- عمران خان صاحب! حقیقت سے کب تک بھاگیں گے؟
- حکومتی اتحاد نے چیئرمین نیب کیلئے جسٹس (ر) مقبول باقر کے نام پر اتفاق کرلیا
- ننکانہ صاحب میں بھائی نے 2 بہنوں کو قتل کردیا
- ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکی جیل میں موجودگی سے متعلق اہم رپورٹ سامنے آگئی
- بجلی کا شارٹ فال 5 ہزار 780 میگاواٹ، 8 سے 12 گھنٹے لوڈ شیڈنگ جاری
- لانگ مارچ؛ راولپنڈی میں اگلے 6 روز تک سیکورٹی ہائی الرٹ رکھنے کا فیصلہ
- زمینی فضا میں نیا اور انتہائی تعامل والا کیمیکل دریافت
- میراڈونا کے نام سے منسوب جہاز قطر فٹبال ورلڈکپ کیلئے اڑان بھرنے کو تیار
- سرکاری خزانے سے ایک دھیلا تنخواہ نہیں لی، پیٹرول تک اپنے پاس سے ڈلواتا ہوں، وزیراعظم
- پاکستانی کوہ پیماؤں کا کارنامہ، دنیا کی 5ویں بلند ترین چوٹی سرکرلی
- فرانس نے سوئمنگ پولز میں برکینی پہننے پر پابندی عائد کردی
- حکومت کرنے والے اپنےکیسز ختم نہیں کراسکیں گے جلد جیل جائیں گے، شیخ رشید
- یوم تکبیر پر چاغی کی پکار
- آئی ایم ایف کیساتھ بجلی 7 روپے یونٹ مہنگی کرنے پر بات چیت
- محمد رضوان کی ٹی20 بلاسٹ چیمپئین شپ لگاتار دوسری نصف سنچری
- پاکستان کو ایٹمی طاقت بنے 24 برس مکمل، آج یوم تکبیر منایا جا رہا ہے
- سورج آج خانہ کعبہ کے عین اوپرہوگا
- بجٹ 23-2022؛ مختلف وزارتوں کے ترقیاتی فنڈز میں کٹوتی کا فیصلہ
- کراچی میں دہشتگردی کاخطرہ، اہم تنصیبات نشانہ، گولہ بارود پہنچ گیا
- ڈیوڈ وارنر کے جلد آؤٹ ہونے پر بیٹیاں رونے لگیں، ویڈیو وائرل
طالبان کابل میں داخل نہ ہونے پر راضی تھے لیکن اپنے وعدے سے پھر گئے، اشرف غنی

اشرف غنی نے کہا کہ وہ رقم لے کر فرار نہیں ہوئے—فائل فوٹو
لندن: افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے رواں سال کے آغاز میں طالبان کی آمد کے ساتھ ہی ملک سے فرار ہونے کے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے یہ کام کابل کی تباہی کو روکنے کے لیے کیا تھا۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ طالبان جنگجو کابل میں داخل نہ ہونے پر راضی ہوگئے تھے لیکن دو گھنٹے بعد ہی وہ اپنے وعدے سے پھر گئے۔
اشرف غنی نے کہا کہ طالبان کے دو مختلف دھڑے دو مختلف سمتوں سے قریب آ رہے تھے اور ان کے درمیان بڑے پیمانے پر تصادم کا امکان تھا جو 50 لاکھ کے شہر کو تباہ کرسکتا تھا۔
مزیدپڑھیں: پاکستان سے آنے والی کال پر اشرف غنی فرار ہونے پر آمادہ ہوگئے، امریکی اخبار
افغانستان کے سابق صدر نے اپنے بہت سے قریبی لوگوں کو کابل چھوڑنے کی اجازت دینے پر آمادگی کا اظہار کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی اہلیہ کابل چھوڑنے پر خوش نہیں تھی اور ان کے نیشنل سیکیورٹی کے مشیر کارلینے کے گئے لیکن کار لے کر نہیں آئے بلکہ جب واپس آئے تو بہتر گھبرائے ہوئے تھے اور انہوں نے کہا کہ ’اگر طالبان کے سامنے کھڑے ہوئے تو سب ماردیے جائیں گے‘۔
اشرف غنی نے کہا کہ انہوں نے مجھے دو منٹ سے زیادہ وقت نہیں دیا، میری ہدایات یہ تھیں کہ خوست [شہر] کے لیے روانگی کی تیاری کروں لیکن بتایا گیا کہ خوست اور جلال آباد پر طالبان کا قبضہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغان صدر کا مستعفی ہوکر اہل خانہ سمیت بیرون ملک منتقل ہونے کا فیصلہ، بھارتی میڈیا
افغانستان کے سابق صدر نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ ہم کہاں جائیں گے، جب ہم نے ٹیک آف کیا تو یہ واضح ہو گیا کہ ہم [افغانستان] چھوڑ رہے ہیں، یہ واقعی اچانک تھا۔
انہوں نے کہاکہ میں واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں، میں نے کوئی پیسہ ملک سے باہر نہیں لیا، میرا طرز زندگی سب کو معلوم ہے، میں پیسے کا کیا کروں گا؟
اشرف غنی نے اعتراف کیا کہ غلطیاں ہوئیں، بشمول ’یہ فرض کرنا کہ عالمی برادری کا صبر قائم رہے گا‘۔
علاوہ ازیں انہوں نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں طالبان اور امریکا کے درمیان ہونے والے معاہدے کی طرف اشارہ کیا، جس نے 15 اگست کو ہونے والے واقعات کی راہ ہموار کی۔
انہوں نے کہا کہ امن کے عمل کے بجائے ہمیں انخلا کا عمل ملا، جس طرح سے معاہدہ ہوا، ہمیں مٹا دیا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔