ٹیکس کیا ہے؟

سعد اللہ جان برق  جمعـء 31 دسمبر 2021
barq@email.com

[email protected]

ہمارا بالائی علاقہ چراٹ سارے کا سارا خشک، پہاڑی علاقہ ہے جہاں زمین اپنے بچوں کوکچھ بھی نہیں کھلاسکتی، چنانچہ یہاں کے لوگ ہمیشہ باہرہی رہتے ہیں، آج کل ان کی زیادہ تعداد یورپ اور خاص طورپر انگلینڈ میں پھیلی ہوئی ہے یا اسکینڈینیوین ممالک میں مقیم ہے۔ان سے اکثر وہاں کے حالات پربات ہوتی ہے اوراس بات سے ہمیں بڑی حیرت ہوتی ہے کہ ان لوگوں کے مطابق ان ممالک کے لوگ سرکاری ٹیکس نہ صرف ہنسی خوشی بلکہ جوش وخروش سے اداکرتے ہیں،بلکہ اکثر توازخود قطاروں میں کھڑے ہوکرٹیکس اداکرتے ہیں حالاںکہ ٹیکسزاتنے زیادہ ہیں کہ تقریباً ان کی آدھی آمدنی ٹیکسوں کی نذرہوجاتی ہے جب کہ ہمارے یہاں کوئی بھی خوشی سے ٹیکس ادا نہیں کرتا بلکہ حتی الوسع ٹیکس چوری کرتے ہیں ۔

آخراس کی وجہ کیاہے،کیایہاں اوروہاں کے لوگوں میں یہ فرق اس وجہ سے ہے کہ وہاں کے لوگ اچھے اورہمارے لوگ ’’برے‘‘ ہیں؟لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام ہرملک ،ہرخطے اورہرقوم یامذہب وملت کے ہمیشہ اچھے ہوتے ہیں، بس حکومتیں اورصرف حکومتیں ہی لوگوں کواچھا یابرا بناتی ہیں۔ مشہورمثل ہے کہ

الناس علیٰ دین ملوکھم

یعنی لوگ حکمرانوں کے راستے پرہوتے ہیں۔ حکومتیں دیانت دارہوں توعوام بھی دیانت دارہوتے ہیں۔ حکومت بددیانت ہوتو عوام بھی بددیانت ہوجاتے ہیں بلکہ بددیانتی پرمجبورہوجاتے ہیں۔اس بات کوپوری طرح سمجھنے کے لیے ہمیں تاریخ انسانی میں دورتک جھانکناپڑے گاجب بنی نوع انسان پر جنت جیسا زمانہ گزرگیا،ہم مذاہب میں ذکرشدہ جنت کاذکر نہیں کر رہے ہیں بلکہ اس زمانے کاذکرکررہے ہیں جب خوراک وافراور انسانوں کی آبادی کم تھی ہرجگہ ہرے بھرے جنگل ، چشمے، جھرنے تھے اور باغ وبہارتھی انسان جو کچھ چاہتاتھا، ہاتھ بڑھا کرآرام سے حاصل کرلیتا تھا، کسی چیز کی قلت بھی نہ لڑائی جھگڑا نہ چھیناچھپٹی تھی۔

انسان کی خوراک کے دوذرایع تھے، ایک زمین ، دریااوردوسراجانور۔یوں انسان دوگروہوں میں بٹنے لگے، ایک وہ جواپنا رزق زمین سے حاصل کرتا تھا دوسرا وہ جس کاذریعہ آمدنی جانورتھے یایوں کہئے کہ غلہ اور گوشت خورکی تقسیم عمل میں آئی اورجب قدرتی خوراک دونوں کی کم پڑگئی توگوشت خور شکاری جانورپال بن گئے اورغلہ خوریا سبزی خورزراعت کار بن گئے چونکہ زراعت کے لیے ایک جگہ ٹھہرنا ضروری ہوتاہے، اس لیے بستیاں اورآبادیاں بھی وجود میں آگئیں اورجانور چرانے کے لیے خانہ بدوشی اوردربدری لازمی ہے۔

زراعت کارمتمدن اپنی محنت اوراپنی ماں زمین کی قربت کی وجہ سے اچھے خاصے خوشحال زندگی بسر کرتے تھے تب خانہ بدوش وحشیوں نے ان کولوٹنے کا سلسلہ شروع کیا۔ وہ اچانک کسی بستی پرآپڑتے تھے اور اپنے پیچھے تباہی چھوڑ کر جنگل، پہاڑ یا صحرا میں غائب ہوجاتے تھے۔

ان کے مقابل زراعت کارشہریوں کے پاس نہ توہتھیار تھے نہ وہ جنگجویانہ مزاج رکھتے تھے جب کہ خانہ بدوش وحشی ہونے کی وجہ سے ہتھیاربھی رکھتے تھے، ان کے مزاج میں جارحیت بھی ہوتی تھی چنانچہ بستیوں والے امن پسندوں نے اپنی حفاظت کے لیے قلعے اورچاردیواریوں کاسلسلہ شروع کیا یا اپنی حفاظت کے لیے محافظ رکھنا شروع کیے بلکہ اکثرتوان وحشیوں نے ہی محافظ کاروپ دھارن کرلیا کہ گائے کوایک بار ذبح کرکے کھانے سے بہتر ہے کہ اسے ’’دوہ‘‘کرکھایا جائے۔

پھر ان محافظوں نے آہستہ آہستہ اپنے معاوضے یا کرائے اتنے بڑھالیے کہ ناقابل برداشت ہوگئے۔ مارکس کے ساتھی فریڈرک اینگلزنے اپنی کتاب ’’خاندان، ملکیت اورریاست‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک بستی کے لوگ وحشیوں کی لوٹ مارسے بڑے تنگ تھے جو جنگلوںسے نکل کران کولوٹ لیتے تھے۔ بستی والوں نے لوٹ مارسے بچنے کے لیے محافظ رکھ لیے ،آہستہ آٰہستہ ان محافظوں کے مطالبات اورتقاضے بلکہ صحیح معنوں میں ’’لوٹ مار‘‘ اتنی بڑھ گئی کہ بستی کے لوگ  وحشیوں لٹیروں سے نہیں بلکہ اپنے محافظوں سے پناہ مانگنے لگے۔

یہ کش مکش جاری رہی، مذاہب آئے، مصلحین پیداہوئے،رحم دل اورعوام دوست حکمران بھی پیداہوتے رہے، انسان بھی قدم قدم ارتقاکی منزل طے کرتاگیا،آخرحکم ران اوررعیت کے درمیان ایک ایسا معاہدہ طے پاگیا جو کبھی لکھا نہیں گیاہے لیکن ہرانسان اس سے آگاہ ہے،یہ معاہدہ جوکہیں لکھا نہیں گیاہے لیکن انسانیت کی رگ رگ میں جاری وساری ہے، حقوق اورفرائض کا’’انڈراسٹوڈ‘‘ معاہدہ کہلاتا ہے۔

فریقین یعنی حکم ران اوررعیت دراصل حقوق وفرائض کی تقسیم کا نام ہے، جو دیانت دارانہ لین اوردین پرمبنی ہے۔حکومت کاجو ’’حق‘‘ یاحقوق ہیں وہ عوام کے فرائض میں شامل ہیں،سیدھا ساداصاف صاف ’’لین اوردین‘‘۔جیسے خریداراوردکاندارمیں ہوتاہے یامالک ومزدورمیں ہوتاہے، خریدار ’’پیسے‘‘ دیتاہے اوردکاندار وہ چیزدیتاہے جوخریدارکومطلوب ہوتی ہے، مزدورکام کرتا ہے اورمالک اس کامعاوضہ دیتاہے۔

اب اگراس ’’لین‘‘اور’’دین‘‘ میں خرابی پیدا ہوجائے،ایک فریق اپناحق تولے لے اوردوسرے کا حق نہ دے تولین دین کاتوازن بگڑ جاتاہے، جھگڑا اور خرابیاں جنم لینے لگتی ہیں، اگردکاندار یامالک طاقتور ہے، خریداریامزدوراپنا حق اس سے بزورحاصل نہیں کرسکتا تودونوں مجبور’’فریق‘‘ چوری کریں گے یاکام چوری یاغاصب کونقصان پہنچانے کی ہرممکن کوشش کریں گے۔ایک مشہورکہاوت کے مطابق جب گھی سیدھی انگلی سے نہیں نکلتاہے تو گھی کے ضرورت مندکوانگلی ٹیڑھی کرکے گھی حاصل کرنا پڑتاہے ۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔