قومی سلامتی پالیسی کی منظوری

ایڈیٹوریل  بدھ 29 دسمبر 2021
پالیسی ریٹ میں کمی کرنا ہوگی جس سے کاروبار بڑھے گا، مہنگائی کم ہو گی۔ فوٹو: فائل

پالیسی ریٹ میں کمی کرنا ہوگی جس سے کاروبار بڑھے گا، مہنگائی کم ہو گی۔ فوٹو: فائل

قومی سلامتی کمیٹی نے ملک کی پہلی قومی سلامتی پالیسی 26-2022 کی منظوری دیدی ، پالیسی آج وفاقی کابینہ میں پیش کی جائے گی۔

وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں خارجہ ، دفاع ، اطلاعات ، داخلہ ، خزانہ، انسانی حقوق کے وفاقی وزرا، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، تینوں مسلح افواج کے سربراہان، مشیر قومی سلامتی اور سینئر سول و عسکری حکام نے شرکت کی۔

وزیراعظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’پہلی قومی سلامتی پالیسی کی تیاری اور منظوری تاریخی اقدام اور قومی سلامتی ڈویژن اور تمام متعلقہ اداروں کی کاوشیں لائق تحسین ہیں، پاکستان کسی بھی داخلی اور خارجی خطرات سے نبرد آزما ہونے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے، قومی سلامتی پالیسی پر موثر عملدرآمد کے لیے تمام ادارے مربوط حکمت عملی اپنائیں۔ ملک کا تحفظ شہریوں کے تحفظ سے منسلک ہے۔‘‘

انھوں نے مشیر قومی سلامتی کو پالیسی پر عملدرآمد کے لیے ماہانہ رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی۔ مشیر قومی سلامتی نے پالیسی کے خدوخال پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی ایک جامع قومی سیکیورٹی فریم ورک کے تحت ملک کے شہریوں کا تحفظ، سیکیورٹی اور وقار یقینی بنائے گی، شہریوں کے تحفظ کی خاطر پالیسی کا محور معاشی سیکیورٹی ہوگا، معاشی تحفظ ہی شہریوں کے تحفظ کا ضامن بنے گا۔

یہ حقیقت ہے کہ دنیا اکنامک ڈپلومیسی کی اہمیت کا گہرا ادراک رکھتی ہے، جمہوریت کو جن خطرات کا سامنا ہے ، اسے امریکا کے اسٹرکچرل انحطاط میں دیکھا جاسکتا ہے۔ صدر جوبائیڈن نے عالمی جمہوری نظام کو درپیش مسائل پر ایک گزشتہ بین الاقوامی کانفرنس میں جمہوری خدشات ، چیلنجز اور مسائل کا جائزہ لیا ، مغربی جمہوریتیں بلاشبہ عرصہ دراز سے جمہوریت کو تاریک راستوں پر چلنے کے خطرات کا مشاہدہ کرتی نظر آ رہی ہیں۔

امریکی دانشور اور دیگر یورپی فلسفی بھی جمہوریت کے Darker تناظر کا تجزیہ کرچکے ہیں ، انھیں مغربی جمہوریتوں پر دبائو اور اس کی داخلی کمزوریوں اور انحطاط پر گراں قدر تحقیق سے بہتری کی امید تو ہے، مگر سیاسی ماہرین نے جمہوریت کو اقتصادی خطرات کا سامنا کرنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ عالمی سطح پر بھوک ، معاشی مسائل ، افراط زر اور بیروزگاری کے سنگین مسائل سے دنیا لرز رہی ہے، چنانچہ قومی سلامتی کمیٹی نے جن زمینی حقائق کی تصویر کشی کی ہے۔

ملک کو ان حقیقی مسائل کا فوری ادراک کرنا چاہیے اور جن مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے حکمراں ملکی سیاست اور اقتصادی و معاشی صورتحال کی اصلاح کے لیے ملکی معیشت کو درست ٹریک پر ڈالنے کے لیے اقدامات کریں۔ میڈیا نے اسٹاک مارکیٹ کی ناگفتہ بہ صورتحال اور ڈالر کی خاموشی سے فلائٹ پر شدید تشویش ظاہر کی ہے۔

وزیراعظم نے معاشی استقامت اور اقتصادی نظام کی مضبوطی کو ملکی سالمیت کا ضامن قرار دینے کی حقیقت درست تناظر میں بیان کی ہے، اسلحہ کی دوڑ سے بالاتر حقائق اقتصادی اور معاشی ہیں، عوام کو ریلیف اورینٹڈ معیشت درکار ہے، بلاشبہ قومی سلامتی پالیسی ملکی حالات کے پیش نظر دو سال پہلے جاری ہوتی تو اس کی نتیجہ خیزی رجحان ساز پالیسی ثابت ہوتی، بہر حال دیر آید درست آید ، اب اس پر عمل میں مستعدی شرط ہے۔

اس دستاویز کو قومی اقتصادی معاملات میں ایک بنیادی تبدیلی کا سنگ میل بنانے کی ضرورت ہے، بتایا جاتا ہے کہ پالیسی سازی کے دوران تمام وفاقی اداروں، صوبائی حکومتوں ، ماہرین اور پرائیویٹ سیکٹر سے تفصیلی مشاورت کی گئی، پالیسی پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے فریم ورک تیار کیا گیا ہے، قومی سلامتی کمیٹی سے منظوری کے بعد پالیسی وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کی جائے گی۔

اجلاس میں پلاننگ کمیٹی کی تجدید نو اور نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے ایڈوائزری بورڈ میں توسیع کی بھی منظوری دی گئی۔ علاوہ ازیں ترجیحی شعبوں پر جائزہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا ہماری حکومت نے تاریخ میں پہلی بار ایک جامع ایگریکلچر ٹرانس فارمیشن پلان بنایا اور اسے ترجیحی بنیادوں پر نافذ کر رہی ہے، حکومت کی توجہ برآمدی صنعتوں کے قیام کے لیے خصوصی اقتصادی زونز میں سرمایہ کاری کو بڑھانے پر ہے۔ زراعت کے شعبے کی میکانائزیشن، معیاری بیج کی فراہمی، پانی کا موثر انتظام اور لائیو اسٹاک فارمنگ میں کسانوں کی مدد اس کو زیادہ پیداوار دینے والے معاشی شعبے میں تبدیل کر رہی ہے۔

رواں مالی سال 2021-22  کے پہلے 5 ماہ (جولائی تا نومبر) کے دوران کرنٹ اکائونٹ خسارہ اور روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔ خسارے میں 7.1 ارب ڈالر کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو پچھلے سال اس عرصے دوران ایک ارب 90 کروڑ ڈالر تھا جب کہ ترسیلات زر ، نان ٹیکس آمدنی، برآمدات سمیت درآمدات ، ایف بی آر محصولات اور بڑی صنعتوں کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے جب کہ 5ماہ کے دوران مہنگائی کی اوسط شرح 9.3 فیصد رہی جو پچھلے سال اسی عرصے کے دوران 8.76  فیصد تھی۔

رواں ماہ (دسمبر) بھی مہنگائی دہرے ہندسے میں رہنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے ، البتہ نومبر کے مقابلے میں مہنگائی میں کمی کا امکان ہے۔ معیشت پر جاری کردہ ماہانہ اپ ڈیٹ آئوٹ لک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں مالی سال 2021-22کے پہلے 5 ماہ کے دوران ملکی برآمدات 12.3ارب ڈالر رہیں جو گزشتہ مالی سال 2020-21کے اسی عرصے کے مقابلے میں28.9 فیصد زیادہ ہیں، اس کے برعکس ملکی درآمدات29.9 ارب ڈالر رہیں جو گزشتہ مالی سال 2020-21کے اسی عرصے کے دوران ہونے والی18.2 ارب ڈالر کی درآمدات کے مقابلے میں64.4  فیصد زیادہ ہیں۔

اس لحاظ سے رواں مالی سال 2021-22کے پہلے 5 ماہ کے دوران ملک کا تجارتی خسارہ 17.6ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا۔ آئوٹ لک رپورٹ کے مطابق ایف بی آر کے ریونیو میں 36.8 فیصد اضافہ ہوا ، نان ٹیکس ریونیو5.4 فیصد بڑھا ، جولائی تا اکتوبر مالیاتی خسارہ 587 ارب روپے رہا، پرائمری بیلنس 206 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا ، رپورٹ کے مطابق جولائی سے نومبر میں زرعی شعبے کے لیے488 ارب 50کروڑ روپے جاری کیے گئے۔

نومبر میں مہنگائی کی شرح11.5 فیصد، جولائی تا نومبر مہنگائی کی اوسط شرح9.3  فیصد رہی۔ 23 دسمبر 2021 تک ایک ڈالر178.12 روپے کا ہوگیا۔ 23دسمبر 2021 تک زرمبادلہ کے ذخائر 23 ارب96 کروڑ 80لاکھ ڈالر تک پہنچ گئے۔ رواں مالی سال کے پہلے 5 ماہ میں ترسیلات زر 9.6 فیصد اضافے سے 12.9 ارب ڈالر ریکارڈ، ملکی برآمدات 28.9فیصد اضافے سے 12.3 ارب ڈالر کی سطح تک پہنچ گئیں۔

ملکی درآمدات 64.4 فیصد اضافہ سے29.9  ارب ڈالر کی سطح تک پہنچ گئیں۔ 5ماہ میں سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں 9.7فیصد کی شرح سے بڑھوتری ریکارڈ کی گئی جو12.9 ارب ڈالر ہے۔ برآمدات میں 28.9  فیصد جب کہ درآمدات میں 64.4 فیصد کی نمو ریکارڈ کی گئی۔

جولائی سے لے کر نومبر تک کی مدت میں 12.3ارب ڈالر کی برآمدات ریکارڈ کی گئیں۔ پہلے 5 ماہ میں مجموعی غیرملکی سرمایہ کاری کا حجم 455.5  ملین ڈالر ریکارڈ کیا گیا۔ مالی سال کے پہلے 5ماہ میں زرمبادلہ کے ذخائر میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا، جن کا حجم رواں سال 23 دسمبر کو23.96 ارب ڈالر تھا۔

ادھر مسلم لیگ ن نے منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک کی خود مختاری سے متعلق بلز مسترد کرتے ہوئے قانون سازی ہر صورت روکنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں منی بجٹ کے حوالے سے پارٹی حکمت عملی طے کر لی گئی۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کا کہنا ہے کہ تین سال میں پی ٹی آئی نے ملک کا وہ کباڑا نہیں کیا جو منی بجٹ سے ہوجائے گا ، ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ ایک بیان میں مسلم لیگ ن کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا کہ با ضمیر حکومتی ارکان اور اتحادیوں سے پھر کہتا ہوں کہ منی بجٹ زہر کا پیالہ ہے اس سے دور رہیں۔ منی بجٹ سے پاکستان کی معیشت بیرونی سہارے کی مرہون منت ہوکر رہ جائے گی۔ منی بجٹ سے معیشت اور عوام کا گلا کاٹنے کے بجائے پاکستان کو درپیش مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیے 10سالہ پائیدار معاشی پالیسی بنانا ہوگی۔

پالیسی ریٹ میں کمی کرنا ہوگی جس سے کاروبار بڑھے گا، مہنگائی کم ہو گی۔ حکومت نے آئی ایم ایف سے مذاکرات جلد بازی اور افراتفری میں کیے۔ بڑھتی مہنگائی، کرنٹ اکائونٹ خسارہ میں اضافہ اور روپے کی قدر میں مسلسل کمی ٹِک ٹِک کرتے بم ہیں۔ ہفتہ وار اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا اشاریہ دو سال کی بلند ترین سطح 19.83 فیصد پر ہے۔ زرمبادلہ ذخائر میں1.6فیصد کمی ہوئی۔ غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر25.027  ارب ڈالر سے کم ہوکر 24.633 ارب ڈالر پر آگئے۔

امید کی جانی چاہیے کہ حکمراں سیاسی حدت میں کمی لانے کی کوشش کریں گے، سیاسی جماعتوں نے آئینی معیاد کا بڑا حصہ سیاسی چپقلش ، محاذ آرائی اور بلیم گیم کی نذر کیا لیکن اس سے عوام کو کچھ حاصل نہیں ہوا ، ملکی معیشت کی اصلاح کا کام آج بھی تشنہ ہے۔

ملکی سلامتی، اقتصادی اصلاحات اور قومی خزانہ کو لبا لب بھرنے کے دعوے اگر پورے ہوجاتے تو عوام کو معاشی آسودگی حاصل ہوتی، تعلیم و صحت کی سہولتوں سے عوام مستفید ہوتے، قوم ایک بہتر جمہوری اور سیاسی و سماجی ماحول میں سکون سے نئے سال کا امید اور توقعات سے استقبال کرتی۔ بہرکیف سیاست امکانات کا خوبصورت کھیل ہے، عوام کو ایک پائیدار جمہوری ماحول دینے میں وقت ابھی باقی ہے، تاہم دل گرفتہ عوام چیلنجز سے نمٹنے میں ہمہ وقت مصروف ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔