پی ٹی آئی کی مشکلات

محمد سعید آرائیں  بدھ 29 دسمبر 2021
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

بے نظیر بھٹو پہلی بار اقتدار میں آئیں اور انھیں ڈیڑھ سال تک حکومت کا موقعہ ملا جس کے دوران ملک میں کرپشن کی باتیں تواتر سے ہونے لگیں اور ہدف آصف زرداری کو بنایا گیا۔

بے نظیر بھٹو نے بالاتروں کے دباؤ کیوجہ سے غلام اسحاق خان کو صدر بنوایا تھا اور جنرل اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت بھی دیا تھا مگر ان کی اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف سے نہیں بن سکی تھی ، جنھیں بالاتروں کی حمایت حاصل تھی۔

بے نظیر کے پہلے دور میں آصف علی زرداری پر کرپشن کے الزامات لگتے رہے اور وہ مسٹر ٹین پرسنٹ کے طور پر مشہور کیے گئے تھے ۔ملک میں کرپشن کی باتیں بڑے سائنسی انداز میں پھیلائی گئی اور یہ عوامی اور سیاسی سطح پر بحث کا حصہ بن گئیں۔

1990 میں بے نظیر بھٹو حکومت جب برطرف ہوئی تو دیگر الزامات میں کرپشن کے الزامات نمایاں تھے اور اسلامی جمہوری اتحاد بھی ان کے خلاف بن چکا تھا۔ نگران وزیر اعظم غلام مصطفیٰ جتوئی کی سربراہی میں دوبارہ انتخابات ہوئے جن میں نواز شریف نے پنجاب میں ’’ جاگ پنجابی جاگ ‘‘کا نعرہ لگایا تھا اور وہ غلام مصطفیٰ جتوئی کی جگہ وزیر اعظم بننا چاہتے تھے، دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی اپنی اکثریت کے باوجود سندھ میں بھی اپنی حکومت نہ بنا سکی تھی اور جام صادق پی پی سے توڑ کر وزیر اعلیٰ بنوائے گئے تھے۔

نواز شریف پہلی بار وزیر اعظم بن گئے تھے اور انھوں نے کھل کر اختیارات استعمال کرنا چاہے تو معاملات بگڑ گئے۔ امیر ہونے کے باوجود ان پر کرپشن کے الزامات لگنے لگے۔ نواز شریف نے اپنے دور میں کرپشن سے مال بنایا یا نہیں، اس پر تو عدالتیں ہی فیصلہ کرسکتی ہیں مگر یہ تو ثابت ہے کہ  وہ اسٹیبلشمنٹ کی گود میں پل کر اقتدار میں آئے تھے مگر بعد میں وہ صدر اسحاق جو بالاتروں کی چوائس تھے اور نواز شریف کو اپنے حصار میں رکھنا چاہتے تھے مگر نواز شریف نے اعلانیہ ڈکٹیشن نہ لینے کا نعرہ لگایا، پھر برطرف اور بحال ہوئے ، ان کا سخت موقف صدر اسحاق کو بھی لے ڈوبا۔

دونوں اقتدار سے گئے اور بے نظیر بھٹو کو دوبارہ اقتدار میں لایا گیا پھر کرپشن کے الزامات پر بے نظیر بھٹو حکومت دوبارہ برطرف ہوئی ۔ نواز شریف بھی اقتدار میں آ کر عمران خان کی طرح بالاتروں کا احسان ماننے کے عادی نہیں تھے اور من مانی چاہتے تھے۔ نواز شریف اور بے نظیر کی حکومتیں دو دو بار برطرف ہوئیں اور دونوں نے اپنے اپنے دور میں ایک دوسرے پر کرپشن کے مقدمات بنوائے تھے۔

آصف زرداری کرپشن الزامات میں جنرل مشرف دور تک کئی برس جیل میں رہے۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی نواز شریف اور بے نظیر پر کرپشن پر مقدمات بنوائے تھے۔ اپنے سیاسی مفاد کے لیے جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کو سعودیہ بھیجا تو بے نظیر خود جلاوطن ہوگئیں اور آصف زرداری جیل میں رہے۔ جنرل پرویز مشرف دونوں کو کرپٹ ثابت کرنے میں لگے رہے مگر دونوں کے حامیوں نے دونوں کی حکومتوں کی کرپشن کو تسلیم نہیں کیا اور نہ آصف زرداری کی کرپشن کہیں ثابت ہوئی نہ اب تک نواز شریف کو کرپشن کے الزام میں سزا دلائی جاسکی اور وہ تیسری بار وزیر اعظم اور آصف زرداری صدر مملکت بنے۔

دونوں پر نیب اب تک کرپشن ثابت نہیں کرسکا مگر عمران خان اپنی حکومت میں مسلسل شریف خاندان اور بھٹو خاندان بمع آصف زرداری پر کرپشن کے سنگین الزامات لگانا اپنی عادت بنا چکے ہیں اور ان کی سیاست کا محور ان کی مبینہ کرپشن ہے جو وہ کہیں بھی ثابت نہیں کراسکے اور ان کی باتوں سے عوام بھی بے زار ہوچکے ہیں۔ ملک کے عوام نے اگر پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی کرپشن تسلیم کی ہوتی تو دونوں پارٹیاں تیسری بار اقتدار میں نہ آتیں۔

دونوں پارٹیوں پر کرپشن کے مسلسل الزامات لگنے کے بعد بھی عوام انھیں مسترد نہیں کر رہے تھے جس پر بالاتروں نے تیسرا آپشن عمران خان کی تعریفوں پر آزمایا جو چالیس ماہ میں اپنی کوئی بات پوری کرسکے نہ اپنی اہلیت دکھا سکے۔

عوام کے ایک حصے کی طرح بالاتر انھیں بڑی امیدوں سے اقتدار میں لائے تھے جو آخری آپشن ثابت ہوچکا ہے اور پی ٹی آئی رہنما بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ عمران حکومت میں کرپشن کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھی اور ملکی معیشت تباہی کے دہانے پہنچا دی گئی اور ملک کے عوام مہنگائی اور بے روزگاری کے طوفان میں پھنس چکے ہیں اور پی ٹی آئی کا نیا پاکستان اب مسترد ہو چکا۔ ماضی کے مبینہ چور اور ڈاکو بالاتروں کے نئے آپشن سے بہتر قرار دیے جا رہے ہیں جس کا واضح ثبوت بالاتروں کے اپنے کنٹونمنٹس اور کے پی کے بلدیاتی انتخابات میں عوام دے چکے ہیں اور اپوزیشن پر عوام کا اعتماد ثابت ہو چکا ہے۔

عمران خان پر آخری آپشن ناکام ہو چکا اور عوام ماضی کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ وہ بری طرح مایوس ہوچکے ہیں اور ملک بھی اب مزید کسی تجربے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔