1983 کے بلدیاتی الیکشن میں بے نظیر نے اعلان کیا کہ جو اُمیدوار الیکشن میں حصہ لے گا ہم اُسے پارٹی میں نہیں رہنے دیں گے،اس کے بعد پھر1985 کے غیر جماعتی الیکشن میں بھی فیصلہ کیا گیا کہ جو اُمیدوار ان الیکشن میں حصہ لے گا پیپلز پارٹی کبھی اُسے اپنی جماعت میں نہیں رہنے دے گی اور کبھی اُسے واپس بھی نہیں لے گی۔ اس حوالے سے بعض جگہوں پر کہا جاتا ہے کہ 1985 کے انتخابات کے بائیکاٹ کی محترمہ کم قصور وار تھیں، اس سے زیادہ قصور وار ایم آر ڈی کا اتحاد تھا۔ جس میں نوابزادہ نصراللہ خان اور ایئرمارشل (ر)اصغر خان انتخابات کے بائیکاٹ کے حق میں تھے۔

پیپلز پارٹی اُس وقت بڑی جماعت تھی، اُسے الیکشن میں جانا چاہیے تھا، بادی النظر میں یہیں سے پیپلزپارٹی کے زوال کا وقت شروع ہو گیاتھا۔اور محترمہ بے نظیر بھٹو خود بھی اس فیصلے کو سیاسی زندگی کی سب سے بڑی غلطی سمجھتی رہی ہیں۔

محترمہ تسلیم کرتی رہیں کہ یہاں وہ زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہو گئیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک جمہوری معاشرے میں غیر جماعتی انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکے لیکن ضیاء الحق نے محترمہ کی اسی خود اعتمادی کافائدہ اٹھایا اور ملک میں غیر جماعتی انتخابات کروا کر ایک ایسی سیاسی اشرافیہ پیدا کی جو ہنوز پاکستانیوں پرمسلط ہے،جس کے نزدیک اصول و ضوابط نام کی کوئی چیز معنی نہیں رکھتی۔ ان کے نزدیک اہمیت صرف اور صرف اقتدار کی ہے اور اس کے لیے وہ کوئی بھی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں وگرنہ وہ ریاست کے وجود کو ہی تہس نہس کرنے سے گریز نہیں کریں گے ،یہی کچھ اس وقت پاکستانی سیاست میں ہو رہا ہے۔

1986 میں محترمہ پاکستان آئیں اور لاہور میں ایسا فقید المثال استقبال ہوا کہ دنیا دیکھتی رہ گئی، یہ استقبال اسی لیے تھا کہ محترمہ یعنی پیپلزپارٹی عوام کی اُمید تھی، لیکن 1988 کا الیکشن جیسے ہی آیا محترمہ اپنے تمام تروعدے بھول گئیں، اور فاروق لغاری اور اسٹیبلشمنٹ کی چالوں میں آگئیں۔

انھوں نے امیر، برادری والے اور مضبوط اُمیدوار تلاش کیے ،محترمہ نے اس دوران کسی کی پرواہ نہیں کہ کس کس نے پارٹی کے لیے قربانیاں دیں، کس کس نے کوڑے کھائے اور کون کون جیلیں کاٹتا رہا، اگر یہاں یہ کہا جائے کہ 1988میں پیپلزپارٹی کا ورکر پہلی مرتبہ Damage ہوا۔ اور پیپلزپارٹی کو پنجاب میں شکست ہوئی۔ اُس وقت کا میں چشم دید گواہ ہوں کہ پنجاب میں بے شمار ایسے اُمیدوار کھڑے ہوگئے جن کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں تھا، اس لیے پیپلزپارٹی کے ورکرز نے پارٹی کی اُس طرح کی مہم ہی نہیں چلائی جس طرح ماضی میں چلتی رہی۔

جیسے قصور میں سردار آصف احمد علی کھڑے ہوگئے۔ 1977 میں اُن کے والد سردار احمد علی نے پاکستان پیپلز پارٹی کی مدد سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور کامیاب بھی ہوئے مگر پاکستان قومی اتحاد کی احتجاجی تحریک چلی تو بعض دیگر ارکان اسمبلی کے ہمراہ جن میں سردار شوکت حیات خان، امیر عبداللہ روکڑی ، اور میر بلخ شیر مزاری وغیرہ شامل تھے ، قومی اسمبلی کی رکنیت سے بطور احتجاج استعفیٰ دے دیا۔ اس لیے ورکرز اُن سے خاصے نالاں تھے، لہٰذاکیسے ممکن تھا کہ 1988 میں انھیں دوبارہ ہم سپورٹ کرتے ۔ اسی طرح کی کئی سیٹیں پنجاب میں تقسیم کی گئیں جس سے پیپلزپارٹی کا ’’کرنٹ‘‘ اُسی وقت ختم ہوگیا۔

اس پر بے نظیر نے یہ موقف اختیار کیا کہ یہ وقت کی مجبوری ہے، لہٰذا ورکرز کو بعد میں ایڈجسٹ کر لیا جائے گا،لیکن اُس کے بعد تاریخ گواہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے بے نظیر کو ہوش ہی نہیں آنے دی۔

قصہ مختصر کہ پیپلزپارٹی ہمیشہ ہی دو طرح کی رہی ہے، جب پیپلزپارٹی اقتدار سے باہر ہوتی ہے تو اور قسم کے لوگ ہوتے ہیں، جب یہ پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو مفاد پرست آجاتے ہیں، تبھی یہ پارٹی آج ایک صوبے کی جماعت بن کر رہ گئی ہے، لہٰذااگر محترمہ آج زندہ ہوتیں تو یقینا وہ پارٹی پالیسی تبدیل کر دیتیں لیکن اب محترمہ نہیں ہیں تو پیپلزپارٹی کو خود احتسابی کے عمل سے گزرنا چاہیے اور اپنے جیالوں کو وہ حقوق دینے چاہئیں جس کے وہ حقدار ہیں ورنہ صوبہ سندھ بھی اُن کے ہاتھ سے جانے میں دیر نہیں لگے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔