- فرانس میں سیاحوں کا طیارہ گر کر تباہ، 5 افراد ہلاک
- بھارت میں پیٹرول 25 اور ڈیزل 18 روپے سستا ہوگیا
- بلاول بھٹو یاسین ملک کا کیس لڑنے میں مدد کریں، اہلیہ مشعال ملک
- امریکا میں پاکستانی نے بیوی، بیٹی اور ساس کو قتل کرکے خودکشی کرلی
- وفاقی حکومت کے بروقت اقدامات سے ڈیرہ بگٹی میں ہیضہ کی وباء پر قابو پالیا گیا
- طالبان حکومت کے وزیر خارجہ کی امریکی مندوب سے قطر میں ملاقات
- ہمارے لانگ مارچ کا ریکارڈ کسی کا باپ نہیں توڑ سکتا، فضل الرحمان
- بے قابو لہروں پر تیرنے والے مکڑی کشتی
- ن لیگ کے رکن پنجاب اسمبلی فیصل نیازی مستعفی ہوگئے
- لانگ مارچ کو اسلام آباد آنے دینا ہے یا نہیں فیصلہ اتحادی کریں گے، وزیر داخلہ
- ن لیگ نے اسپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف دوبارہ تحریک عدم اعتماد جمع کرادی
- ڈولفن اپنے علاج کے لیے مرجانی چٹانوں کے ہسپتال جاتی ہیں
- آواز سن کر دل کی متاثرہ کیفیت بتانے والی ایپ
- وزیر اعظم نے بلیغ الرحمٰن کو گورنر پنجاب لگانے کی دوسری سمری صدر کو ارسال کردی
- سعودیہ میں پہلی بار کسی ایئرلائن کی خواتین عملے کے ساتھ مکمل پرواز
- فضل الرحمان نے مجھے اور عمران خان کو قتل کی براہ راست دھمکی دی ہے، شیخ رشید
- شادی کی تقریب میں رقص و سرود کی محفل سجانے پر خواتین سمیت 11افراد گرفتار
- ویسٹ انڈیز کے خلاف ہوم سیریز کے لیے قومی ٹیم کا اعلان کل ہوگا
- کورونا وبا؛ سعودی عرب نے بھارت سمیت 15 ممالک کے سفر پر پابندی لگا دی
- مقبوضہ کشمیر میں زیر تعمیر ٹنل بیٹھ گئی، 10 مزدور ہلاک
اداروں کے نجی کاروبار ہیں اس سے بڑا مفاد کا ٹکراؤ کیا ہے؟ اسلام آباد ہائی کورٹ

اسلام آباد میں تمام اداروں نے اپنے اپنے رئیل اسٹیٹ کے بزنس کھولے ہوئے ہیں، چیف جسٹس اطہر من اللہ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اداروں نے اپنے نام سے سوسائٹیز بنائی ہیں ان کے پرائیویٹ بزنس ہیں اس سے بڑا مفاد کا ٹکراؤ کیا ہے؟
اسلام آباد ہائی کورٹ میں وفاقی دارالحکومت میں پولیس آرڈر پر عمل درآمد سے متعلق کیس پر سماعت ہوئی۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، آئی جی اسلام آباد ، سیکریٹری داخلہ ، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
ہائی کورٹ نے کہا کہ پورا سسٹم عام آدمی کے لیے بیٹھا ہے کہ لیکن سب کام اس کے خلاف ہو رہا ہے، ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ عدلیہ کا دنیا میں کون سا ریٹ ہو گیا ہے، کیسے قبضے ہوتے ہیں ان سب آفیشلز کو پتہ ہے ایس ایچ او پٹواری ملوث نا ہو تو قبضہ ہو ہی نہیں ہو سکتا ، اداروں نے اپنے نام سے سوسائٹیز بنائی ہیں ان کے پرائیویٹ بزنس ہیں اس سے بڑا مفاد کا ٹکراؤ کیا ہے؟۔ وفاقی حکومت پراسیکوشن برانچ بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بڑے آدمی کو کچھ ہو جائے تو پوری مشنری ادھر پہنچ جاتی ہے لیکن عام آدمی کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا، ڈپٹی کمشنر بے بس ہیں کیونکہ وہ خود کوآپریٹو سوسائٹی کے ہیڈ ہیں ، کیا وزارت داخلہ کی سوسائٹی کے خلاف ڈپٹی کمشنر فیصلہ کر سکتا ہے؟ جو بھی ججمنٹ دی اس کو لیکر دراز میں رکھ دیا جاتا ہے کیونکہ وہ غریب سے متعلق ہوتی ہے، یہاں اسلام آباد میں تمام اداروں نے اپنے اپنے رئیل اسٹیٹ کے بزنس کھولے ہوئے ہیں ، ریاست جس نے عوام کا تحفظ کرنا ہے اس کے آرگنائزر خود کرائم میں ملوث ہیں، ایلیٹس کی اجارہ داری ہے کوئی رول آف لا نہیں ، ایف آئی اے ، داخلہ ، آئی بی سب نے اپنی اپنی ہاؤسنگ سوسائٹیز بنائی ہوئی ہیں ، قبضہ گروپس کو ریاستی اداروں کی جانب سے پروٹیکشن حاصل ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ساٹھ سال پہلے جن کی زمینیں لیں ان کو معاوضے نہیں دئیے گئے ، کون آئے گا ان کمزور لوگوں کے تحفظ کرنے، کیا آپ آئی بی وزارت داخلہ کے رئیل اسٹیٹ بزنس کو کیسے Justify کر سکتے ہیں ؟۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے جواب دیا کہ میں نہیں کر سکتا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جیسے ہی موٹروے سے اتریں تو بڑا سا بورڈ لگا ہے سپریم کورٹ ہاؤسنگ سوسائٹی ، رجسٹرار کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی اس سے متعلق لاچار ہے ، پچھلی سماعت پر بتایا گیا تھا کہ اداروں کے نام پر ہاؤسنگ سوسائٹی رکھنا غیر قانونی ہے، اب یہ ختم ہونا چاہے مفادات کا ٹکراؤ ختم ہونا چاہیے، آپ مجھے بتائیں آئی بی سوسائٹی کی کیا ہسٹری ہے کیا وہ قبضہ گروپس میں ملوث نہیں تھی ؟۔
ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات نے کہا کہ وزارت داخلہ کا ہاؤسنگ سوسائٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ یہ بہت سنگین معاملہ وفاقی کابینہ اور وزیراعظم کے نوٹس میں لائیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔