ڈاکٹر عبدالقدیرخان (پہلاحصہ)

انجینئر مسعود اصغر  جمعـء 31 دسمبر 2021
فوٹوفائل

فوٹوفائل

بنیادی طور پر ہم ایک ’’مردہ پرست‘‘ قوم ہیں ، کیونکہ زندگی میں تو ہم اپنے محسنوں کی قدر کر نہیں سکتے ، جس کے نتیجے میں ان کے دنیا سے جانے پر دکھ ، افسوس اور پچھتاؤے کے سوا ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ہم نے اپنے محسنوں کو کیا دیا ان کی لا محدود نیکیوں اور اچھائیوں کے صلے میں؟ بہ حیثیت انسان بندے کی ایک دفعہ کی غلطی معاف کی جاسکتی ہے مگر متواتر کی جانے والی غلطیوں کو ہم صرف ’’بے حسی‘‘ کا ہی نام دے سکتے ہیں ، جس سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔

بلکہ اس سے اگر عادت کی مجبوری یا جان بوجھ کر کرنا کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ حال ہی میں ہم نے ایک دفعہ پھر اپنے بہت ہی نیک دل، وطن عزیز سے دل و جان سے محبت کرنے والے اور اس میں بسنے والی عوام کے دلوں کے بے تاج بادشاہ کا دل دکھایا ، یہاں تک کہ وہ اس دکھ کے ساتھ ہی اس فانی دنیا سے منہ پھیرگئے۔ بلاشبہ یہ شخصیت کوئی اور نہیں ہمارے محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان ہیں۔

27 اپریل 1936کو متحدہ ہندوستان کے شہر بھوپال میں یوسف زئی گھرانے میں پیدا ہوئے، سولہ برس کی عمر میں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ 1952 میں بھوپال سے کراچی آگئے۔ آپ کہتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد ہم کھوکھرا پار سے کراچی آئے تو ہم نے شیرشاہ کے علاقے میں بھی قیام کیا۔ والد عبدالغفور ایک اسکول ٹیچر تھے جو وزارت تعلیم میں بھی اپنی خدمات انجام دے چکے تھے جب کہ والدہ زلیخا بیگم ایک گھریلو اور مذہبی سوچ کی حامل خاتون تھیں۔

آپ نے کراچی آکر محلہ رام سوامی میں رہائش اختیار کی جہاں پہلے سے آپ کے بڑے بھائی جناب عبد الرؤف خان رہائش پذیر تھے۔1956میں ان کے والد بھوپال میں انتقال کرگئے اور چند سال بعد آپ کے چھوٹے بھائی بھی کراچی آگئے۔ بھائیوں نے عبد القدیر خان کو ڈی جے سائنس کالج، کراچی میں داخل کروادیا۔ قدیر خان نے ایف ایس سی میں نان میڈیکل کا چناؤ کیا کیونکہ انھیں فزکس سے انتہائی دلچسپی تھی یہ وہی دور تھا جب انھوں نے اپنے پسندیدہ مضمون میں کچھ کر دکھانے کا عزم کیا۔

آپ کا زیادہ تر وقت مطالعے میں گزرتا۔ وہ سائنسی دنیا کی زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی جستجو میں لگے رہتے اور اسی دور میں آپ جرمن زبان سیکھنے میں بھی لگ گئے، طالب علمی کے دور سے ہی ایک راسخ العقیدہ اور انتہائی سادہ مسلمان تھے وہ اپنے مذہبی عقائد میں کسی قسم کی لچک کے قائل نہیں تھے۔ آپ نسیم حجازی کے ناولوں کا بڑا شغف رکھتے ، شعر و شاعری سے بھی آپ کو ہمیشہ رغبت رہی پر یہ شوق صرف پڑھنے یا سننے کی حد تک تھا خود کبھی شاعری نہیں کی اچھے اشعار ہمیشہ نوٹ فرما لیتے البتہ نثر لکھا کرتے تھے۔ آپ کا موضوع گفتگو ہمیشہ دینی ، ملی اور سائنسی ہوتا۔

کالج کے دور میں آپ کی دوستی بدر اسلام ، مہدی حسن اور عبدالرشید سے بہت گہری تھی۔ ڈاکٹر خان انتہائی خود دار انسان تھے ، تاحیات دوسروں کے غم دکھ درد میں شریک رہتے مگر اپنے دکھ اپنے غم اپنے تک رکھتے۔ ڈاکٹر صاحب ہمیشہ اپنے اساتذہ کا ذکر انتہائی ادب و احترام سے کرتے خصوصا ڈی جے کالج کے دور کے اساتذہ کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ’’اس وقت اساتذہ نے بے لوث خدمت کے جذبے سے جو تعلیم ہمیں دی اس نے آج ہمیں ملک و قوم کی خدمت کے قابل بنادیا ‘‘ بشمول دیگر اساتذہ جن میں ڈاکٹر اللہ بخش کمالی ، پروفیسر افتخار احمد انصاری، ڈی سوزا ،سدھوا ،عبدالرشید ، مستور، پروفیسر بیگ ، محبوب علی خان ، پروفیسر غوری ، زبیری ، ڈاکٹرقاضی ، پروفیسر شیخ اور ترمذی صاحب نے توجہ ، محنت اور خلوص کے ساتھ جو تعلیم دی ڈاکٹر خان اس کے لیے ہمیشہ ان کے احسان مند رہے۔

راقم کے لیے یہ بات بڑے فخر و افتخار کی ہے کہ اس عظیم ہستی کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا دینے میں ہمارے خاندان کے دو بزرگوں جن میں ڈاکٹر اللہ بخش کمالی اور پروفیسر محبوب علی خان کا بھی حصہ رہا۔ آپ کہتے ’اس عظیم درسگاہ نے میری تعلیمی بنیادیں اتنی مستحکم کردیں کہ مجھے جرمنی کی یونیورسٹی میں داخلہ بھی آسانی سے مل گیا اور ہمارے اساتذہ بھی ہم پر فخر کرتے ہیں کہ ان کے شاگردوں نے انھیں مایوس نہیں کیااور دنیا بھر میں اپنے ملک کا نام روشن کیا‘۔ 1956 میں جامعہ کراچی سے فزکس میں بیچلرز آف سائنس کی ڈگری امتیازی پوزیشن کے ساتھ حاصل کی۔

بعد ازاں1957 میں اپنے گھر والوں کے ہمراہ محلہ رام سوامی سے ناظم آباد منتقل ہوگئے۔ ان دنوں ، ان کے گھریلو حالات مستحکم نہیں تھے چنانچہ انھوں نے ملازمت کرنے کا فیصلہ کیا انھی دنوں محکمہ اوزان و پیمانہ جات میں انسپکٹروں کی بھرتی کے لیے مقابلے کے امتحان کا اعلان ہوا، ان سمیت کئی امیدواروں نے امتحان دیا لیکن صرف دو امیدوار ہی کامیاب ہوسکے ان میں ایک خود تھے یوں وہ انسپکٹر اوزان و پیمانہ جات مقرر ہوگئے مگر صرف تین سال کے مختصر عرصے میں آپ نے اس نوکری کو خیر باد کہہ دیا۔

انھی دنوں ڈاکٹر خان کو جرمن کی بین الاقوامی شہرت یافتہ ٹیکنیکل یونیورسٹی ڈیلفٹ نے قبول کرلیا ، وہ کالج کی تعلیم کے دوران ہی جرمن زبان سیکھ چکے تھے ، لہٰذا یونیورسٹی نے انھیں اعلیٰ تعلیم کی خاطر بہت ساری مراعات دیں۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ میں پندرہ سال قیام کے دوران آپ نے 1967 میں ہالینڈ کی ٹیکنیکل یونیورسٹی ڈیلفٹ سے فزیکل میٹالرجی میں ماسٹر آف سائنس کی ڈگری حاصل کی جب کہ 1972 میں بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیوؤن سے اکیڈمک ، دھات کار ، نظری طبیعات میں ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی سند حاصل کی۔

دوران طالب علمی آپ نے شادی کرلی اور 1967 میں چھ سال بعد وطن واپس آئے اور اسٹیل ملز میں ملازمت کے لیے درخواست دی مگر وہی وطن عزیز کا نوحہ اور انتہائی افسوس ناک بات کہ اس ادارے نے اس عظیم شخصیت کی خدمات حاصل کرنے سے انکار کردیا اس تکلیف دہ صورت حال سے مایوس ہو کر وہ واپس ہالینڈ چلے گئے اور وہاں اپنی مادر علمی ڈیلفٹ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں اپنے شہرت یافتہ استاد ڈاکٹر برگرز کے ریسرچ اسسٹنٹ مقرر ہوئے اس کے ساتھ ہی انھیں بلجیئم کی لیوون یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کے لیے فیلو شپ مل گئی۔

عبد القدیر خان کی یہ وطن عزیز سے بے لوث محبت ہی تھی کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی اپنے ملک کی خدمت کرنا چاہتے تھے جس کے لیے وہ بار ہا پاکستان آنے کی کوشش کرتے رہے وہ ایک عام سی تنخواہ میں بھی اپنے وطن میں کام کرنے کو تیار تھے۔ اپنوں کا ہمیشہ کا دستور یہی ہے کہ گھر کی مرغی دال برابر مگر ایسے موقعوں پر سمجھدار لوگ ہمیشہ معاملہ فہمی کا ثبوت دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ غیروں نے ان کے سامنے اپنی جھولیاں پھیلا دیں۔ ایمیسٹرڈیم ، ہالینڈ کی ایک مشہور کمپنی ایف ڈی او (فزیکل ڈائنا میکل ریسرچ لیبارٹری) نے ان کی قابلیت سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اپنے حساس ترین منصوبوں میں انھیں شریک کیا۔

(جاری ہے۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔