ایک نظر ادھر بھی

زبیر رحمٰن  جمعـء 31 دسمبر 2021
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

محنت کشوں کا استحصال تو صدیوں سے ہوتا آ رہا ہے۔ کارہائے زندگی کو آگے بڑھانے میں مچھیرے، ناخدا، دہقان، ترکھان، جولاہے، لوہار، بڑھئی، چمار، موچی، دھوبی، حجام، رنگ ساز، چرواہے، سنار، راج مستری، خاک روب وغیرہ اہم کردار ادا کرتے آ رہے ہیں۔

ان کے بعد بھٹہ مزدور، پاور لومز مزدور، کھیت مزدور، پٹرول پمپس پر کام کرنے والے مزدور، سیکیورٹی گارڈز، خدمت کے اداروں کے مزدور، ترسیلات کرنے والے مزدور، کان کنی کے مزدور، آئل فیلڈ کے مزدور کا زیادہ استحصال ہوتا ہے۔ اب بات کرنے جا رہا ہوں ان کی جن پر ہماری نظریں نہیں جاتی ہیں، وہ لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔

پرچون فروشوں کی دکانوں پر ایک سیٹھ ہے تو دو ملازم۔ سیٹھ روز 10 ہزار روپے کماتا ہے یا منافع بٹورتا ہے تو ملازم کو صرف آٹھ یا دس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دیتا ہے اور کام صبح سے رات 11 بجے تک لیتا ہے اور اگر یہی پرچون فروشی بڑے پیمانے پر ہوتی ہے تو انھیں سپر مارکیٹ کہا جاتا ہے ، یہاں کام کرنے والے مزدوروں کی ڈیوٹی 10 سے 12 گھنٹے تک کی ہوتی ہے۔ ان مزدوروں کو 8 ہزار سے 11 ہزار تک تنخواہ دی جاتی ہے۔

ڈیوٹی بھی 12 گھنٹے کی ہوتی ہے اور مسلسل کھڑے رہنے کی ڈیوٹی ہوتی ہے۔ یہاں جنسی امتیاز بھی ہوتا ہے۔ عورت مزدور کو مرد مزدور کے مقابلے میں کم تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ آن لائن خدمات انجام دینے والے مزدوروں کی تنخواہ 11/10 ہزار روپے ہوتی ہے۔

یہ مزدور موٹرسائیکل پر جو سامان پہنچاتے ہیں انھیں پٹرول کا خرچہ نہیں دیا جاتا۔ موبائل فون بھی نہیں دیا جاتا۔ اگر کوئی غلطی ہو تو ان کی تنخواہ سے پیسے کاٹے جاتے ہیں، شادیوں کے موقع پر شادی ہالز اور لانز کے مالکان لاکھوں روپے کماتے ہیں لیکن کام کرنے والے مزدوروں کو 3/4 سو روپے ملتے ہیں۔ میں نے ایک ویٹر سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ کہنے کو تو 500 روپے دیے جاتے ہیں لیکن کھانا کھانے کے پیسے کاٹ کر 3/4 سو روپے بچ جاتے ہیں۔

سیکیورٹی گارڈ ٹھیکیداروں کے ماتحت ہوتے ہیں انھیں ٹھیکیدار آدھی رقم کاٹ کر 8/10 ہزار روپے دیتے ہیں۔ سیکیورٹی گارڈز کی ڈیوٹی 12 گھنٹے کی ہوتی ہے۔ انھیں عید، بقر عید کی بھی چھٹی نہیں ملتی۔ اگر ایک دن کی چھٹی کرلیں تو دو دن کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔ پتھارے دار اپنے پاس کام کرنے کے لیے اکثر کمسن بچوں کو کام پر رکھتے ہیں اور انھیں 4 ہزار سے 6 ہزار تک ماہانہ تنخواہ دیتے ہیں اور احسان جتاتے ہیں کہ ہم انھیں کھانا بھی کھلاتے ہیں۔

پاکستان کے بیشتر عام ہوٹلوں میں کام کرنے والے ویٹرز کو 30 روپے سے 60 روپے روز کی دھیاڑی ملتی ہے۔ کینٹین میں کام کرنے والوں کو 60 روپے روز کی دھیاڑی ملتی ہے، اگر سوال کریں تو جواب ملتا ہے کہ انھیں بخشش بھی تو ملتی ہے۔ بخشش تو ایک ایسی لعنت ہے کہ انسان کی تذلیل کرنے کے مترادف ہے۔ اب آجائیں تھری اسٹار، فور اسٹار اور فائیواسٹار ہوٹلوں کی جانب۔ یہاں ایک ٹیبل پر 6/7 اشخاص کا کھانا کھانے کا بل 10/12 ہزار روپے آتا ہے جب کہ ویٹر کو 12/14 ہزار اور ان کے سپروائزر کو 20 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہیں۔جب کہ یہاں فوٹو اسٹیٹ کروانے کا 100 روپے لیتے ہیں۔ جو پٹاٹو چپس عام دکانوں پر 10 روپے کا ہے یہاں 50 روپے کا ہے۔ اور چپس بیچنے والے کی تنخواہ 15,000 روپے ہے۔

اس فائیو اسٹار ہوٹلز کے چوکیدار کی تنخواہ 12 سے 15 ہزار روپے ہے۔ پولٹری فارمز پر کام کرنے والے اور ڈیری فارمز پر کام کرنے والے مزدوروں کو 10 ہزار روپے سے زیادہ تنخواہ نہیں ملتی۔ موٹر مکینک کے پاس ورک شاپوں میں 2/3 کم عمر کے بچے کم پیسے پر لگے رہتے ہیں۔ انھیں کرائے اور چائے پانی کے بہانے اور کام سکھانے کے بہانے روز کی دھیاڑی 50 روپے سے 100 روپے دی جاتی ہے جس کے گھر میں بوڑھا بیمار باپ ہو اور بڑا بچہ نہ ہو تو وہ 100 روپے لے کر بھی کام کرنے پر مجبور ہے۔

کم ازکم روٹی تو مل جائے گی۔ بائیکیا لوگوں کو سفر کراتا ہے جب کہ اس کو 11 ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے۔ موبائل اور موٹرسائیکل اور پٹرول کا خرچ اپنی جیب سے خرچ کرنا پڑتا ہے۔ یہی صورتحال ٹیکسی والوں کی بھی ہے۔ انھیں بھی موبائل دیا جاتا ہے، پٹرول کا خرچ اور نہ بونس یا چھٹی۔ امریکا کی ایمازون جیسی بڑی کمپنی کے مزدوروں کو پیشاب کرنے کا وقفہ نہیں دیتی بلکہ ڈبیہ فراہم کی جاتی ہیں ، جب کہ ایمازون کھرب پتی (ڈالروں میں) ہے۔ایک اوسط درجے کا وکیل جو مہینے میں کم ازکم ایک لاکھ سے دو لاکھ کماتا ہے جب کہ اپنے منشی کو 5/6 ہزار روپے دیتا ہے۔

اگر سوال کریں کہ اتنا کم کیوں دیتے ہیں؟ جواب ملے گا وہ تو پارٹ ٹائم کام کرتا ہے جب کہ منشی سارا دن وکیل کے ساتھ ہی ہوتاہے۔ اسی طرح ایک ڈاکٹر اگر 10/12 لاکھ ماہانہ کماتا ہے اور ہر سال بیرون ملک کا دورہ بھی کرتا ہے لیکن اپنے پرائیویٹ سیکریٹری کو بمشکل 12 ہزار روپے دیتا ہے۔ جہاں تک کھیت مزدوروں کو آج بھی صبح سے شام تک کام کرنے کا معاوضہ 5 روپے سے زیادہ نہیں دیا جاتا اور بہت سے زمیندار 3/4 سو روپے دیتے ہیں اور کھانا کھلانے کا احسان بھی جتاتے ہیں۔

پورٹ کے مزدوروں کو ہفتے میں ایک یا دو مرتبہ کام کرنے کا موقعہ ملتا ہے اور وہ بھی صبح سے شام تک اور بے چاروں کو 1000 روپے سے زیادہ نہیں ملتا ہے۔ ریٹائرڈ پولیس سپاہی سرکاری نچلے درجے کے ملازمین کی پنشن میں مسلسل کٹوتی کی جارہی ہے۔ اس مہنگائی میں ان کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ اخبارات، ٹی وی چینلز کے رپورٹرز وغیرہ کو 25 سے 30 یا 35 ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہے اور ان کی ڈیوٹی کی کوئی حد نہیں۔ جب جہاں بھاگنا ہوتا ہے وہاں جانا پڑتا ہے۔ ٹرانسپورٹ ان کی اپنی ہوتی ہے ۔

یہ خالصتاً مزدور ہیں۔ رکشہ والوں سے ٹھیلے والوں سے اور موٹرسائیکل والوں سے ٹریفک پولیس ملک بھر سے روزانہ اربوں روپے رشوت کے کھاتے ہیں عوام سے لوٹتے ہیں۔ ان کا استحصال اور لوٹ مار کی جانب ٹریفک پولیس کی لوٹ کے علاوہ اور کسی جانب عوام کی اور حکمرانوں کی نظر کم ہی جاتی ہے۔ دوسری جانب ایک سرکاری بینک کے صدر کی تنخواہ 66 لاکھ روپے ہے۔ اسمبلی ارکان خواہ وہ قومی کے ہوں، صوبائی کے ہوں یا سینیٹ کے ان کی تنخواہ 5/6 لاکھ روپے سے زیادہ ہے، جب کہ یہ پہلے سے کروڑ پتی اور ارب پتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کروڑوں روپے رشوت کے کھاتے میں حاصل کرتے ہیں۔

16 گریڈ سے لے کر 22 گریڈ تک کے نوکر شاہی کو جو کروڑوں، اربوں روپے ماہانہ ادا کرتے ہیں اس سے لیڈی ہیلتھ ورکرز، نچلے درجے کی نرسیں، خاک روبوں، جونیئر ڈاکٹروں کی تنخواہوں کی ادائیگی کرسکتے ہیں اوربھٹہ مزدوروں اور پاور لومز کے مزدوروں کو غلامی سے نجات دلائی جاسکتی ہے اور لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کرسکتے ہیں۔

اگر ہم لینڈ کروزر، پیجارو، مرسڈیز، ٹویوٹا ڈبل کیبن وغیرہ کی درآمد پر پابندی لگا دیں یا پھر 500 فیصد ڈیوٹی عائد کردیں تو ان رقوم سے چھوٹے زمینداروں کو چھوٹے ٹریکٹرز فراہم کرسکتے ہیں۔ ایک ایک جاگیردار کے پاس جو ہزاروں لاکھوں ایکڑ زمینیں ہیں انھیں کھیت مزدوروں، بے زمین کسانوں اور کم زمین رکھنے والے کسانوں میں بانٹ دیں تو زرعی پیداوار میں اضافہ ہوگا اور بے روزگاری میں تیزی سے کمی ہوگی۔

شہری مقامی خودمختار انتظامیہ کی ایک اچھی مثال دلی کے اروند کیجری وال کی دے سکتے ہیں۔ انھوں نے دلی میں خواتین کو سفر کرنے کے لیے کارڈز جاری کیے ہیں، خواتین یہ کارڈز دکھا کر دلی کے سارے شہر کا سفر کرسکتی ہیں۔ لڑکیوں کے اسکولوں کے لیے میٹرک تک کے یونیفارم، کتابیں، فیس اور ٹرانسپورٹ، اسکول لے جانے اور گھر مفت پہنچانے کا انتظام کیا ہے۔ 200 یونٹ تک جو بجلی استعمال کرے گا اسے بل نہیں دینے پڑیں گے۔

بڑے شہروں میں خاص کر کراچی میں اربوں روپے کا بجٹ پیش ہوتا ہے۔ مگر نہ نالہ صاف ہوتا ہے، نہ باغات کی آبیاری ہوتی ہے نہ سڑکوں کی مرمت ہوتی ہے۔ نہ آب کی فراہمی اور نہ نکاسی ہوتی ہے، نہ پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل ہوتا ہے۔ اسپتالوں، صحت اور عوامی خدمات اور نہ ترقیاتی منصوبے مکمل ہوتے ہیں۔ آخر یہ رقوم کہاں جاتی ہیں؟ کہا جاتا ہے کہ 50 فیصد رشوت خوری میں چلی جاتی ہیں۔ اسے تب روکا جاسکتا ہے جب اختیار کل مقامی بلدیاتی نمایندوں کے حوالے کیا جائے اور محنت کشوں پر مشتمل نمایندوں کی انتظامیہ قائم ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔