- درجہ بندی کرنے کرنے کیلئے یوٹیوبر نے تمام امریکی ایئرلائنز کا سفر کرڈالا
- امریکی طبی اداروں میں نسلی امتیازی سلوک عام ہوتا جارہا ہے، رپورٹ
- عمران خان کا چیف جسٹس کو خط ، پی ٹی آئی کو انصاف دینے کا مطالبہ
- پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی، شوہر کو تین ماہ قید کا حکم
- پشاور میں معمولی تکرار پر ایلیٹ فورس کا سب انسپکٹر قتل
- پنجاب میں 52 غیر رجسٹرڈ شیلٹر ہومز موجود، یتیم بچوں کا مستقبل سوالیہ نشان
- مودی کی انتخابی مہم کو دھچکا، ایلون مسک کا دورہ بھارت ملتوی
- بلوچستان کابینہ نے سرکاری سطح پر گندم خریداری کی منظوری دیدی
- ہتھیار کنٹرول کے دعویدارخود کئی ممالک کو ملٹری ٹیکنالوجی فراہمی میں استثنا دے چکے ہیں، پاکستان
- بشریٰ بی بی کا عدالتی حکم پر شفا انٹرنیشنل اسپتال میں طبی معائنہ
- ویمن ون ڈے سیریز؛ پاک ویسٹ انڈیز ٹیموں کا کراچی میں ٹریننگ سیشن
- محکمہ صحت پختونخوا نے بشریٰ بی بی کے طبی معائنے کی اجازت مانگ لی
- پختونخوا میں طوفانی بارشوں سے ہلاکتیں 48 ہوگئیں، 70 زخمی
- امریکا کسی جارحانہ کارروائی میں ملوث نہیں، وزیر خارجہ
- پی آئی اے کا یورپی فلائٹ آپریشن کیلیے پیرس کو حب بنانے کا فیصلہ
- بیرون ملک ملازمت کی آڑ میں انسانی اسمگلنگ گینگ سرغنہ سمیت 4 ملزمان گرفتار
- پاکستان کےمیزائل پروگرام میں معاونت کا الزام، امریکا نے4 کمپنیوں پرپابندی لگا دی
- جرائم کی شرح میں اضافہ اور اداروں کی کارکردگی؟
- ضمنی انتخابات میں عوام کی سہولت کیلیے مانیٹرنگ اینڈ کنٹرول سینٹر قائم
- وزیرداخلہ سے ایرانی سفیر کی ملاقات، صدررئیسی کے دورے سے متعلق تبادلہ خیال
طالبان کابل میں داخل نہ ہونے پر راضی تھے لیکن اپنے وعدے سے پھر گئے، اشرف غنی
لندن: افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے رواں سال کے آغاز میں طالبان کی آمد کے ساتھ ہی ملک سے فرار ہونے کے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے یہ کام کابل کی تباہی کو روکنے کے لیے کیا تھا۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ طالبان جنگجو کابل میں داخل نہ ہونے پر راضی ہوگئے تھے لیکن دو گھنٹے بعد ہی وہ اپنے وعدے سے پھر گئے۔
اشرف غنی نے کہا کہ طالبان کے دو مختلف دھڑے دو مختلف سمتوں سے قریب آ رہے تھے اور ان کے درمیان بڑے پیمانے پر تصادم کا امکان تھا جو 50 لاکھ کے شہر کو تباہ کرسکتا تھا۔
مزیدپڑھیں: پاکستان سے آنے والی کال پر اشرف غنی فرار ہونے پر آمادہ ہوگئے، امریکی اخبار
افغانستان کے سابق صدر نے اپنے بہت سے قریبی لوگوں کو کابل چھوڑنے کی اجازت دینے پر آمادگی کا اظہار کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی اہلیہ کابل چھوڑنے پر خوش نہیں تھی اور ان کے نیشنل سیکیورٹی کے مشیر کارلینے کے گئے لیکن کار لے کر نہیں آئے بلکہ جب واپس آئے تو بہتر گھبرائے ہوئے تھے اور انہوں نے کہا کہ ’اگر طالبان کے سامنے کھڑے ہوئے تو سب ماردیے جائیں گے‘۔
اشرف غنی نے کہا کہ انہوں نے مجھے دو منٹ سے زیادہ وقت نہیں دیا، میری ہدایات یہ تھیں کہ خوست [شہر] کے لیے روانگی کی تیاری کروں لیکن بتایا گیا کہ خوست اور جلال آباد پر طالبان کا قبضہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغان صدر کا مستعفی ہوکر اہل خانہ سمیت بیرون ملک منتقل ہونے کا فیصلہ، بھارتی میڈیا
افغانستان کے سابق صدر نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ ہم کہاں جائیں گے، جب ہم نے ٹیک آف کیا تو یہ واضح ہو گیا کہ ہم [افغانستان] چھوڑ رہے ہیں، یہ واقعی اچانک تھا۔
انہوں نے کہاکہ میں واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں، میں نے کوئی پیسہ ملک سے باہر نہیں لیا، میرا طرز زندگی سب کو معلوم ہے، میں پیسے کا کیا کروں گا؟
اشرف غنی نے اعتراف کیا کہ غلطیاں ہوئیں، بشمول ’یہ فرض کرنا کہ عالمی برادری کا صبر قائم رہے گا‘۔
علاوہ ازیں انہوں نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں طالبان اور امریکا کے درمیان ہونے والے معاہدے کی طرف اشارہ کیا، جس نے 15 اگست کو ہونے والے واقعات کی راہ ہموار کی۔
انہوں نے کہا کہ امن کے عمل کے بجائے ہمیں انخلا کا عمل ملا، جس طرح سے معاہدہ ہوا، ہمیں مٹا دیا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔