…جو چلے تو جاں سے گزر گئے

اطہر قادر حسن  بدھ 29 دسمبر 2021
atharqhasan@gmail.com

[email protected]

وقت جیسے پلک جھپکنے میں گزر گیا، بینظیر بھٹو کی شہادت کو چودہ برس گزر گئے۔ان کی سیاست سے لاکھ اختلاف کیا جا سکتاہے مگرجمہوریت کے سفر میں جتنی قربانیاں بھٹو خاندان نے دی ہیں، دنیا میں اس کی مثال کم ہی ملتی ہے ۔

شہید بینظیر کے سیاسی جانشین ان کے اکلوتے فرزند بلاول بھٹو نے شاید ٹھیک ہی کہا ہے کہ ان کی ڈیل صرف عوام اور شہداء سے ہے ۔ انھوں نے کم سنی میں ماں کو کھویا ہے، اس لیے ان کے خیالات اور سیاسی حکمت عملی اپنے والد بزرگوار سے مختلف ہے۔

عمومی رائے ہے کہ اگر بلاول کو آزادانہ سیاست کرنے دی جائے تو پیپلز پارٹی ایک مرتبہ پھر وفاق کی پارٹی بن کر ابھرے گی۔ بینظیر بھٹو کی شہادت پر 29دسمبر2007 کو میرے مرحوم والد عبدلقادر حسن کا شایع ہونے والاکالم قند مکرر ہے۔

’’بھٹو خاندان کا آخری خون آلود چراغ بھی اس ملک کے دروبام پر روشن ہو گیا ۔ظلم کی انتہا ہو گئی ۔ پہلی بار معلوم ہوا کہ سکتہ طاری ہونے کی کیفیت کیا ہوتی ہے۔ پوری رات گزر چکی ہے، ذہن مائوف ہی رہا اور اب جب چند سطریں لکھنے پر مجبور ہوں کہ شاید دل کا غبار کم ہو جائے تو الفاظ غائب ہیں اور سمجھ میں نہیں آرہاکہ زندگی بھر جس سے اختلاف کرتے رہے، اس کے پاس ایسی کیا کرامت تھی کہ اس کی جدائی نڈھال اور بے حال کر گئی۔ یوں لگ رہا ہے اور ندامت اس حد تک دل و دماغ کے آر پار ہو رہی ہے جیسے آج وہ ہم سب پر طنز کر رہی ہو اور سرخرو ہو کر کہہ رہی ہوکہ ۔۔

مرے چارہ گر کو نوید ہو ‘صف دشمناں کو خبر کرو

جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر‘ وہ حساب آج چکا دیا

کرو کج جبیں یہ سر کفن میرے قاتلوں کو گماں نہ ہو

کہ غرور عشق کا بانکپن پس مرگ ہم نے بھلا دیا

بے نظیر کو پورا پاکستان آنسوئوں‘ سسکیوں اور غم واندوہ کی انتہائوں سے گزر کر وداع کر رہا ہے ۔ یہ صرف ایک بیٹی ‘بہن کی موت نہیں اس پر پورا ملک دائو پر لگ گیا ہے۔ اس سے تو بہتر تھا وہ وطن واپس ہی نہ آتی مگر اسے واپسی کا بہت شوق تھا۔ اس کے لیے اس نے وہ کچھ کیا جو اسے نہیں کرنا چاہیے تھا یا وہ نہیں کرنا چاہتی تھی مگر وہ سب کچھ کر گزری کہ اپنے وطن عزیز کی بہاریں دیکھ سکے جو اب اس کے بغیر خزائوں میں بدلتی جارہی ہیں۔ وہ وطن لوٹنے سے پہلے سے ہی باربار کہہ رہی تھی کہ اس کی جان کو خطرہ ہے ۔

اسے معلوم تھا کہ وہ کیا ہے اور کیا کچھ کر سکتی ہے اور اس کے دشمن کتنے طاقت ور ہیں ۔ یوں لگتا ہے جیسے اس کی کسی حس نے اسے آنے والے خطروں سے آگاہ کر دیا تھامگر وہ اس کے باوجود اپنی ضد پر قائم رہی ۔ اس کی یہ ضد ہمیں لے ڈوبی۔ آج اگر ایک دوسرے لیڈر میاں نواز شریف یہ نہ کہتے کہ وہ اس کا مشن لے کر چلیں گے اور وہ اس کی میت پر دھاڑیں مار مار کر نہ روتے تو ہماری مایوسی کے اندھیرے ہمیں نگل جاتے ۔کسی نے سچ کہا ہے کہ ملک کی زنجیر ٹوٹ گئی ۔ اب پتہ چل رہا ہے کہ ملک بھر میں جو ماتم برپا ہے وہ اسی زنجیر کے ٹوٹ جانے کی صدا اور اس کا ماتم ہے۔

بے نظیر کا قتل جو قوم کے لیے شہادت ہے ہماری حکومت کی انتہائی غفلت ‘لاپرواہی یا نالائقی کا المیہ ہے۔ جس طرح یہ سانحہ سامنے آیا اس کی تفصیلات بتاتی ہیں کہ ان کی حفاظت کی طرف سے مکمل غفلت کا ثبوت دیا گیا ۔ ان کی گاڑی کو تیز رفتاری سے روانہ ہونا تھالیکن پولیس وغیرہ کی بھاری نفری بھی اس کا راستہ صاف نہ کر سکی اور وہ بہادر خاتون نعروں کا جواب دینے پر مجبور ہو کر گاڑی کی چھت کھلوا کر سامنے آئی تو مشاق نشانہ باز نے اس کے سر کو نشانہ بنایا اور وہ گاڑی میں گرتے ہی ختم ہو گئیں۔

جی ایچ کیو کی نظروں کے سامنے پاکستان کی امید کا چراغ گل ہو گیا ۔ بے نظیر کی شہادت لاتعداد سوال چھوڑ گئی اور یہ سارے سوال اس ملک کے مستقبل کے بارے میں ہیں۔ اب یہ میاں نواز شریف پر منحصر ہے وہ بے نظیر کا خلا کس طرح پورا کرتے ہیں کیونکہ بد قسمتی سے پیپلز پارٹی میں اب کوئی ایسی شخصیت دکھائی نہیں دیتی جو بے نظیر کے ورثے کو سنبھال سکے۔ ان کی شہادت سے پیپلز پارٹی کاگھر اجڑ گیا ہے، ان کی ایک بہن صنم بی بی زندہ ہے لیکن اس کا سیاست سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ بے نظیر شہید کی ماں اگر ہوش میں ہیں تو اس چوتھے قتل کو برداشت کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا پورا خاندان اس ملک کی نذر ہو گیا باقی کچھ نہیں بچا۔

چلو آئو تم کو دکھائیں ہم جو بچا ہے مقتل شہر میں

یہ مزار اہل صفاکے ہیں‘ یہ ہیں اہل صدق کی تُربتیں

اس وقت سوگ اورسکتے کی جوکیفیت پورے ملک پر چھائی ہوئی ہے اور لوگ یا تو گھروں میں سرنگوں ہو کر غم و اندوہ میں ڈوبے ہوئے ہیں یا پھر وہ بے تاب ہوکر باہر نکلتے ہیں اور دیوانہ وار سب کچھ تہس نہس کرتے چلے جاتے ہیں۔عام پاکستانی حکمرانوں کو ایک فریق سمجھ رہا ہے اس لیے وہ کسی سرکاری اپیل پر کان نہیں دھررہا۔ الیکشن کو تو فی الحال خواب ہی سمجھا جائے ۔ فی الوقت تو اس سانحہ کے فوری اثرات سے عہدہ برآ ہونا ہے اور قوم کو حوصلہ دلانا ہے کہ وہ اس غم کی گھڑی میں تنہا نہیں ہے‘ قیادت سے محروم نہیں ہے۔

پیپلز پارٹی کی باقی ماندہ قیادت اور ملک کے دوسرے کااب واحد فرض یہ ہے کہ وہ سب مل کر ایک ’’بے نظیر‘‘ بن جائیں اور اس عظیم نقصان کے ازالے کی فکر کریں۔شکر ہے کہ میاں نواز شریف نے اس کا احساس کیا ہے جو اتفاق سے بچ نکلے تھے کیونکہ اس سانحہ سے کچھ پہلے ان کے استقبالیہ کیمپ پر حملہ ہوا جس میں چار کارکن جاں بحق ہو گئے جو میاں صاحب کے لیے ایک وارننگ تھی ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دست قاتل کتنا دراز ہے اور خون کی پیاس کس قدر اسے ہلکان کیے ہوئے ہے ۔ بات صرف ایک شہادت پر ختم نہیں ہوتی آگے چل کر کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن کسی کی جان کی حفاظت حضرت علی ؓ کے الفاظ میں۔

’’زندگی کی سب سے بڑی محافظ موت ہوتی ہے‘‘

اور یہ موت اﷲ کے اختیار میں ہے لیکن جان بچانا بھی فرض ہے ۔ یہ فرض ہر کسی کو خود ہی ادا کرنا ہے  کیونکہ حکومت نے تو لگتا ہے ہماری جان و مال سے ہاتھ اٹھا لیا ہے ۔ میں جب یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو بھٹو خاندان کے قبرستان میں ایک اور مکین پہنچ چکا ہو گا۔

ڈال کر کوئی گردن میں طوق آگیا

لاد کر کوئی کاندھے پہ دار آگیا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔