قدم زمین پر ہی رکھیں

 اتوار 2 جنوری 2022
یہ سوشل میڈیا کا دور ہے، سب نے میڈیا سیل بنائے ہوئے ہیں کسی کو ہیرو یا زیرو بنانا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوتا۔ فوٹو: فائل

یہ سوشل میڈیا کا دور ہے، سب نے میڈیا سیل بنائے ہوئے ہیں کسی کو ہیرو یا زیرو بنانا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوتا۔ فوٹو: فائل

فون کی گھنٹی بجی تو لیپ ٹاپ پرکام کرتے ہوئے میں چونک گیا، اسکرین پر غفار ڈان لکھا ہوا نظر آیا، میں نے جان بوجھ کر ڈان کی اسپیلنگ ڈی او این لکھی ہے حالانکہ غفار تو بہت شریف انسان ہیں، کم ہی صحافی ان جیسے ہوں گے لیکن اس شرافت کا لوگ ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں، ایسے لوگوں کو ’’فار گرانٹیڈ‘‘ لیا جانے لگتا ہے جس سے وہ خود اپنی قدرکا اندازہ نہیں لگا پاتے۔

ایسے ہی میرے ایک اوردوست ہیں، ان کا بھی جب نام لیا جائے تو لوگ اچھا صحافی نہیں شریف آدمی کہتے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ ’’گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا‘‘ مگر بدقسمتی سے اب بیشترلوگوں نے ایسا ہی کر لیا ہے، خیر بات غفار کی ہورہی تھی وہ ایک اچھے سینئر صحافی ہیں، انھوں نے مجھ سے پاکستان کرکٹ کے حوالے سے بات کی،اس دوران ایک اہم معاملہ سامنے آیا کہ پی سی بی میں جا کر لوگ بدل کیوں جاتے ہیں؟

میں اکثر مذاق میں یہ کہتا ہوں کہ قذافی اسٹیڈیم کا پانی چیک کرانا چاہیے، وہاں لوگ خود کو نجانے کیا سمجھنے لگتے ہیں،برسوں سے کرکٹ کی صحافت کرتے ہوئے میں نے کئی لوگوں کا عروج و زوال دیکھا،زیادہ دور نہیں جاتا، وسیم خان کی مثال لے لیں،انگلینڈ میں انھیں کوئی نہیں پوچھتا تھا، کسی کاؤنٹی وغیرہ میں کام ضرور کیا تھا مگر اس دوران کیا کارکردگی رہی یہ دیکھنا ہو تو انٹرنیٹ پرتھوڑی سرچ کرنا پڑے گی،ہم پاکستانیوں کا یہ مسئلہ ہے کہ گوروں (نقلی بھی) سے بہت جلدی مرعوب ہو جاتے ہیں۔

یہ سوشل میڈیا کا دور ہے، سب نے میڈیا سیل بنائے ہوئے ہیں کسی کو ہیرو یا زیرو بنانا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوتا، وسیم خان کی جو تنخواہ تھی اسے اگر جمع کریں تو سالانہ کئی کروڑروپے ان کو ملتے تھے، دیگر سہولتیں الگ تھیں، آسٹریلیا میں کئی بار میں نے دیکھا کہ کوئی سابق وزیراعظم بھی میچ دیکھنے آتا تو کوئی خصوصی پروٹوکول نہیں دیا جاتا تھا، مگر پاکستان میں معمولی افسران کے بھی ایسے ٹھاٹ باٹ ہوتے ہیں کہ وہ خود کودوسری دنیا کی مخلوق سمجھنے لگتے ہیں۔

یہاں وسیم کی گاڑی کا دروازہ کھولنے 2آدمی بھاگ کر آتے تھے، چند ماہ بعد وہی وہ دبئی میں سیڑھیاں چڑھ کر عام انکلوژر میں بیٹھ کر میچزدیکھ رہے تھے،حالانکہ پہلے ان کی گاڑی رائل باکس کے سامنے رکتی تھی، اسی طرح احسان مانی کا بھی تھا،چیئرمین بن کر وہ اپنے قریبی دوستوں کو بھی بھول گئے اور رویے میں بہت زیادہ تبدیلی آ گئی،آج انھیں وہ اپنے پی سی بی والے دن تو یاد آتے ہوں گے۔

رپورٹرز ٹی وی کیمرے لیے ایک جملے کیلیے ترستے تھے اب کہیں چلے جائیں تو شاید ہی کوئی دوڑ کر ان کے پاس آئے، ان سے پہلے بھی جو چیئرمین یا دیگر آفیشلز آئے وہ بھی بیچارے یہ ٹھاٹ باٹ مس کرتے ہوں گے،مسئلہ یہ ہے کہ کوئی سبق دیکھنے کو تیار نہیں جسے عہدہ ملے وہ سمجھتا ہے کہ بس اب زندگی بھر میں یہیں رہوں گا،یہ کرسی بڑی بے وفا ہے اور کسی کی نہیں ہوتی، مگر یہ بات لوگ یاد نہیں رکھتے، وہ اپنے دوستوں سے دوری اختیار کر لیتے ہیں۔

پہلے ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ بھی اجنبیوں جیسا برتاؤ ہو جاتا ہے،سلام کا جواب بھی گردن ہلا کر دیا جانے لگتا ہے،کاش ایسے لوگوں کو کوئی پرانے حکام کی عہدوں کے وقت اور بعد کی ویڈیوز دکھائے تو شاید کچھ سبق حاصل ہو۔ ایسا ہی کرکٹرز کے ساتھ ہے وہ بھی کچھ بن جائیں تو سب کچھ بھول جاتے ہیں، جب کچھ نہ ہوں تو دوستی کا دم بھرا جاتا ہے، کوئی عہدہ مل جائے تو ایسے دور بھاگتے ہیں جیسے ان کے سینے میں کوئی قومی راز دفن ہو جو افشا ہوا تو مشکل میں پڑ جائیں گے۔

غالباً 1997 کی بات ہے،ان دنوں سیکیورٹی وغیرہ کے حوالے سے اتنی سختی نہیں ہوتی تھی، بھارتی کرکٹ ٹیم پاکستان آئی ہوئی تھی، میں اپنے ایک پاکستانی دوست کرکٹر کے کمرے میں بیٹھا تھا کہ اچانک ایک بھارتی کرکٹر وہاں داخل ہوا اور پاکستانی پلیئر سے کہنے لگا کہ ’’یار میرا باپ بھی ساتھ آیا ہوا ہے، ہر جگہ پیچھے پیچھے رہتا ہے، میں تیرے کمرے میں جانے کا بول کر آیا ہوں فون آئے تو سنبھال لینا‘‘۔

یہ واقعہ میرے دل میں بس گیا اس کے بعد بھی میں نے کئی ایسے کیسز دیکھے جب دولت اور شہرت ملنے کے بعد کھلاڑیوں نے اپنے ان قریبی عزیزوں کو بھلا دیا جن کی وجہ سے وہ اس مقام تک پہنچے،شاید ایسا ہرشعبے میں ہوتا ہو لیکن چونکہ میرا کرکٹ سے تعلق ہے تو اسی کی بات کر رہا ہوں، کل ایک کام سے بینک جانا ہوا تو گذشتہ برس جو صاحب کرسی پر بیٹھ کر رعونت سے لوگوں سے بات کر رہے تھے اب ریٹائرمنٹ کے بعد کرسی کی دوسری جانب بیٹھے اپنے کسی کام کے لیے نئے افسر کی منتیں کر رہے تھے، یہی دنیا ہے یہی زندگی ہے،البتہ میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جنھوں نے اپنے آپ کو بالکل تبدیل نہیں کیا۔

شاہد آفریدی اس کی سب سے روشن مثال ہیں، شاید اسی لیے وہ اب بھی لاکھوں دلوں پر راج کرتے ہیں، آج بھی ان کے گھر پر کوئی پرستار ملاقات کیلیے چلا جائے تو وہ اسے مایوس نہیں کرتے، موجودہ کرکٹرز میں سرفراز احمد، محمد رضوان،عابد علی وغیرہ بھی بہت سادہ طبعیت کے مالک انسان ہیں، ایسے لوگوں کو ہی زیادہ کامیابیاں ملتی ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے،عامر سہیل اپنی بدمزاجی کی وجہ سے مشہور تھے،آپ دیکھ لیں ان کو آج کوئی پوچھتا ہے کیا؟

دوسری جانب سعید انور کا ہر جگہ احترام سے نام لیا جاتا ہے، پی سی بی اس جانب توجہ نہیں دیتا مگر اسے کھلاڑیوں اور اپنے آفیشلز کیلیے بھی رویے کے کورسز کرانے چاہیئں، انا کے خول سے نکالنے کیلیے کچھ دن کچھ نارمل کام بھی کرائے جائیں، میں نے حال ہی میں صحافی عمران صدیقی کی سوشل میڈیا پر ایک وائرل ویڈیو دیکھی جس میں فخر زمان زمین پر بیٹھ کر گراؤنڈ اسٹاف کے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں، ایسا ہی رویہ ہونا چاہیے جس میں آپ ہر انسان کو انسان ہی سمجھیں، عہدے تو آتے جاتے رہتے ہیں، آپ کا رویہ اپنے پرستاروں، ماتحت اسٹاف اور دیگر لوگوں کے ساتھ اچھا ہونا چاہیے، قدم زمین پر نہ رہیں اور اونچی ہواؤں میں اڑتے رہیں تو اوپرسے نیچے گرنے پر بہت تکلیف ہوتی ہے، کاش لوگ یہ بات سمجھ جائیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔