لیاری گینگ وار کے مرکزی کردار ارشد پپو کو گرفتار کرنے والا پولیس افسر قتل

اسٹاف رپورٹر  جمعـء 31 دسمبر 2021
مقتول انسپکٹر جاوید بلوچ کئی مرتبہ معطل اور برخاست بھی کیا جا چکا تھا، ذرائع پولیس- فوٹو:فائل

مقتول انسپکٹر جاوید بلوچ کئی مرتبہ معطل اور برخاست بھی کیا جا چکا تھا، ذرائع پولیس- فوٹو:فائل

کراچی: لیاری گینگ وار کے مرکزی کردار ارشد پپو کو گرفتار کرنے والے پولیس افسر سمیت دو افراد کو قتل کردیا گیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی کے علاقے سولجر بازار میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے دو افراد جاں بحق ہوگئے۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ مرنے والوں میں جاوید بلوچ نامی شخص بھی ہے جو ایس ایچ او کلاکوٹ رہ چکا ہے۔

ذرائع نے  بتایا کہ جاوید بلوچ کو پولیس نے گرفتار بھی کیا تھا، مقتول انسپکٹر کئی مرتبہ معطل اور برخاست بھی کیا جا چکا تھا، جب کہ ارشد پپو کو گرفتار کرنے والی ٹیم کی سربراہی بھی جاوید بلوچ کررہا تھا۔

واقعے کی اطلاع ملتے ہی ایس ایس پی ایسٹ قمر رضا جسکانی اور ایس ایس پی انویسٹی گیشن الطاف حسین جائے وقوع پر پہنچ گئے۔ واقعے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایس ایس پی ایسٹ قمر رضا جسکانی کا کہنا تھا کہ واقعہ 10 بج کر 20 منٹ پر پیش آیا ہے، مرنے والے دونوں افراد پیشی سے واپس آرہے تھے۔

ایس ایس پی قمر رضا نے بتایا کہ جاوید بلوچ پولیس کا برطرف انسپکٹر تھا، جاوید بلوچ کا ذکر لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی میں بھی تھا، جب کہ مصدق سندھ سیکریٹریٹ کا ریٹائرڈ ملازم ہے، جائے وقوع سے 18 خول اور 3 گولیاں بھی ملی ہیں، شواہد جمع کیے جارہے ہیں اور واقعے کے حوالے سے قریب لگے سی سی ٹی وی فوٹیجز سے بھی مدد لی جائے گی۔

جاوید بلوچ کے قتل کی سی سی ٹی وی فوٹیجز منظر عام پر

جاوید بلوچ کے قتل کی سی سی ٹی وی فوٹیجز بھی منظر عام پر آگئیں، ملزمان نے ایک منٹ 40 سیکنڈ میں واردات مکمل کی ، دو موٹر سائیکلوں پر چار ملزمان سوار تھے جبکہ جاوید بلوچ اور مصدق بھی موٹر سائیکل پر تھے۔ ملزمان کی ایک موٹر سائیکل نے انھیں روکا جبکہ دوسری موٹر سائیکل پر سوار ایک ملزم نے فائرنگ کی۔

سی سی ٹی وی فوٹیج میں واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ ایک ہی ملزم سڑک کے بیچوں بیچ کھڑے ہوکر کچھ فاصلے سے انتہائی اطمینان کے ساتھ فائرنگ کرتا رہا، اس کے علاوہ وہ کچھ دیر بعد جاوید بلوچ کے قریب گیا اور دوبارہ بھی فائرنگ کرتا رہا، اس دوران پہلی موٹر سائیکل پر سوار ایک ملزم بھی اس کے قریب آیا اور اس نے بھی فائرنگ کی لیکن ممکنہ طور پر اس کی پستول سے چند فائر کے بعد فائرنگ نہیں ہوسکی اور وہ واپس موٹر سائیکل پر بیٹھ گیا۔

ملزمان نے ایک منٹ چالیس سیکنڈ میں واردات کی جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انھیں کسی قسم کا کوئی ڈر خوف نہیں تھا جبکہ ذاتی رنجش کا یہ عالم تھا کہ 18 سے زائد گولیاں چلائی گئیں جبکہ تین گولیاں بھی جائے وقوع سے پولیس کو ملیں۔

ایک اور سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزمان فرار ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں جس میں واضح ہے کہ موٹر سائیکلیں چلانے والے دونوں ملزمان ہیلمٹ پہنے ہوئے ہیں اور وہ سولجر بازار کی مرکزی شاہراہ پر ہیں جو کہ  دوسری جانب ہولی فیملی اسپتال کی طرف جاتی ہے۔ ملزمان وہیں فرار ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

پولیس کو اب تک جتنی فوٹیجز ملی ہیں اس میں ملزمان سیدھی سڑک پر ہی جاتے دکھائی دے رہے ہیں، مزید فوٹیجز بھی حاصل کی جارہی ہیں تاکہ ملزمان کے فرار کے راستوں کا تعین کیا جاسکے۔

جاوید بلوچ نے 2013ء میں ارشد پیو، اسکے بھائی اور ساتھی کو گرفتار کیا تھا

برطرف انسپکٹر جاوید بلوچ نے سال 2013ء میں لیاری گینگ وار کے مرکزی کردار ارشد عرف پپو کو ڈیفنس کے علاقے سے اس کے بھائی یاسر عرفات اور ساتھی شیرا پٹھان سمیت گرفتار کیا تھا۔

گرفتاری کے بعد انھیں لیاری میں ان کے مخالف گروپ عزیر بلوچ کے علاقے میں لے گیا جہاں تینوں کو انتہائی بے دردی سے قتل کردیا گیا تھا، سفاکی کا یہ عالم تھا کہ ان تینوں افراد کی لاشیں تک نہیں مل سکی تھیں۔

انسپکٹر جاوید بلوچ اس وقت لیاری کے علاقے میں بطور ایس ایچ او فرائض سر انجام دے رہا تھا، واقعے کے بعد ارشد پپو کی بیوہ اسما کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا، بعد ازاں تہرے قتل کی واردات پر تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی ( جے آئی ٹی ) قائم کی گئی ، جے آئی ٹی میں جاوید بلوچ کا نام سامنے آیا جس پر اسے نہ صرف گرفتار کیا گیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ملازمت سے برخاست بھی کردیا گیا۔

تحقیقات کے دوران جاوید بلوچ نے انکشاف کیا کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ رینجرز کی وردی سے مشابہ یونیفارم میں ڈیفنس فیز ٹو ایکسٹینشن کے علاقے میں گیا تھا جہاں سے اس نے ایک فلیٹ پر چھاپہ مار کر ارشد عرف پپو ولد لعل محمد عرف حاجی لالو ، اس کے بڑے بھائی محمد یاسر عرفات اور ارشد پپو کے انتہائی قریبی و معتمد ساتھی جمعہ شیر عرف شیرا پٹھان کو گرفتار کرکے لیاری لے گیا۔

فلیٹ کا دروازہ کھلوانے کے لیے ارشد پپو گینگ کے خالد نامی گینگسٹر کو ساتھ لے کر گئے تھے جس نے دروازے پر دستک دی اور اندر موجود افراد نے جب اسے دیکھا تو دروازہ فوراً ہی بغیر کسی مزاحمت کے کھول دیا تھا، چھاپہ مار ٹیم نے موبائلیں کچھ دور کھڑی کی تھیں جس کے بعد وہ پرائیویٹ گاڑیوں میں فلیٹ تک پہنچے تھے تاکہ اندر موجود افراد کو کسی قسم کا خطرہ محسوس نہ ہو اور وہ چوکنے نہ ہوسکیں۔

تینوں افراد کو گرفتاری کے بعد لیاری میں عزیر بلوچ کے علاقے میں لے گئے جہاں مخالفین نے انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا ، ان کے جسم کے اعضا الگ کردیے گئے تھے، انھیں جلایا گیا جس کے بعد ٹکڑوں کی شکل میں انھیں بہادیا گیا تھا۔

ان پر تشدد کرنے والوں میں خواتین بھی شامل تھیں اور ہجوم کی شکل میں انھیں گلیوں میں بھی گھمایا گیا تھا، تینوں کا قتل انتہائی سفاکیت کے ساتھ کیا گیا تھا اور آج تک ان کی باقیات بھی نہیں مل سکیں۔

ارشد پپو قتل کیس میں انسپکٹر جاوید بلوچ سمیت 9 افراد نامزد تھے

ارشد پپو قتل کیس میں انسپکٹر جاوید بلوچ سمیت 9 افراد کو نامزد کیا گیا تھا جن میں سے چھ ضمانت پر رہا تھے جبکہ تین گرفتاری کے بعد اب تک جیل میں ہیں۔

سال 2013ء میں لیاری میں ارشد پپو کا بہیمانہ قتل ہوا تھا جس کی ایف آئی آر اس کی بیوہ اسما کی مدعیت میں کلاکوٹ تھانے میں درج کی گئی تھی۔ ایف آئی آر میں 9 افراد عزیر بلوچ ، زبیر بلوچ ، ذاکر ڈاڈا، جاوید بلوچ، چاند خان نیازی، یوسف بلوچ ، اکرم بلوچ ، رکن اسمبلی شاہ جہاں اور عبدالرحمن نامی شامل تھے۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ملزمان میں سے اب تک عزیر بلوچ ، ذاکر ڈاڈا اور زبیر بلوچ گرفتار ہیں اور جیل میں ہیں اس کے علاوہ جاوید بلوچ سمیت دیگر چھ افراد ضمانت پر رہا تھے۔

حکام نے مزید بتایا کہ ارشد پپو کی مخبری کرنے والے خالد اور فلیٹ کے مالک ذاکر عرف کمانڈو کو بھی قتل کردیا گیا تھا، ذاکر عرف کمانڈو بھی محکمہ پولیس میں بطور سب انسپکٹر تعینات تھا، ارشد پپو کیس میں ممکنہ طور پر جاوید بلوچ وعدہ معاف گواہ بن سکتا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔