منی بجٹ کے ڈرامے اور پاکستانی حکومتوں کا وتیرہ

شہاب احمد خان  ہفتہ 1 جنوری 2022
بجٹ میں مزید ٹیکس عوام کے سر پر تھوپ دیے جاتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

بجٹ میں مزید ٹیکس عوام کے سر پر تھوپ دیے جاتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان میں ایک اور منی بجٹ پر شورشرابہ جاری ہے۔ کیا ہمارے تمام حکمران صرف ایک ہی طرز حکمرانی کے عادی ہیں، جس میں قرضے ہی لے کر ملک چلانا ہے؟ کیا کبھی ہمارے ملک میں کسی ایسی سیاسی پارٹی کی حکومت بھی آسکتی ہے جو اپنی کابینہ کو چھوٹا رکھ کر اس ملک کے کھربوں روپے صرف اپنے نااہل وزیروں کی شاہانہ طرز زندگی پر خرچ نہ کرتی ہو؟

ہمارے ملک میں منی بجٹ صرف آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کےلیے ہی لایا جاتا ہے۔ جس میں مزید ٹیکس عوام کے سر پر تھوپ دیے جاتے ہیں۔ ان ٹیکسز کا کیا کوئی فائدہ ملک کو ہوتا ہے؟ یا یہ صرف قرض دینے والے ممالک کی مزید خوش حالی کا سبب بنتے ہیں؟ یہاں پڑھنے والوں کی اکثریت شاید یہ سمجھے کہ یہ کون سا راز ہے کہ ہم اپنے عوام کا خون چوس کر ان کی جیبیں بھرتے ہیں، اس لیے ظاہر ہے وہ ممالک ہی خوش حال ہوں گے نہ کہ ہم۔ لیکن یہ بات اتنی سادہ اور عام فہم نہیں ہے جتنی نظر آتی ہے۔ یہ ایک بہت سوچا سمجھا اور منظم منصوبہ ہے جو ہم جیسے ممالک کو اپنا دست نگر بنا کر رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے۔

اس منصوبے کے دو ہی اہم کردار ہیں۔ پہلی جمہوریت، دوسرا بدعنوان حکمران۔ یہ دو کردار جس ملک میں بھی نظر آئیں گے وہاں بدحالی اور غربت ایک ساتھ ننگے ناچ رہے ہوں گے۔ حالانکہ وہاں عالی شان گھروں کی بھی کمی نہیں ہوگی، قیمتی سے قیمتی گاڑیاں سڑکوں پر دوڑتی نظر آتی ہوں گی، لیکن حکومت دیوالیہ ہوگی۔ آج ہمارا دوست اور پڑوسی ملک چین سپر پاور کی کرسی پر بیٹھنے والا ہے، حالانکہ وہ ہم سے دو سال کے بعد آزاد ہوا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چینیوں نے ان ہی دو چیزوں سے مکمل پرہیز رکھا۔ ایک جمہوریت، دوسرے بدعنوان حکمران۔ چین میں کرپشن کرنے والوں کو آج بھی کمر میں گولی مار کر ہلاک کردیا جاتا ہے۔ جبکہ ہمارا یہ حال ہے کہ ہم ایک طرف تو جمہوریت پر فریفتہ ہیں دوسری طرف کرپٹ خاندانوں کو اپنے سر پر مسلط کیا ہوا ہے۔

ہم جیسے ممالک میں جمہوریت کے نام پر اپنے ایجنٹ بٹھا دیے جاتے ہیں، جو ان کے مفادات کا مکمل خیال رکھتے ہیں۔ اور اپنے ملک کو کسی بھی حد تک برباد کرنے کےلیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ اگر ان سے جان چھڑانے کی کوشش کی جائے تو جمہوریت خطرے میں آجانے کا بہانہ بناکر ہمارے ملک پر پابندیاں اور مداخلت شروع کردی جاتی ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارا ہر بدعنوان حکمران اور ان کے وزیر پناہ بھی ان ہی ممالک میں حاصل کرتے ہیں۔ انہیں وہاں آرام سے رہنے اور ان کی لوٹی ہوئی دولت کو مکمل تحفظ ملتا ہے۔ بظاہر تو مغربی ممالک میں کرپشن کے خلاف زیرو ٹالیرینس بتائی جاتی ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارا ہر بدعنوان حکمران اور ان کے وزرا مغرب اور خاص کر برطانیہ ہی کیوں جاتے ہیں؟ یہاں سے ہم آپ کو اس منصوبے کی جھلک دکھانے کی کوشش کرتے ہیں جو ہم جیسے ملکوں کو قابو کرنے اورانھیں برباد کرکے ان کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔

سب سے پہلے تو آپ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ پاکستان کی معیشت اس سے کہیں بڑی ہے جتنی کہ وہ کاغذوں پر نظر آتی ہے۔ ہمارا جی ڈی پی اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا کہ ریکارڈ پر نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی بہت سادہ سی وجہ ہے اور وہ ہے ہمارا ٹیکسز کا نظام۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے ملک میں انکم ٹیکس کی شرح 35 فیصد تک ہے۔ اب کون خوشدلی سے اپنی خون پسینے کی آمدنی کا کم و بیش آدھا حصہ ٹیکس کی مد میں دینے پر راضی ہوگا؟ ایک ایسے ملک میں جہاں اس ٹیکس کے بدلے میں اسے کچھ نہیں ملنا ہے۔ اس کا دیا ہوا تمام ٹیکس حکمرانوں کی عیاشیوں اور کرپشن کی نذر ہوجانا ہے۔

لیکن ہمارے ملک میں اب ٹیکسز کے خلاف اتنا شور نہیں اٹھتا، جتنا ماضی میں اٹھا کرتا تھا۔ اس کی وجہ ہم آپ کو بتاتے ہیں۔ بہت سادہ سی وجہ ہے۔ ہمارے ملک میں ایک ایسا نظام بن گیا ہے کہ ٹیکسز کا سارا بوجھ عوام پر منتقل کردیا جاتا ہے۔ اب جتنے ٹیکس لگائے جائیں گے وہ سارے کے سارے اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی شکل میں عوام کے سر پر ڈال دیے جائیں گے اور ان سے وصول کیے جائیں گے۔ ٹیکس چوروں کی چاندی بھی ہوجائے گی۔ پہلے ایک چیز پر ٹیکس چوری کرکے اگر دس روپے ملتے تھے تو اب بارہ روپے ملیں گے۔ آمدنی میں مزید اضافہ۔ کالے دھن میں اور ترقی۔

اب یہاں سے قرضہ دینے والوں کی بھی آمدنی میں اضافہ کس طرح ہوگا؟ وہ بھی آپ کو بتاتے ہیں۔ ایک طرف تو ہم جیسے ملکوں کو قرضہ دے کر ان سے سود کی مد میں آمدنی ہوتی ہے۔ دوسرے ہمارے کرپٹ حکمران کم و بیش آدھا قرضہ کرپشن کرکے واپس انہی ملکوں کے بینکوں میں جمع کرادیں گے۔ یعنی آدھا قرضہ تو ویسے ہی واپس ان کے بینکوں میں پہنچ جائے گا۔ دوسرے پوری رقم کا سود بھی ملتا رہے گا۔ اب یہاں سے کردار شروع ہوتا ہے فیٹف اور اس جیسے دوسرے اداروں کا۔

اب آپ سے کہا جائے گا کہ اپنے ملک میں پیپر اکانومی کو فروغ دیں۔ یہاں لوگ کرپشن اور ٹیکس چوری سے ہی تو کما رہے ہیں، ورنہ سارے ٹیکسز ادا کرکے اس ملک میں تو صرف خدمت خلق ہی کی جاسکتی ہے۔ یہاں بینکنگ قوانین اتنے سخت کردیے گئے ہیں کہ آپ کرپشن کا پیسہ اپنے ملک میں نہیں رکھ سکتے۔ اب کالا دھن رکھنے والے ادھر ادھر دیکھنا شروع کرتے ہیں کہ یہ دولت کہاں چھپائی جائے؟ تو انھیں نظر آتا ہے کہ ارے برطانیہ میں تو یہ دولت آف شور کمپنی بنا کر آرام سے رکھی جاسکتی ہے۔ لہٰذا ہمارا یہ کالا دھن بھی ان کے ملک میں پہنچ کر ان کی اکانومی کی مضبوطی میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کردیتا ہے۔

اکثر لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ برطانیہ کی معیشت کی مضبوطی میں ترقی پذیر ملکوں سے لوٹی گئی دولت کو ان کے ملک میں چھپانے کا بہت دخل ہے۔ ان کے قوانین اس دولت کو پورا تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اس سارے نظام میں نقصان صرف غریب کا ہوتا ہے۔ وہ کیسے؟ یہ بھی بتاتے ہیں۔

صنعتوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کو وہ پوری مراعات نہیں ملتیں جو ان کا حق ہوتا ہے، کیونکہ صنعت اتنی آمدنی ہی نہیں دکھاتی جس پر وہ اپنے ورکروں کو تمام مراعات دے سکے۔ نہ مزدوروں کو سوشل سیکیورٹی کی کوئی مراعات ملتی ہیں نہ اولڈ ایج کا کوئی بینیفٹ ملتا ہے۔ کیونکہ صنعت ان کو اپنا ملازم ہی نہیں ظاہر کرتی۔ اس کے ساتھ ساتھ صنعت کا مالک بھی ہر وقت ایک خوف اور احساس جرم کے ساتھ کام کرتا ہے، جس سے رویوں میں بھی تبدیلی پیدا ہورہی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بے حسی اور بے رحمی بڑھ رہی ہے۔ بے شمار صنعتوں کے مالکان ایسے ہیں کہ وہ چاہتے ہوئے بھی اپنے ورکروں کو تمام مراعات نہیں دے سکتے۔ کیونکہ وہ اگر تمام ٹیکسز ادا کرنے کے ساتھ تمام ملازمین کو ظاہر کریں تو صنعت چل ہی نہیں سکتی۔
غریب بیچارہ بھی مجبور ہوتا ہے کہ وہ بھی اپنا گزارا کرنے کےلیے چوریاں کرے۔ وہ بجلی چوری کرتا ہے، گیس چوری کرتا ہے اور جو کچھ اس کے بس میں ہو، وہ اپنا گزارا کرنے کےلیے کرتا ہے۔ کیونکہ مہنگائی کے تناسب سے اس کی آمدنی نہیں بڑھتی ہے۔

اس تمام صورت حال میں ایک ہی حل ہے کہ ہم اپنے ملک میں ٹیکسز کی شرح کو کم سے کم کریں تاکہ ہر کوئی خوشی سے ٹیکس دینے پر راضی ہو۔ جب تمام پیداوار ریکارڈ پر لائی جائے گی تو ٹیکس بھی ایمان داری سے ادا ہوگا۔ اس طرح حکومت کی ٹیکسز کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہوگا، غریبوں کو بھی ان کا جائز حق ملے گا، اور سرمایہ ملک سے فرار بھی نہیں ہوگا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جب حلال پیٹ میں جائے گا تو خود بخود اچھے اور برے کی سمجھ ہم میں پیدا ہوجائے گی۔ ملک میں رحم دلی اور خدا ترسی بڑھے گی۔ ورنہ تو یہ نظام یونہی چلتا رہے گا۔ ہمارا ملک غریب سے غریب ہوتا رہے گا اور برطانیہ مضبوط سے مضبوط ہوتا جائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شہاب احمد خان

شہاب احمد خان

بلاگر اسلامک بینکنگ اور فائنانس میں ماسٹرز کی سند رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔