عوام کی بھی سنی جائے

شبیر احمد ارمان  جمعـء 31 دسمبر 2021
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

ملکی سطح پر سال 2021  پاکستانی قوم کے لیے بڑا اذیت ناک رہا، جس کے اثرات ہنوز جاری ہیں ، غریب عوام کی مہنگائی کے ہاتھوں چیخ و پکار آہ و بکا اور فریادیں آج بھی حکمرانوں کی توجہ چاہتی ہیں۔ غریب آدمی کو مارکر بھی تبدیلی سرکار احساس سے عاری ہے ، یہ کیسی تبدیلی ہے جہاں غریب آدمی رل گئے ہیں ؟ کاروبار کوئی نہیں رہا ، مہنگائی نے ہر طرف طوفان برپا کر رکھا ہے ، بڑے بلند بانگ دعوے کیے گئے تھے کہ یہ کروں گا ، وہ کروں گا ، کیا کیا ، خاک کیا ، غریبوں کی حالت اجیرن ہوچکی ہے۔

غریب مرگئے بے چارے ، آٹا ، چینی ، دالیں روزمرہ کی ہر چیز مہنگی کردی گئی ہے ، غریب آدمی بے گھر ہوکر سڑکوں پہ آگئے ہیں ، غریبوں کو روٹی کے لالے پڑگئے ہیں ، مانگ کر روٹی کھانا بھی مشکل ہوگیا ہے ، چھت بھی غریبوں سے چھینی جارہی ہے ، کیونکہ مہنگائی کے سبب مکان کا کرایہ بھی دینا محال ہوگیا ہے۔ حکومت کے پاس اہلیت ہی نہیں ہے ، اس کے پاس وہ ٹیم ہی نہیں ہے جس سے ملک کو چلایا جاسکے۔

قوم کو بھکاری بنا دیا ہے ، جب ہم غریبوں کو قبروں پہ پہنچا دیں گے تب یہ نیا پاکستان بنے گا ؟ غریب جائیں تو کدھر جائیں ؟ غریبوں کی یہ وہ داد و فریادیں ہیں جو وہ سر راہ کرتے رہتے ہیں لیکن حکمرانوں کو کوئی پرواہ نہیں بلکہ یہ کہہ کر غریبوں کے زخموں پر نمک پاشی کرتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان میں دوسرے ممالک کے نسبت مہنگائی کم ہے ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان دنیا بھر میں مہنگائی کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہے۔

کسی کو کوئی احساس نہیں کہ مختلف عوامی مسائل میں جکڑے ہوئے عوام مختلف نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ بے روزگاری سے تنگ آئے ہوئے نوجوان خود کشیاں کررہے ہیں۔ معیشت تباہ ہوچکی ہے ، مل کارخانے بند ہو رہے ہیں ، سستے اور فوری انصاف کا تصور محال ہے، سائل عدالتوں میں انصاف کی بھیک مانگ رہے ہیں مگر انصاف کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے ، غریب سرکاری اسپتالوں میں ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر دنیا سے کوچ کررہے ہیں۔

اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان اور سابق سفیر پاکستان رعنا لیاقت علی خان کے فرزند اکبر علی خان عرصہ دراز سے علیل ہیں لیکن غربت کے باعث وہ اپنا علاج کر نہیں پا رہے اور ان کی اہلیہ نے مجبور ہوکر وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے ان کا علاج کروانے کی درخواست کی۔ نواب لیاقت علی خان نے حصول پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیا اور اسی پاکستان میں آج ان کا فرزند کسمپرسی کے عالم میں ہے ، جب کہ دوسری جانب اسی ملک پاکستان کے حکمران خاندان دولت کی فراوانی سے کھیل رہے ہیں اور ذرہ سی طبعیت خراب ہونے پر بیرون ممالک علاج کے لیے جاتے ہیں۔

یہ صورت حال لمحہ فکریہ ہے۔ اوور سیز پاکستانیوں کے زر مبادلہ سے پاکستان کی معیشت کو جو سہارا حاصل ہے اس سے کسی کو انکار نہیں مگر اوور سیز پاکستانی تنگ آکر پاکستان میں اپنا کاروبار ختم کرکے واپس دیار غیر جانے پر مجبور ہیں ان اوور سیز پاکستانیوں کے ساتھ ایسا کیا رویہ اپنایا گیا کہ وہ اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر ملک سے اپنا کاروبار بند کرکے ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں؟

ایک بار وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ اگر چوری کی گئی دولت باہر ممالک سے ملک میں منتقل کی جائے تو مہنگائی کم ہوسکتی ہے ۔ یاد رہے اس سے پہلے ہمارے یہاں ایک وزیر اعظم شوکت عزیز نے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر حل ہوجائے تو ملک سے مہنگائی بھی کم ہوسکتی ہے۔

لہٰذا قوم کو ان دنوں کا انتظار کرنا ہوگا ، لیکن یہ بات طے ہے کہ ہماری قوم کو قرضہ واپس کرنے کی عادت نہیں ہے ، اگر قوم کے بڑے قرضہ لے کر واپس کردیں تو نہ اگلے 50 سال تک نیا ٹیکس لگانے کی ضرورت پڑے گی نہ ہی بھیک مانگنے کی ، لیکن کیا کریں ؟ یہاں ہر دیانت دار ذمے دار اور ایماندار عام آدمی بے بس ہے ، بے بس۔ اس قوم کو ایک اتا ترک کی ضرورت ہے ۔ پرمٹ اور پلاٹ دینے کی رسم نے سچ بولنے والوں کا گلہ گھونٹ دیا ہے۔

تاریخی واقعہ ہے جب لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے رات کے ساڑھے تین بجے نہرو کو فون کیا تھا تو پتہ چلا وہ سو رہے ہیں اور اسی وقت جب انھوں نے ہمارے قائد کو فون کیا تو پتہ چلا وہ جاگ رہے ہیں تو ماؤنٹ بیٹن نے پوچھا کیا وجہ ہے قائد اتنی رات گئے تم جاگ رہے ہو ؟ جب کہ نہرو سو رہا ہے ؟ تو میرے قائد کا جواب تھا اس کی قوم جاگ رہی ہے اس لیے وہ سو سکتا ہے ، میری قوم سو رہی ہے اس لیے مجھے جاگنا ہوگا۔

آج میرا قائد اپنی قبر میں سو رہا ہے اور قوم بھی سو چکی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔