نئے سال میں ادارے مضبوط کریں، شخصیات نہیں!

علی احمد ڈھلوں  بدھ 29 دسمبر 2021
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

نیا سال شروع ہونے کو ہے، مگر اس سال کے آخر میں بھی ہم غمزدہ ہیں کہ کسی ادارے نے ترقی نہیں کی، بلکہ ترقی کا پہلا زینہ بھی طے نہیں کیا، حتیٰ کہ کچھ اداروں نے تو یہ بھی جاننے کی کوشش نہیں کی کہ ’’ترقی‘‘ اور بہتری ہوتی کیا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس ہر طرف شخصیت پرستی کا طوطی بولتا رہا، ہر پارٹی میں شخصیت پرستی کا راج رہا۔

ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں میں یہی حال ہے۔ آپ پاکستان کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں،کوئیاداروں کو مقدسّ گائے ثابت کرنے لگا رہا اور اب بھی ایسا ہی ہے۔ یہ ضیاء لحق کے لیے ’’مردِمومن مردِحق‘‘ کے نعرے میں نظر آئے گی۔ یہ آپ کو بھٹو زندہ ہے کہ نعرے میں نظر آئے گی۔

یہ آپ کو مشرف کی پشت پناہی کرنے والوں میں نظر آئے گی ۔یہ آپ کو زرداری سب پر بھاری کے نعرے میں نظر آئے گی ۔ یہ آپ کو  نوازشریف کے چاہنے والوں میں آئے گی ۔ یہ اے این پی میں نظر آئے گی، ایم کیو ایم میں نظر آگے گی ۔  جے یو آئی میں نظر آئے گی ۔ یہ مریم نواز کو لیڈر بنانے والوں میں نظر آئے گی، ایسی ہی شخصیت پرستی عمران خان کی عظمت کا گن گانے والوں میں نظر آرہی ہے  جو سنگین غلطیاں کرنے کے بعد بھی خان صاحب کو نجات دہندہ کا درجہ دے رہے ہیں۔

کیا کبھی لیڈر نے سوچا کہ جو ملک ترقی نہیں کرتے، اُن کی کیا وجوہات ہیں؟ اور جو ترقی کر جاتے ہیں، اُن کے کیا راز ہیں؟ اگر ہم اپنا کوئی ترقی کا ماڈل نہیں بنا پا رہے تو ہم ترقی یافتہ ملکوں کو کاپی بھی کیوں نہیں کر پارہے۔ امریکا کی ترقی کی کیا وجہ ہے؟ فرانس، جرمنی،برطانیہ یا جاپان و چین نے ترقی کیوں کی؟ میں دعویٰ کرتا ہوں کہ ان تمام ممالک کی ترقی میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ جدید دور کے ساتھ چلنا، ماضی سے سبق لینا ، تحقیق کو فروغ دینا۔ اس کے برعکس ہمارے قائدین ماضی کو کریدکر عظیم الشان بنانے کے چکر میں لگے رہتے ہیں۔

آج دنیا مریخ کا سفر شروع کرنے والی ہے،  پوری دنیا ایک موبائل کے کلک پر آپ کے سامنے موجود ہے، دنیا ’’ڈیجیٹل لینڈ‘‘ کی جانب گامزن ہے، مغربی ممالک یہ لینڈ ڈیجٹیل طریقے سے ایک دوسرے کو بیچ کر اپنی ’’لینڈ کرنسی‘‘ کو مضبوط کر رہے ہیں اور ہم ہیں کہ شخصیت پرستی کے جادو سے ہی باہر نہیں نکل پار ہے۔ قصہ مختصر کہ دنیا میں جتنے بھی ملکوں نے ترقی کی، کسی ایک نے بھی شخصیت پرستی نہیں کی۔

دوسری جنگ عظیم میں وزیراعظم سر ونسٹن چرچل برطانوی عوام کا ہیرو تھا۔ اس نے حیران کن جرات، دلیری اور تدبر سے انگلش قوم کی قیادت کی اور ہٹلر کے طوفان سے بچایا لیکن جنگ کے فوری بعد برطانیہ میں عام انتخابات ہوئے، چرچل کو اپ سیٹ شکست ہوئی اور لیبر پارٹی کے ایٹلی وزیراعظم بن گئے۔

وہاں کے عوام نے شخصیت پرستی کو فروغ دینے کے بجائے ایٹلی کو وزیراعظم بنا دیا۔ اگر چرچل اقتدار کے ساتھ چمٹے رہتے اور اُن کی اولاد اقتدار سنبھالتی تو شاید برطانیہ آج ایک تیسری دنیا کا ملک ہوتا۔امریکی صدر اوباما ریٹائرڈ ہوئے تو وہ واپس نہیں آئے، اور نہ ہی اپنی بیٹیوں کو سیاست میں زبردستی دھکیلا، بلکہ پینٹاگون اُن کے تجربے سے استفادہ کر رہا ہے، اور وہ کسی نہ کسی تھنک ٹینک کا حصہ ہیں۔ صدر کلنٹن بھی جوانی میں ہی سیاست سے ریٹائرڈ ہوئے اور وہ دوبارہ سیاست میں نہ آئے ۔ ان کی بیگم ہیلری کلنٹن سیاست میں آئیں لیکن وہ اپنی الگ پہچان اور سسٹم سے گزر کر سیاست میں آئیںاور صدارتی الیکشن لڑا ۔

لہٰذانئے سال میں ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ ہم جدید تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالیں گے، اپنے اداروں کو ڈھالیں گے،نئے سسٹم تلاش کریں گے، شخصیت پرستی چھوڑیں گے، اور دقیانوسی کی باتوں، حرکتوں پر مکمل کنٹرول کریں گے۔ اگر پوری دنیا سوشل میڈیا ایپس بنا کر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو کنٹرول کر رہی ہے تو ہم ایسی جدت لانے سے گریزاں کیوں ہیں؟ آپ دیکھیں بھارت اس وقت ہم سے کتنا آگے نکل چکا ہے، وہ دنیا سے سیکھ رہا ہے، دنیا بھر کی بڑی سوشل میڈیا کی کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو آفیسر انڈیا کے بن چکے ہیں۔

لیکن وہ بھی کئی میدانوں میں پیچھے صرف اس لیے رہ گیا ہے کیوں کہ وہاں بھی کئی محاذ پر شخصیت پرستی آڑے آرہی ہے ۔ لہٰذاجس دن ہم لوگ اپنی اس پرستش کا محور کسی ادارے، شخصیت،اور خاندان کے بجائے وژن اور سوچ کی طرف موڑ لیں گے، دنیا کی کوئی طاقت اس کی ترقی کے آگے نہیں ٹک سکے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔