نواز شریف کی وطن واپسی کے ممکنہ قانونی راستے

مزمل سہروردی  منگل 28 دسمبر 2021
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

آج کل میاں نواز شریف کی واپسی کی بہت بات ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا میاں نواز شریف کی واپسی کے قانونی راستے موجود ہیں۔ مجھے نہیں امید وہ کسی غیر قانونی راستے سے پاکستان واپس آئیں گے۔ وہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔ ملک کے تین دفعہ وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ اس لیے میاں نواز شریف کے تمام راستے قانون کے دائرے کے اندر ہی ہو سکتے ہیں۔ اس لیے اگر انھوں نے ملک میں واپس آنا ہے تو اس کے قانونی راستے سمجھنا ہونگے۔

جہاں تک نواز شریف کی نا اہلی کا تعلق ہے تو یہ معاملہ اب عدالتوں میں طے ہو چکا ہے۔ میں نہیں سمجھتا پاکستان کی کسی بھی عدالت کے پاس نواز شریف کی نا اہلی ختم کرنے کا اب کوئی اختیار ہے، وہ سپریم کورٹ سے نا اہل ہوئے اور انھوں نے اپنی نااہلی کے خلاف نظر ثانی بھی دائر کر لی تھی۔ جو مسترد بھی ہو گئی تھی۔ اس لیے پاکستان کے آئین و قانون کے تحت ان کے پاس اپنی نا اہلی ختم کروانے کے لیے عدالت کا کوئی آپشن نہیں ہے۔

اس لیے اگر نواز شریف وطن واپس آبھی جائیں تو ان کی نا اہلی کسی بھی عدالت سے ختم نہیں ہوسکتی۔ فیصلہ غلط تھا یا صحیح اب فائنل ہو چکا ہے۔ اس لیے نواز شریف کا جہاں وطن واپس آنا ممکن ہے۔ وہاں ان کی ناا ہلی ختم ہونا ممکن نہیں ہے۔ نا اہلی ختم ہونے کا واحد آپشن نئی قانون سازی ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ سے ایسی قانون سازی ممکن نہیں ہے۔ اس لیے جب تک نئی قانون سازی نہیں ہو جاتی۔ تب تک نواز شریف کی نا اہلی ختم نہیں ہو سکتی۔

اب جہاں تک احتساب عدالت کی سزا کا تعلق ہے۔ تو یہ معاملہ ابھی پاکستان کی عدالتوں میں زیر سماعت ہے۔ یہ بات درست ہے کہ نواز شریف کے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے عدالتوں نے ان کی اپیلوں کی سماعت نہیں کی۔ لیکن مریم نواز کی اپیلیں زیر سماعت ہیں۔ اب اگر مریم نواز کی اپیلوں کا جائزہ لیں تو ان اپیلوں کے فیصلہ سے ہی نواز شریف کی واپسی کا راستہ ممکن ہے۔

اگر مریم نواز کی احتساب عدالت کے فیصلہ کے خلاف اپیل منظور ہو جاتی ہے اور عدالت احتساب عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیتی ہے۔ تو پھر نواز شریف بھی اس فیصلہ کی بنیاد پر اسلام آباد کی عدالت میں نئی درخواست دائر کر سکتے ہیں۔

اور قانونی ماہرین کی رائے میں اس کے بعد نواز شریف کے لیے بھی اپنی رہائی حاصل کرنا مشکل نہیں ہوگا۔ جب ساتھی مجرم بری ہو جائے تو دیگر ملزمان کے لیے راستے کھل جاتے ہیں۔ ایسے میں احتساب عدالت کا فیصلہ اپنی حیثیت کھو دے گا۔ اور نواز شریف کو ریلیف ملنا بہت آسان ہو جائے گا۔ لیکن یہ نواز شریف اور مریم نواز کے لیے آئیڈیل صورتحال ہوگی۔ جس کے امکانات کم نظر آرہے ہیں۔

دوسری صورت یہ ہے کہ عدالت احتساب عدالت کے فیصلہ کو مسترد بھی کرے لیکن ساتھ ساتھ اس کیس کو دوبارہ ٹرائل کے لیے احتساب عدالت کو ہی بھیج دے۔ ایسی صورت میں عدالت یہ کہہ رہی ہوگی کہ احتساب عدالت دوبارہ مقدمہ سن کر فیصلہ کرے۔ یہاں بھی دو ممکنات ہیں کیا اسلام آباد ہائی کورٹ سارا کیس دوبارہ سننے کا حکم دے گی یا عدالت کیس کا دوبارہ فیصلہ کرنے کا بھی کہہ سکتی ہے۔ ایسی صورت میں وکلا دوبارہ دلائل دیں گے اور عدالت نیا فیصلہ دے گی۔ تاہم شہادتیں دوبارہ ریکارڈ نہیں ہونگی۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) مریم نواز اور نواز شریف کا کیس بھی یہی ہے کہ احتساب عدالت کے جج نے انھیں درست سزا نہیں سنائی ہے۔ جج ارشد ملک کی وڈیوز ریکارڈ پر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ بھی آڈیوز کی جو بھر مار کی جا رہی ہے وہ بھی ن لیگ کی طرف سے یہ کوشش ہے کہ وہ یہ ثابت کر سکے کہ احتساب عدالت کے جج نے انصاف کے تقاضوں کے مطابق فیصلہ نہیں کیا ہے۔ میاں نواز شریف مسلسل یہ کوشش کر رہے ہیں کہ وہ عوام کی عدالت اور قانون کی عدالت میں یہ ثابت کر سکیں کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔

اگر اسلام آباد ہائی کورٹ مریم نواز کی اپیل میں یہ فیصلہ کرتی ہے کہ مقدمہ کا دوبارہ ٹرائل کیا جائے تو یہ بھی نواز شریف کے لیے ایک بڑا ریلیف ہوگا۔ ویسے یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ کوئی غیر معمولی فیصلہ نہیں ہوگا۔ پاکستان کی عدالتوں میں مقدمات کو ریمانڈ کرنے اور ان کا ری ٹرائل کا حکم دینے کی ہزاروں نہیں لاکھوں مثالیں موجود ہیں۔ عدالتیں اکثر جب دیکھتی ہیں کہ ٹرائل میں کوئی بڑی کمی رہ گئی ہے تو مقدمہ کا ری ٹرائل کا حکم دیا جاتا ہے۔ اس لیے اگر مریم نواز کی اپیل میں کیس دوبارہ احتساب عدالت کو ریمانڈ کر دیا جاتا ہے۔ تو یہ بھی ریلیف کی ہی ایک شکل ہے۔

ایسی صورت میں بھی نواز شریف فوری واپس آسکتے ہیں۔ وہ بھی اسلام آباد ہائی کورٹ سے اپنے مقدمہ کے ری ٹرائل کی درخواست کریں گے۔ جب مریم نواز کو یہ حق مل گیا ہوگا تو نواز شریف کو یہ حق دینے میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آئے گی۔

ایسی صورت میں بھی نواز شریف کی واپسی کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ اس صورت میں یہ ممکن ہے کہ نواز شریف واپس آئیں تو انھیں جیل جانا پڑ جائے۔ وہ آتے ہی جیل جائیں گے ۔ جیل سے کچھ دن بعد ان کی درخواست اسلام آباد میں دائر ہوگی اور وہ وہاں سے ریلیف حاصل کر کے باہر آجائیں گے۔ لیکن اندر جانا کوئی لازمی نہیں ہو گا۔وہ واپسی پر اپنے وکلا سے ضمانت قبل از گرفتاری بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اور اگر ضمانت قبل از گرفتاری مل جائے تو یہ بھی ممکن ہے کہ انھیں وطن واپسی پر جیل بھی نہ جانا پڑا۔

تیسری صورت یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ مریم نواز کی اپیلوں کو مسترد کر دے اور احتساب عدالت کی سزا کو بحال رکھے۔ ایسی صورت میں مریم نواز کو فوری جیل جانا پڑے گا۔ جب مریم نواز جیل چلی جائیں گی تو سیاسی طور پر نواز شریف کے لیے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ وہ باہر بیٹھے رہیں۔ ان کی بیٹی جیل میں ہوگی تو انھیں اپنی سیاسی پوزیشن کے لیے واپس آکر جیل جانا ہوگا۔ ابھی مریم نواز باہر ہیں۔ اس لیے نواز شریف کا باہر ہونے کا سیاسی جواز موجود ہے۔

اس لیے اگر مریم نوا زکی اپیل مسترد ہو جاتی ہے وہ جیل چلی جاتی ہیں تو بھی نواز شریف کو وطن واپس آنا ہوگا۔ ایسی صورت میں بھی مریم نواز کے پاس ابھی سپریم کورٹ کا آپشن موجود ہوگا۔ وہ سپریم کورٹ میں اپیل کریں گے اور وہاں سے دوبارہ ضمانت حاصل کر سکیں گی۔ نواز شریف بھی ضمانت حاصل کر سکیں گے۔ لیکن یہ مشکل راستہ ہوگا۔ اس صورت میں نواز شریف اور مریم نواز کے لیے سیاسی طور پر بہت نقصان ہوگا۔ پہلی دوآپشن ان کے لیے زیادہ بہتر ہونگی۔

جہاں تک اس حکومتی موقف کا تعلق ہے۔ کہ نواز شریف کا لندن میں ویزہ ختم ہو رہا ہے۔ اس لیے ان کے پاس وطن واپسی کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ درست نہیں۔ ان کے پاس ابھی دو اپیلوں کا حق وہاں موجود ہوگا۔ وہ ابھی بھی اپیل میں ہیں۔

لندن سے ڈی پورٹ ہونے کی روایت بہت کم ہے اور یہ بہت مشکل بھی ہے۔ برطانیہ کے قوانین کو سمجھنے والوں کی رائے میں ابھی چند سال نواز شریف وہاں آسانی سے رہ سکتے ہیں۔ حالات بہت خراب ہو جائیں تو وہ سیاسی پناہ بھی لے سکتے ہیں۔ اس لیے ڈی پورٹ ہونے کی صورت میں واپسی کے امکانات بہت کم ہیں۔ یہ ایک سیاسی پراپیگنڈہ ہے تاکہ نواز شریف کی واپسی کو یہ رنگ دیا جا سکے۔

اس لیے لوگ بے شک ڈیل کی باتیں کریں۔ لوگ لندن پلان کی باتیں کریں۔ تا ہم ان کی واپسی کے قانونی راستوں پر ہی نظر رکھنا ہوگی۔ وہ بے نظیر بھٹو کی طرح کسی این آر او سے واپس نہیں آئیں گے۔ اس لیے جو بھی ہو گا عدالتوں سے قانون کے اندر رہ کر ہی ہوگا۔ باقی سب سیاسی باتیں ہی ہیں۔ جن کی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔