ترقی کا ماڈل اور پیپلز پارٹی

ڈاکٹر توصیف احمد خان  جمعرات 30 دسمبر 2021
tauceeph@gmail.com

[email protected]

2008 سے منتخب حکومتوں کا دور شروع ہوا مگر کراچی کے عوام کی خوش قسمتی ہے کہ 12 سال بعد  شہر کے ایک حصہ میں گرین لائن بس سروس چلنا شروع ہوئی۔ میاں نواز شریف 2013 میں ملک کے وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے۔

انھوں نے اپنے پہلے دور حکومت میں شہروں کو ملانے والے جدید نظام کو ملک میں متعارف کرایا تھا۔ ان کے بھائی میاں شہباز شریف نے 2008 میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا تھا۔ انھوں نے پہلے لاہور میں ، پھر راولپنڈی اسلام آباد اور پھر ملتان میں میٹرو بس تعمیر کروائی۔ میاں نواز شریف نے 6 سال قبل کراچی میں گرین لائن بس ریپڈ ٹرانزٹ سروس Green Line Bus Rapid Transit Service (BRT) کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔

پہلے گرین لائن بس گرو مندر سے بڑا بورڈ تک چلنی تھی۔ اس میں توسیع ہوئی اور سرجانی ٹاؤن تک اس کو وسعت دی گئی ، جب وزیر اعظم میاں نواز شریف اس ٹرانسپورٹ سسٹم کا سنگ بنیاد رکھنے گرو مندر پہنچے تھے تو اس وقت سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے درخواست کی تھی کہ اس منصوبہ کو ٹاور تک پھیلایا جائے، یوں قائد اعظم کے مزار کے سامنے ایک سرنگ تعمیر ہوئی مگر ٹاور تک اس میں توسیع کب ہوگی شاید سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ بھی کوئی قطعی تاریخ نہیں بتاسکتے۔ میاں نواز شریف جیل چلے گئے ، یہ منصوبہ ٹھپ ہوا۔

تحریک انصاف کی قیادت نے اس منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے منصوبہ بندی کے وزیر اسد عمر کو نگراں مقرر کیا، یوں ہر سال بسوں کے چلنے کی تاریخوں کا اعلان ہوتا رہا۔ وزیر اعظم نے دسمبر کے پہلے ہفتہ میں اس منصوبہ کا افتتاح کر ہی دیا اور پندرہ دن قبل یہ اعلان ہوا کہ پہلے بسیں آزمائشی بنیادوں پر چلیں گی اور مختلف اسٹاپوں کے درمیان بس چلنا شروع ہوئی۔

ابھی ہر اسٹاپ پر بس کے رکنے کا سلسلہ شروع نہیں ہوا ، بسوں کی تعداد کم ہے۔ بس کا کم سے کم کرایہ 15روپیہ اور زیادہ سے زیادہ کرایہ 55 روپے مقرر کیا گیا ہے۔ جب لاہور میں میٹرو چلی تھی تو یہ کرایہ صرف 20 روپے تھا اب یہ کرایہ بڑھ کر تیس روپے ہو چکا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے پنجاب کے مختلف شہروں میں جدید بسیں چلانی شروع کیں۔ ان کا کرایہ 20 روپے مقرر کیا گیا تھا۔

گرین لائن سے کراچی کی مختصر آبادی استفادہ کرسکے گی۔ 2 کروڑ کے قریب آبادی پر مشتمل ملک کے سب سے بڑے صنعتی اور تجارتی شہر کی 95 فیصد آبادی محض گرین لائن کا ذکر ہی سنے گی۔ شہر کی اکثریتی آبادی غریبوں پر مشتمل ہے۔ اس کی قسمت میں چین کے مال برداری کے لیے تیارکردہ چنگ چی رکشوں میں ذلت آمیز سفر ہی رہے گا۔ جب 2008 میں میاں شہباز شریف کی حکومت نے لاہور میں میٹرو بس سسٹم کی تعمیر شروع کی تھی تو تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی اس منصوبہ کی مخالفت میں تن دھن سے لگ گئی تھیں۔ عمران خان کہتے تھے کہ یہ منصوبہ وسائل کا ضیاع اور جدید کرپشن کے طریقے ہیں۔

بعد ازاں 2013 میں خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو پرویز خٹک نے پشاور میں میٹرو سسٹم کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ منصوبہ کم لاگت اور کم وقت میں مکمل ہوگا مگر بڑی لاگت اور طویل وقت صرف ہونے کے باوجود یہ منصوبہ اپنی خامیوں کے ساتھ مکمل ہوا۔ پیپلز پارٹی کے قائدین اس منصوبہ کو ’’ جنگلا بس‘‘ قرار دیتے رہے۔ انھوں نے بھی یہ راگ الاپنا شروع کیا کہ وسائل کی بربادی ہے، مگر پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ میں سڑکوں کی تعمیر پر توجہ نہ دی۔ کراچی شہر تو پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں ہر حوالے سے تباہی کا شکار ہوا۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام تو مکمل طور پر برباد ہوا مگر سندھ کے باقی شہروں میں بھی سڑکیں برباد ہوئیں۔

آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کے تحت وفاق اور صوبوں میں مالیاتی وسائل کی تقسیم پر نیا معاہدہ ہوا اور این ایف سی ایوارڈ کا نیا فارمولہ سامنے آیا۔ اس فارمولہ کے تحت صوبوں کی آمدنی میں کئی سو فیصد اضافہ ہوا۔ تحریک انصاف والے اس بات پر واویلا کرتے ہیں کہ وفاق کے تمام مالیاتی وسائل صوبوں کو منتقل ہوئے مگر تاریخی المیہ یہ ہے کہ سندھ میں تعلیم، صحت اور صنعتی ترقی کے لیے کچھ نہ ہوا۔ سرکاری شعبہ میں تعلیم کا نظام تباہ ہوا۔

اسکول اور کالج بنیادی سہولتوں سے محروم رہے۔ اساتذہ کی کمی، سائنسی لیباریٹریوں اور لائبریریوں وغیرہ کے لیے رقوم مختص ہوئیں مگر خرچ کہاں ہوئیں، کوئی جواب نہیں دیتا۔ کراچی کے سمندر کے ساتھ ایک ہزار سے زائد قدیم گوٹھ آباد ہیں جہاں انتہائی غریب لوگ رہتے ہیں۔ ان گوٹھوں کی آبادی پیپلز پارٹی کے حمایتیوں میں شامل ہے مگر ان گوٹھوں میں سرکاری اسکولوں کے حالات انتہائی برے ہیں۔

محکمہ تعلیم سندھ کے افسران کی کرپشن کی وجہ سے قومیائے گئے کئی تعلیمی ادارے نجی شعبہ کے حوالے ہوگئے۔ پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی ہر انتخاب کے وقت ان علاقوں میں میڈیکل اور انجینیئرنگ کالجوں کے قیام کا وعدہ کرتے ہیں مگر یہ وعدہ ابھی پورا نہیں ہوا۔

سندھ میں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کا اسپتال ایس آئی یو ٹی امراض قلب کا قومی اسپتال کراچی، گمبٹ میں قائم ہونے والا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ اور کراچی کا جناح اسپتال بہتر حالت میں ہیں۔ حیدرآباد ، سکھر، لاڑکانہ، میرپور خاص سمیت دیگر اضلاع میں جدید سہولتوں سے لیس برنس وارڈ کا تصور نہیں ہے۔ آتش زدگی کے واقعات کے بعد مریض کراچی پہنچنے تک زندگی کی دوڑ ہار جاتے ہیں۔

اسی طرح کراچی اور حیدرآباد کے علاوہ باقی شہروں میں صنعتی کارخانوں کے قیام کے اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ اقتصادی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ زرعی پیداوار کو صنعتی ڈھانچہ سے منسلک نہ کرنے اور توانائی کے شعبہ کی ترقی کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے اندرون سندھ غربت کی شرح بڑھ رہی ہے اور غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد ہر سال بڑھتی جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اندرون سندھ سے نوجوان کراچی آنے پر مجبور ہیں۔ سابق صدر آصف زرداری نے گزشتہ دنوں اندرون سندھ عوامی رابطہ مہم شروع کی ہے۔ انھوں نے اپنی تقاریر میں کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو وہ نیا فارمولہ دینے کے لیے تیار ہیں مگر پہلے سلیکٹڈ لوگوں کو رخصت کیا جائے۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنی پوزیشن بحال کرنا چاہتی ہے تو سب سے پہلے ضروری ہے کہ سندھ کو ماڈل صوبہ بنایا جائے۔

پیپلز پارٹی کے لیے ایک سہولت یہ ہے کہ پنجاب کی باگ دوڑ عثمان بزدار کے پاس ہے، یوں پنجاب میں کمزور طرز حکومت کا تجربہ ہورہا ہے۔ عوام حکومت سے مایوس ہے مگر پنجاب کے عوام دو وجوہات کی بناء پر پیپلز پارٹی کی پذیرائی کرسکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو حقائق کو محسوس کرنا چاہیے۔ جب تک سندھ ترقی کی دوڑ میں ایک ماڈل صوبہ نہیں بنے گا اور پیپلز پارٹی پنجاب کے مظلوم طبقات کی ترجمانی نہیں کرے گی تب تک پیپلز پارٹی صرف اندرون سندھ تک محدود رہے گی۔ شہروں کی پسماندگی سے منفی قوتوں کو زندگی ملے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔