متوقع منی بجٹ، ہوشربا مہنگائی کا سبب بنے گا

ایڈیٹوریل  جمعرات 30 دسمبر 2021
اب بھی وقت ہے کہ حکومت کے معاشی ماہرین سرجوڑ کر بیٹھیں اور ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے انقلابی اقدامات اٹھائیں۔ فوٹو: فائل

اب بھی وقت ہے کہ حکومت کے معاشی ماہرین سرجوڑ کر بیٹھیں اور ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے انقلابی اقدامات اٹھائیں۔ فوٹو: فائل

وفاقی کابینہ نے وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت اجلاس میں متعدد بلز اور پالیسیوں کی منظوری دی، اہم ترین نقطہ اس اجلاس کے ایجنڈے کا قومی سلامتی پالیسی کی منظوری دینا تھا، جب کہ اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کے بل کی بھی منظوری دیدی گئی، تاہم آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر قرضہ کے حصول کے لیے اس ہفتہ میں دوسری بار360ارب روپے کے منی بجٹ کی منظوری کومؤخرکردیا گیا ۔

اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کے حوالے سے بل میں اسٹیٹ بینک ایکٹ 1956 میں ترامیم کی گئی ہیں، یہ ترامیم آئی ایم ایف اور موجودہ گورنراسٹیٹ بینک کی خواہش پر کی گئی ہیں۔منی بجٹ کی قومی اسمبلی سے منظوری کے لیے پی ٹی آئی اور اتحادی جماعتوں کے ارکان قومی اسمبلی کو بھی قائل اور راضی کرنا ایک مسئلہ ہے۔

اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کے بل پر آزاد ماہرین اقتصادیات اور اپوزیشن جماعتوںسمیت بہت سے حلقوں کی طرف سے تحفظات کا اظہارکیا جارہاہے، ان تحفظات کو حکومت خاطر میں نہیں لائی ہے اور اس بل کی منظوری دے دی ہے ۔اسٹیٹ بینک کی اوّلین ذمے داری افراطِ زر کو قابو کرنے کی ہے۔

اس وقت اسٹیٹ بینک مختلف ری فنانس اسکیموں کے ذریعے برآمد کنند گان، مقامی صنعت کاروں، کاشت کاروں، خواتین، معذور افراد اور متبادل توانائی کے لیے رعایتی قرضے فراہم کررہا ہے۔ کورونا وبا میں اسپتالوں کی ضرورت میں اضافے پر اسٹیٹ بینک نے خصوصی اسکیم دی جس سے اسپتالوں نے وینٹی لیٹر اور دیگر آلات خریدے اور لوگوں کی جان بچ سکی۔

پاکستان کی معاشی اور اقتصادی زبوں حالی کی ایک وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر گورنر اسٹیٹ بینک اور وزیرِ خزانہ کی اسامی پر ایسے افراد کو براجمان کیا گیا ہے جو عالمی مالیاتی اداروں کی سفارش پر بیرونی ممالک سے آئے اور جیسے ہی انھیں عہدے سے ہٹایاگیا وہ پلک جھپکتے ملک سے باہر چلے گئے۔

اگر ایسے افراد جن کا پاکستان میں کوئی اسٹیک نہ ہو، ان کے اہلِ خانہ ملک میں نہ ہوں اور وہ صرف مخصوص عرصے کے لیے ایک اسائنمنٹ کو پورا کرنے پاکستان آئے ہوں تو انھیں بغیر کسی احتساب کے ملکی خزانوں کا مالک بنا دینا کسی طور پر بھی درست معلوم نہیں ہوتا ہے۔ان سطور کے ذریعے ہم حکومت سے دردمندانہ درخواست کریں گے کہ اسٹیٹ بینک کو بیشک خودمختار بنائیں، مگر اس کو آزاد نہیں ہونا چاہیے۔

دوسری جانب کابینہ اجلاس میں منی بجٹ وقتی طور پر موخرکیا گیا ہے،آئی ایم ایف کی شرائط قبول کرنے کی وجہ سے جو اقتصادی بحران آیا ہے، اس کی وجہ سے بہ ظاہر یہ محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت کو پارلیمنٹ سے منی بجٹ منظور کرانا مشکل ہے، اسی حوالے سے یہ خبریں بھی ہیں کہ حکومت آرڈیننس کے ذریعے منی بجٹ منظور کرانے پر غور کر رہی ہے۔

یہ بات طے ہے کہ یہ منی بجٹ مروجہ یا غیرمروجہ طریقے سے منظور کروالیا جائے گا اور 360ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے سے مہنگائی کی شرح میں ہوش ربا اضافہ ہوجائے گا اور عوام کی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔ اسٹیٹ بینک نے اپنی نئی مانیٹری پالیسی میں اعلان کیا ہے کہ شرح سود میں مزید ایک فیصد اضافہ کرتے ہوئے شرح سود 9.75 فیصد مقرر کردیا ہے۔دراصل حکومت 12جنوری کو آئی ایم ایف کی بورڈ میٹنگ سے قبل عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط کی تکمیل یقینی بنانے کے لیے پر عزم ہے۔

ایک ارب ڈالر کے قرض کے لیے موجودہ بجٹ میں550ارب روپے کی ری ایڈجسٹمنٹ کی جائے گی۔اس میں ترقیاتی بجٹ میں22فیصد کٹوتی،360ارب روپے کے ٹیکسوں کے استثنا کا خاتمہ اور پیٹرولیم لیوی میں ماہانہ چار روپے فی لیٹر کا اضافہ شامل ہے۔

اس ضمنی بجٹ کے معیشت پر اثرات واضح پڑیں گے، حکومت کم آمدنی والے طبقے کے لیے ٹارگٹڈ سبسڈی کے پروگرام میں لیت ولعل سے کام لیتی دکھائی دیتی ہے، اس مجوزہ پروگرام کے تحت ماہانہ31ہزار سے کم آمدنی والے طبقے کے دو کروڑ گھرانوں کو آٹا، دال اور گھی کی قیمتوں میں 30فیصد چھوٹ دی جانی تھی اگرچہ یہ چھوٹ معمولی ہے اور اس سے کسی گھرانے کو یومیہ اخراجات میں شاید چند روپے کا فائدہ ہی حاصل ہوسکتا ہے مگر تین ماہ ہونے کو آئے کہ حکومت یہ معمولی سا فائدہ بھی یقینی بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

مہنگائی کے ہاتھوں سب سے زیادہ مجبور اس طبقے کے لیے حکومت کے پاس ابھی تک احساس کے نام پر چند نعروں اور ایک امید کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ مہنگائی کے مسئلے کی تشویش کو سمجھنے کے لیے کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ حکومت کے لیے ایک ٹیسٹ تھا، مگر اس نتیجے کا صحیح تجزیہ کرنے کی بجائے حکومت اس کے اسباب کہیں اور تلاش کرکے خود کو مغالطے میں ڈال رہی ہے۔

مہنگائی کے طوفان نے پاکستان کے ہر طبقے کو متاثر کر دیا ہے اقتصادی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو اس سے متاثر نہ ہوا ہو۔ پٹرول، گیس اور بجلی کی نرخوں میں اضافے کا تو مسئلہ کافی عرصے سے جاری ہے۔ اس کے ساتھ پاکستانی روپے کی ناقدری اور ڈالر کی اڑان نے ہر سطح پر تباہی پھیر دی ہے۔ ذرائع ابلاغ نے وزرات خزانہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے کے تحت ’’منی بجٹ‘‘ کو حتمی شکل دے دی ہے۔

منی بجٹ میں جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں مختلف اشیاء پر دی گئی چھوٹ اور رعایت کا خاتمہ کیا جائے گا اور اسے 17 فی صد کی یکساں شرح پر نافذ کر دیا جائے گا، تاکہ پاکستان کے عوام کی جیبوں سے مزید 360 ارب روپے نکلوائے جائیں اور عالمی ساہوکاروں کو سود کی مد میں ادا کر دیے جائیں۔ پاکستان کے غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے کروڑوں باشندوں کی کمر پر نیا وزن ڈالا جائے گا۔

اس سے قبل آئی ایم ایف کے حکم پر پالیسی ریٹ یعنی شرح سود میں غیر معمولی اضافہ کر دیا گیا ہے، جس نے پیداواری لاگت بڑھا دی ہے، جب پیداواری لاگت میں اضافہ ہو جائے گا تو اشیاء کی قیمتیں کیسے کم ہوں گی۔ منی بجٹ حکومت کے ساتھ حزب اختلاف کی جماعتوں کا بھی امتحان ہے کہ وہ قوم کی گردن کو آئی ایم ایف کے شکنجے سے آزاد کرانے کے لیے سیاسی مزاحمت کا فیصلہ کرتی ہیں یا نہیں۔

اب تک مسئلہ یہ تھا کہ پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر کم پڑتے تھے جس کی وجہ سے ادائیگیوں کے توازن کو پورا کرنے کے لیے عالمی اداروں سے قرض لینے پر مجبور ہونا پڑتا تھا۔ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد ابتدا میں دعویٰ کیا کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے، لیکن بعد میں نہ صرف یہ کہ آئی ایم ایف کے پاس گئے بلکہ زیادہ سخت شرائط پر قرض کا معاہدہ کیا۔ المیہ یہ بھی ہے کہ حکومت اپنی معاشی ٹیم تیار کرنے میں بھی آزاد نہیں ہے، پس پردہ قوتیں کیا کھیل، کھیل رہی ہے، اس کی تفصیلات نہ حکومت بتاتی ہے اور نہ وہ جماعتیں جو ماضی میں اقتدار میں رہی ہیں ۔

مہنگائی کے فی زمانہ متعدد اسباب گنوائے جاتے ہیں، یہ بھی کہا جاتا کہ مہنگائی کے مسئلے کا سامنا اس وقت تقریبا سبھی ممالک کو ہے مگر یہ اسباب ہر جگہ یکساں نہیں ہیں۔ یورپ اور امریکا میں اگر سپلائی چین کے مسائل مہنگائی کا سبب ہیں تو لازمی نہیں کہ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہو۔ وطن عزیز میں مہنگائی کے بنیادی اسباب میں حکومتی محصولات میں بڑا اضافہ،توانائی کی بہت زیادہ قیمتیں اور کمزور مارکیٹ ریگولیشنز شامل ہیں۔

پاکستان میں مہنگائی کی ساری ذمے داری کورونا وبا پر عائد نہیں کی جا سکتی بلکہ پاکستان تو ان معددوے چند ممالک میں شامل ہے جو کورونا لاک ڈاؤن سے سب سے کم متاثر ہوئے اور اس دورانیے میں حکومت نے تعمیراتی فیصلے کیے اور برآمدی مال تیار کرنے والی فیکٹریوں کو کام کرنے کی اجازت دے کر معاشی اعتبار سے مثبت فیصلے کیے تاہم کورونا لاک ڈاؤن کے محدود دورانیے میں جو مثبت کام ہوا اس کا مومینٹم زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھا جا سکا۔

چنانچہ معیشت کو متحرک کرنے کے یہ اقدامات کوئی بڑا اثر بھی نہیں دکھا سکے۔ تعمیراتی سرگرمیاں درجن بھر صنعتوںکو متحرک کرتی ہیں اور روزگار کے وسیع مواقع پیدا کرتی ہیں، مگر حکومت معیشت کے اس انجن کو زیادہ دیر متحرک نہیں رکھ سکی۔

نئے ٹیکسوں اور توانائی کے بڑھتے ہوئے اخراجات سے تعمیراتی شعبہ شدید متاثر ہوا ہے اور سرگرمیاں رک جانے سے روزگار کے مواقع جو کچھ عرصہ پہلے بڑی تیزی سے بڑھ رہے تھے اسی تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ایک قابل ذکر صنعتی شعبے میں اتنی تیزی سے گراوٹ بھی اسی دور حکومت کا حصہ ہے دوسری جانب صنعتی شعبہ اور زراعت کا حال اس سے گیا گزرا ہے مہنگی توانائی، مزید ٹیکس اور ڈالر کی شرح مبادلہ سے خام مال کی قیمتوں پر پڑنے والے اثرات بھی ہیں ۔

مہنگائی ایک حقیقی مسئلہ ہے جس نے موجودہ حکومت کو عوام میں غیر مقبول کر دیا ہے، وطن عزیز میں غیرملکی سرمایہ کاری کے رجحان میں بھی واضح کمی نظر آرہی ہے۔یہ صورتحال معاشی منصوبہ بندی کی حکومتی ٹیم سے اوجھل نہیں مگر اس میں اصلاح کی قابل ذکر کوشش دکھائی نہیں دے رہی۔

نئی غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے وطن عزیز کی جانب سے بہتر مارکیٹنگ کی کوئی کوشش کوئی عزم اور جدوجہد نظر نہیں آتی جو معاشی فیصلے کیے جارہے ہیں وہ سرمائے کے انخلا کی راہ ہموار کر رہے ہیں، ملک معاشی مشکلات کا شکار ہوچکا ہے، اب بھی وقت ہے کہ حکومت کے معاشی ماہرین سرجوڑ کر بیٹھیں اور ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے انقلابی اقدامات اٹھائیں تاکہ عوام کو بہتر انداز میں ریلیف مل سکے اور ملک ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔