ملکی ترقی کیلئے معاشرے سے صنفی امتیاز کا خاتمہ کرنا ہوگا !!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  جمعرات 30 دسمبر 2021
صنفی برابری کی رپورٹ 2019ء اور 2020ء کے اجراء کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ ۔  فوٹو : فائل

صنفی برابری کی رپورٹ 2019ء اور 2020ء کے اجراء کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ ۔ فوٹو : فائل

پنجاب کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن ہر سال پنجاب بھر میں تعلیم، صحت، انصاف، گورننس، معیشت جیسے اہم شعبوں کے حوالے سے ڈیٹا مرتب کرتا ہے جسے جینڈر پیریٹی رپورٹ کے نام سے شائع کیا جاتا ہے۔

حالیہ رپورٹ 2 برس بعد شائع ہوئی ہے جس میں صنفی لحاظ سے نہ صرف ڈیٹا موجود ہے بلکہ متعلقہ محکموں کو بہتری کیلئے سفارشات بھی دی گئی ہیں۔ حکومت کی جاری کردہ اس اہم رپورٹ کا جائزہ لینے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

طارق خان نیازی (سیکرٹری پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن)

پنجاب کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن ایکٹ2014ء میں ہمارے ادارے کو یہ مینڈیٹ دیا گیا کہ جینڈر سے متعلق ہر طرح کا ڈیٹا اکٹھا کرکے پالیسی سازوں کے سامنے رکھنا ہے تاکہ وہ صنفی لحاظ سے موجود ڈیٹا کی روشنی میں پالیسی بنا سکیں۔ یہ ہمارے ادارے کی بنیادی ذمہ داری ہے اور اس پر کام کیا جاتا ہے۔

صنفی برابری کے حوالے سے ہمارے ادارے کی یہ چوتھی رپورٹ ہے۔ اس سے پہلے 2016ء، 17ء اور 18 ء میں رپورٹس شائع کی گئیں تاہم 2019 ء کی رپورٹ کورونا وباء کی وجہ سے شائع نہ ہوسکی۔

میں نے 2020ء میں بطور سیکرٹری پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن کا چارج سنبھالا اور اس پر کام کا آغاز کیا۔ رپورٹ شائع نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں 2019 ء اور 2020ء ، دو برسوں کا ڈیٹا اکٹھا کرکے رپورٹ شائع کرنی تھی جس میں ہمیں ہیومن ریسورس کے مسائل کا سامنا تھا۔ ہمارے پاس ریسرچرز نہیں تھے، اس میں ہمیں UNFPA نے سپورٹ کیا۔ ایس پی او نے ہمیں ہیومین ریسورس کے معاملے میں مدد دی جس کے بعد ریسرچرز،ڈیٹا انٹری آپریٹرز و دیگر سٹاف کی مدد سے رپورٹ مرتب کی گئی۔ ہر اضلاع میں ہمارا ایک ڈسٹرکٹ کووارڈینیٹر ہے جو ڈیٹا اکٹھا کرتا ہے۔

یہ مستند ڈیٹا ہے جو متعلقہ سرکاری محکموں کے افسران سے اکٹھا کیا گیا ۔ ڈیٹا کولیکشن کے کیلئے کچھ انڈیکیٹرز رکھے گئے تھے، ایک فارم تھا جس کے ذریعے ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا تھا۔ اگر شعبہ صحت کی بات کی جائے تو اس میں سی ای او ہیلتھ، ہیلتھ سیکرٹری و دیگر افسران سے تصدیق شدہ ڈیٹا اکٹھا کیا گیا جس میں خواتین و مردوں کے الگ الگ ہسپتال، کلینک، مریضوں کی تعداد و دیگر تفصیلات موجود ہیں۔ صوبے بھر سے یہ ڈیٹا ہمیں موصول ہوا جسے ہماری ٹیم نے فارن کوالیفائیڈ سٹاف کی زیر نگرانی مرتب کیا ہے۔

سرکاری و نجی سرویز کے ساتھ بھی اس ڈیٹا کا موازنہ کیا گیا۔ اس رپورٹ میں صحت، تعلیم، انصاف، خواتین کیلئے قانون سازی جیسے سیکٹرز کو خصوصی طور پر شامل کیا گیا۔ یہ رپورٹ ترتیب دینا خاصا مشکل کام تھا، اس رپورٹ کو ترتیب دینے میں 7سے 8 ماہ کا عرصہ لگا۔ رپورٹ کے حوالے سے مختلف ماہرین سے رائے لینے اور ان کی سفارشات شامل کرنے کے بعد شائع کرکے اسے باقاعدہ لانچ کیا گیا، عوام الناس کیلئے یہ رپورٹ آئن لائن بھی دستیاب ہے۔

ہمارے ادارے کا کام ’واچ ڈاگ‘ اور سپروائزری کا ہے۔ ہم ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں اور اس کی روشنی میں سفارشات دیتے ہیں۔ اب بھی ہم نے اس رپورٹ کی روشنی میں متعلقہ محکموں، پالیسی و قانون ساز اداروں کو سفارشات بھیجی ہیں، جہاں جہاں مسائل ہیں ان کی نشاندہی کی ہے اور اس پر کام کرنے کیلئے تجاویز بھی دی ہیں۔ ڈیٹا کی روشنی میں بات کریں تو صحت کے مسائل موجود ہیں، ہسپتالوں کی کمی کا سامنا ہے، خواتین کیلئے خصوصی ہسپتال بنانے کی ضرورت ہے۔

ایک اہم بات سامنے آئی ہے کہ لڑکیوں کے پرائمری سکول زیادہ ہیں مگر شرح خواندگی کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہائی سکول دور ہونے کی وجہ سے پرائمری کے بعد لڑکیوں کے ڈراپ آئوٹ کی شرح زیادہ ہے لہٰذا ہر موزہ میں لڑکیوں کیلئے ہائی سکول بنانا ہوں گے۔

موجودہ حکومت کی بہتر پالیسیوں سے خواتین کی حالت بہتر ہورہی ہے۔ مجموعی طور پر خواتین کی معاشی شمولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ زرعی زمین کی خواتین مالکان کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، یہ شرح 7.4 فیصد سے بڑھ کر 7.9فیصد ہوگئی ہے۔ اسی طرح 2018کی نسبت اب زیادہ خواتین نے اپنے نام پر گاڑی رجسٹر کروائی ہے، اعداد و شمار کی بات کریں تو یہ شرح 1.4 فیصد سے بڑھ کر 1.5 فیصد ہوئی ہے۔ مائیکرو فنانس بینکوں سے قرض لینے والی خواتین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ویمن ڈویلپمنٹ پالیسی کے تحت اب تک 15 ہزار 895 خواتین خریف کراپ انشورنس سے مستفید ہو چکی ہیں۔

پیسی میں بھی خواتین کی تعداد بڑھی ہے جو 7فیصد سے 9 فیصد ہوچکی ہے۔ تعلیم کی بات کریں تو سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب میں لڑکیوں کی پرائمری سکول انرولمنٹ میں 6 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن صوبے میں خواتین کی تعلیم و ترقی کے فروغ کیلئے کوشاں ہے۔ اس سلسلے میں4سکیمیں شروع کی گئی ہیں جن میں مفت تعلیم، نظام تعلیم کی بہتری، نئے سکول اور ایجوکیشن وائوچرز پر تیزی سے کام جاری ہے۔

اس کے علاوہ دیگر بہترین پروگرام بھی جاری ہیں۔ پنجاب زیور تعلیم پروگرام کے تحت خدمت کارڈ رکھنے والے والدین کو بچیوں کی تعلیم اور 80 فیصد حاضری پر ماہانہ 1000 روپیہ وظیفہ دیا جا رہا ہے جو سہ ماہی بنیادوں پر دیا جاتا ہے، اسی طرح وسیلہ تعلیم پروگرام کے تحت پرائمری سکولوں کو انصاف آفٹرنون سکول پروگرام کے تحت مڈل سکول بنا دیا گیا ہے جہاں 47 فیصد لڑکیاں زیر تعلیم ہیں۔

اساتذہ کی تربیت اور کپیسٹی بلڈنگ ورکشاپس پر بھی کام ہورہا ہے۔ اس طرح کے حکومتی اقدامات کی وجہ سے خواتین کی شرح خواندگی میں اضافہ ہوا ہے، یہ شرح 54 فیصد سے بڑھ کر57 فیصد ہوگئی ہے۔ لڑکیوں کی مجموعی انرولمنٹ کی بات کریں تو اس میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح سپیشل ایجوکیشن میں بھی لڑکیوں کی تعداد بڑھی ہے جو حوصلہ افزاء ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ شعبہ میڈیکل میں زیر تعلیم لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کی نسبت زیادہ ہے۔

ایم بی بی ایس میں 52.1 فیصد جبکہ بی ڈی ایس میں 70 فیصد خواتین ہیں لیکن سپیشلائزیشن میں یہ تعداد کم ہوجاتی ہے، وہاں مردوں کی تعداد زیادہ ہے جو قابل فکر ہے۔ اس سطح پر خواتین کی تعداد بڑھانے کیلئے حکومت مراعات دینے جارہی ہے، خواتین کو سپیشلائزیشن کیلئے بھی مواقع اور سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ شعبہ صحت میں خواتین کی حالت زار کا جائزہ لیں تو اس میں بھی کچھ بہتری نظر آئی ہے۔

خواتین کی اوسط عمر جو 2016 میں 66.9 برس تھی ، 2020ء میں بڑھ کر 68.3 برس ہوگئی ہے۔ آبادی کی شرح میں کمی آئی ہے، شرح پیدائش 2.8 فیصد سے کم ہوکر 2.5فیصد پر آگئی ہے۔ اسی طرح نومولود بچوں اور 5 سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات میں بھی کمی آئی ہے۔پنجاب میں ملازمت پیشہ مائوں کو سہولت دینے کیلئے ڈے کیئر سینٹرز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

2018ء سے 2020ء تک ڈی کیئر سینٹرز کی تعداد میں 43فیصد اضافہ ہو اہے جو خواتین کیلئے بہت بڑا ریلیف ہے۔ ہم نے صنفی لحاظ سے رپورٹ مرتب کرنے کے بعد تمام متعلقہ اداروں کو سفارشات بھجوا دی ہیں، ہر سطح اور شعبے میں خواتین کی شمولیت بڑھانے کیلئے وسیع پیمانے پر اقدامات کرنا ہونگے۔ خواتین کی معاشی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ انہیں ہر شعبے میں زیادہ سے زیادہ مراعات دی جائیں‘ٹیکس میں چھوٹ دی جائے۔

سرکاری و نجی شعبے میں مزید سہولیات دی جائیں، جن اداروں میں خواتین کی ورک فورس زیادہ ہے انہیں خصوصی مراعات دی جائیں، اس طرح کے اقدامات سے خواتین کی شمولیت میں اضافہ ہوگا اور انہیں آگے بڑھنے کے زیادہ مواقع ملیں گے۔

خواتین کے حوالے سے ہم نے ٹیوٹا کو سفارش کی ہے کہ ان کی کپیسٹی بلڈنگ کریں۔ خواتین ٹرینرز اگرچہ کم ہیں مگر ان کی خدمات لی جائیں، زیادہ سے زیادہ خواتین کو ٹریننگ دے کر انہیں اس شعبے میں لایا جائے اس کے علاوہ ہنر کی تعلیم میں بھی خواتین پر خصوصی توجہ دی جائے۔ سرکاری و نجی تربیت ساز اداروں کو چاہیے کہ خواتین کو صرف سلائی کڑھائی ہی نہیں‘ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔

جدید دنیا کے مطابق کورسز کروائے جائیں۔ ہمارے ہاں شعبہ زراعت بہت وسیع ہے،ا س میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد بھی زیادہ ہے لہٰذا انہیں زرعی شعبے کے حوالے سے تربیت دی جائے، جدید ٹیکنالوجی و رجحانات سے لیس کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ طالبات کو انڈسٹری اکیڈیمیا لنکیج کے ذریعے پریکٹیکل نالج دیا جائے اور انہیں انٹرن شپ کے ذریعے آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ خواتین کو ٹرانسپورٹ کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انڈسٹریز کو پابند کیا جائے کہ وہ ٹرانسپورٹ فراہم کریں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں خواتین کا ’بلا معاوضہ کام‘ زیادہ ہے، خاوند کہتا ہے کہ تم کرتی کیا ہو۔ خاتون پورا گھر سنبھالتی ہے، سب کا خیال رکھتی ہے، بچوں کی پرورش کرتی ہے جوایک فل ٹائم ملازمت ہے جس کی ہمارے ہاں کوئی قدر نہیں ہے۔ ہم اس کام کو تسلیم کرانے کے حوالے سے غور کر رہے ہیں کہ خاوند لازمی طور پر اپنی بیوی کو معاوضہ ادا کرے۔

ا س کے علاوہ ماں کو سوشل سکیورٹی کارڈ بھی دیا جائے۔ خواتین پر تشدد کے حوالے سے ہم محکمہ پولیس کے ساتھ مکمل رابطے میں ہیں۔ اس وقت ہر ضلع میں اینٹی ہراسمنٹ سیل قائم کر دیا گیا ہے جس سے کافی بہتری آئی ہے، ہماری اپنی ہیلپ لائن بھی ہے جس پر خواتین کو رہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔ ہمارے پاس محکمہ پولیس کے تمام ہراسمنٹ سیلز کے فون نمبرز موجود ہیں اور ہم خواتین کو ریفر بھی کرتے ہیں۔

ہم قوانین اور پالیسیوں پر نظر ثانی کرکے بہتری کیلئے تجاویز دیتے ہیں، ہماری سفارشات پر خواتین کو وراثت میں حق، ریونیو بل، خاتون محتسب کو خواتین کی وراثت کے کیسز سننے کا اختیار بھی دے دیا گیا ہے۔ ریونیو آفیسر پابند ہے کہ وہ خاتون کو سہولت دے، 30 دن کے اندر اندرنہ صرف جائیداد اس کے نام منتقل کی جائے بلکہ 155(a) کے تحت اسے قبضہ بھی لے کر دیا جائے۔ خاتون محتسب کو اس حوالے سے سول کورٹ کے اختیارات دے دیے گئے ہیں۔

اب یہ ادارہ پہلے سے زیادہ مضبوط اور با اختیار ہے، اس سے خواتین کو ہراسمنٹ اور جائیداد کے معاملات میں ریلیف ملے گا۔ ہم پنجاب اسمبلی کی جینڈر مین سٹریمنگ کی پارلیمانی کمیٹی کے ساتھ رابطے میں ہیں جو مختلف اداروں اور ہمیں ساتھ بٹھا کر ہماری سفارشات پر ہونے والے کام کی پیشرفت کا جائزہ لیتی ہے۔ ہم اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں،امید ہے خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے معاملات میں مزید بہتری آئے گی۔

شاہنواز خان (نمائندہ سول سوسائٹی)

دنیامیں جہاں بھی ترقی ہوتی ہے وہاں اعداد و شمار کی روشنی میں اقدامات کیے جاتے ہیں مگر ہمارے ہاں بغیر اعداد و شمار کے ہی ڈویلپمنٹ پراجیکٹس کیے گئے جن سے وہ فائدہ حاصل نہیں ہوسکا جو ہونا چاہیے تھا۔ کسی بھی ملک کے لیے اس کے افراد کا ڈیٹا جو تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتا ہو، بہت ضروری ہوتا ہے کیونکہ اس کی روشنی میں ہی پالیسی بنائی جاتی ہے اور اقدامات کیے جاتے ہیں۔

صنفی حوالے سے رپورٹ مرتب کرنے پر حکومت اور سیکرٹری پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ڈیٹا اکٹھا کرنے سے لے کر اسے ترتیب دینے تک ہم نے ان کی معاونت کی ہے تاہم اصل کام حکومت کا ہے جس نے اونرشپ لیتے ہوئے اس پر کام کیا اور اسے شائع بھی کیا۔

میرے نزدیک یہ رپورٹ ایک اہم سنگ میل ہے اور مشعل راہ بھی، جس سے معلوم ہوگیا کہ کہاں خرابی ہے اور بہتری کیلئے کیاکام کرنے کی ضرورت ہے۔ڈیٹا کولیکشن سے شائع ہونے تک کا سارا عمل اہم تھا تاہم اصل کام اب شروع ہوتا ہے کہ اس سے کس طرح فائدہ اٹھانا ہے۔ میرے نزدیک اگر اس رپورٹ کی روشنی میں پالیسی نہ بنائی گئی، بہتری کیلئے اقدامات نہ کیے گئے، خلاء کو پر نہ کیا گیا تو پھر صرف رپورٹ کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

اہم یہ ہے کہ تمام سرکاری ادارے، ڈپٹی کمشنرز اور خود پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن کے نمائندے اس ڈیٹا سے مدد لیں اور اقدامات کریں۔اس رپورٹ کے بعد عملی اقدامات کی اہمیت کی سمجھتے ہوئے ہم اب اسے 4 ڈویژنز ،لاہور، ڈیرہ غازی خان، ملتان اور راولپنڈی، لے جارہے ہیں، جہاں کمشنرز و دیگر محکموں کے سربرہان اور نمائندوں کو نہ صرف رپورٹ سے آگاہ کیا جائے گا بلکہ انہیں بہتری کیلئے سفارشات دی جائیں گی جن کی روشنی میں اقدامات کیے جائیں گے۔ میرے نزدیک اس رپورٹ نے سمت متعین کردی ہے کہ ہم نے کہاں اور کیا کم کرنا ہے۔

لہٰذا اب اس کی بنیاد پر قانون سازی کی جائے، جہاں خرابیاں ہیں انہیں دور کیا جائے، عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ، ریاست کے تینوں ستون لائحہ عمل تیار کریں کہ کس طرح خواتین کو آگے لانا ہے اور صنفی امتیاز کا خاتمہ کرنا ہے۔ پرائمری سکول کے بعد لڑکیوں کے ڈراپ آئوٹ کی شرح زیادہ ہے، اسے کم کرنے کیلئے اقدامات کیے جائیں۔ ملازمت میں خواتین کا کوٹہ بڑھایا جائے، انہیںا ٓگے بڑھنے کیلئے مناسب مواقع فراہم کیے جائیں۔ یہ حیران کن بات ہے کہ ایم بی بی ایس لیڈی ڈاکٹرز تو زیادہ ہیں مگر سپیشلائزیشن میں کم ، اس پر کام کیا جائے۔ محکمہ پولیس میں بھی خواتین کی تعداد کم ہے، اگرچہ پہلے سے بہتری آئی ہے، مگر ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔

نبیلہ شاہین (نمائندہ سول سوسائٹی )

صنفی لحاظ سے پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن کی رپورٹ بچیوں اور خواتین کیلئے روڈ میپ ہے کہ کس طرح ان کے حوالے سے معاملات میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔2016ء تک عورت فائونڈیشن ڈیٹا کولیکشن کرتا رہا ہے۔

تاہم جب سرکاری سطح پر پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف وویمن کے ذریعے اس کام کا باقاعدہ آغاز ہوا تو ہم نے یہ کام چھوڑ دیا۔ ڈیٹا کولیکشن کا ہمارا مقصد بھی یہی تھا کہ حقائق کی روشنی میں خواتین اور بچوں کے حقوق و تحفظ کیلئے قانون سازی اور اقدامات کیے جائیں۔

رپورٹ کا جائزہ لیں تو بدقسمتی سے خواتین سے جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ افسوسناک ہے کہ لاہور اور فیصل آباد جیسے بڑے شہروں سے زیادہ کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ اگر سرکاری و نجی ڈیٹا کچھ اضلاع میں زیادہ اعداد و شمار بتا رہا ہے تو گزشتہ دس برسوں کے اعداد و شمار کا جائزہ لے کر پالیسی سازوں اور قانون ساز اداروں کو غور کرنا چاہیے کہ ایسے کیا محرکات ہیں جن کی وجہ سے ان شہروں میں اضافہ ہورہا ہے۔

حالانکہ قانون تو سب علاقوں میں ایک جیسا ہے اور اب تو سخت قوانین سامنے آچکے ہیں مگر صورتحال خراب ہوتی جا رہی ہے۔ کام کی جگہ پر ہراسمنٹ کے حوالے سے خاتون محتسب کا ادارہ موجود ہے ، اس کے باوجود کیسز میں اضافے کی وجہ کیا ہے، اس کا تعین کرنا ہوگا اور ہر صورت خرابی کو دور کرنا ہوگا۔ یہ رپورٹ جامع اور مفصل ہے جس نے خواتین کے حوالے سے ہر سطح پر گیپ کی نشاندہی کر دی ہے۔

اس پر اسمبلی میں بحث اور اس کی روشنی میں قانون سازی ہونی چاہیے۔ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف میں سے پانچواں ہدف صنفی برابری کے حوالے سے جس پر ہمیں کام کرنا ہے اور 2030ء تک ہدف حاصل کرنا ہے۔

2019 ء میں خواتین کے خلاف گھریلو تشدد میں اضافہ ہوا، اگر یہی صورتحال رہی تو ہم اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے ہدف نمبر 5 کو حاصل کرنے میں ناکام رہیں گے۔ اس رپورٹ سے سول سوسائٹی کو بھی سمت مل گئی ہے کہ کیا کام کرنا ہے، حکومت کیلئے اصل کام پالیسی اور عملدرآمد کا میکنزم بنانا ہے، جہاں بجٹ درکار ہے وہاں بجٹ جاری کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔