پی ایس ایل 7کو کورونا فری رکھنے کیلئے غلطیوں سے سبق سیکھنے کی ضرورت

عباس رضا  اتوار 2 جنوری 2022
بی سی بی، فرنچائزز، کرکٹرز اور معاون عملہ کو احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ فوٹو : فائل

بی سی بی، فرنچائزز، کرکٹرز اور معاون عملہ کو احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ فوٹو : فائل

دنیا پر کورونا کے وار شروع ہوئے تو کھیلوں کی سرگرمیاں بھی معطل ہوئیں،بالآخر دیگر شعبوں کی طرح سپورٹس نے بھی وائرس کی موجودگی میں ایکشن بحال رکھنے کے طور طریقے سیکھے،کرکٹ میں پہلا تجربہ انگلینڈ نے کرتے ہوئے بائیو سیکیورٹی کا تصور متعارف کروایا۔

ویسٹ انڈیز اور پاکستان کی میزبانی کرتے ہوئے مقابلوں کا کامیابی سے انعقاد ہوا تو دیگر بورڈز کو بھی حوصلہ اور رہنمائی حاصل ہوئی،سلسلہ چل پڑا مگر اس دوران کبھی کرکٹرز یا متعلقہ افراد اور کبھی منتظمین کی غفلت کی وجہ سے کورونا کیسز بھی سامنے آئے،پاکستان ٹیم کے دوسرے دورہ انگلینڈ میں میزبان کرکٹرز کی رپورٹس مثبت آنے پر پورے ون ڈے اسکواڈ کو ہی قرنطینہ میں جانا پڑا۔

راتوں رات تیار کی جانے والی متبادل ٹیم نے نہ صرف کے میچز کھیلے بلکہ گرین شرٹس کو کلین سوئپ بھی کیا،پی ایس ایل کے گزشتہ دونوں ایڈیشن وائرس سے متاثر ہوئے، گزشتہ سال آئی پی ایل بھی ملتوی کرنا پڑے،دونوں بورڈز نے اپنی لیگز یواے ای میں مکمل کرنے کا مشکل فیصلہ کیا،خوش قسمتی سے وہاں کوئی خلل نہیں آیا،بھارت کو آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کی میزبانی میں بھی یواے ای میں کرنا پڑی،کراؤڈ کی آمد نے بھی اسٹیڈیمز کی رونقیں بحال کیں۔

نئی قسم اومی کرون سمیت مختلف ملکوں میں نئی لہر کی وجہ سے معاشرتی اور معاشی سرگرمیاں ایک بار پھر شدید متاثر ہورہی ہیں،اس کا اثر کھیلوں کی دنیا پر بھی پڑ رہا ہے،ایشز اور بگ بیش لیگ میں کئی کیسز سامنے آئے ہیں، صورتحال قابو میں رہنے کی امید پر منتظمین نے مقابلوں کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا مگر کسی ایونٹ پر کورونا کے وار ہونے کا خدشہ رد نہیں کیا جاسکتا،پاکستان میں ابھی کیسز کی تعداد زیادہ نہیں مگر خطرات بہرحال موجود ہیں۔

این سی او سی نے فی الحال تو 27جنوری سے شروع ہونے والی پی ایس ایل 7کروانے کے ساتھ 100فیصد شائقین کی سٹیڈیم آمد کی بھی اجازت دیدی ہے مگر اس سارے عمل میں بائیوسیکیورٹی کو یقینی بنانا انتہائی پیچیدہ عمل ہوگا، این سی او سی نے اس حوالے سے طریقہ کار بنانے کی ذمہ داری پی سی بی پر چھوڑ دی ہے،آن لائن اور کاؤنٹر سیل کی صورت میں بھی کورونا سرٹیفیکیٹ چیک کرنا، بعد ازاں اسٹیڈیم کے گیٹ پر بھی کلیئرنس کیلئے زیادہ افرادی قوت کی ضرورت ہوگی،غیر ضروری تاخیر سے دلبرداشتہ تماشائی میچز گھر بیٹھ کر دیکھنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔

گزشتہ سال بائیوسیکیورٹی کے انتظامات کی نگرانی ڈاکٹر سہیل سلیم کررہے تھے، کراچی میں 14میچز کے بعد لیگ تعطل کا شکار ہوئی تو ان کو قربانی کا بکرا بنادیا گیا حالانکہ غلط فیصلوں اور لاپرواہی میں کئی شریک تھے،یاد دہانی کیلئے گزشتہ ایڈیشن میں کی جانے والی غلطیوں کی نشاندہی ضروری ہے تاکہ اس بار ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے بہتر اقدامات اٹھائے جاسکیں،پی ایس ایل 6 کے دوران ایک یا دو نہیں کئی مثالیں سامنے آئیں۔

ایک ٹیم کے معاون سٹاف میں شامل ایک رکن کا کورونا ٹیسٹ ٹورنامنٹ کے افتتاحی روز ہی مثبت آیا، اس کو اگلے روز ہوٹل میں ہی آئسولیشن میں رکھا گیا مگر رابطے میں رہنے والے دیگر افراد کی ٹیسٹنگ اور ٹریسنگ نہیں کی گئی، صرف اس کو بائیو ببل چھوڑ کر لاہور جانے کیلئے کہا گیا، بعد ازاں علامات ظاہر ہونے پر فواد احمد کی شکایت کا فوری نوٹس نہیں لیا گیا۔

اسلام آباد یونائیٹڈ کے سکواڈ میں شامل آسٹریلوی سپنر نے پیٹ میں درد کا بتایا تو پی سی بی کے ڈاکٹر نے کہا کہ یہ کورونا کی علامت نہیں ہے،انہوں نے اگلی صبح تک فواد احمد کا معائنہ ہی نہیں کیا، 24گھنٹے سے زائد وقت گزرنے کے بعد رات کو 9بجے کورونا ٹیسٹ کیا گیا، چوتھے روز رپورٹ مثبت آنے کی تصدیق ہوئی، ان سے رابطے میں رہنے والوں کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی۔

عام طور پر ٹیسٹنگ اور ٹریسنگ کا عمل مکمل کرنے اور دیگر متاثرین کے سامنے آنے کیلئے 3روز کا وقت درکار ہوتا ہے تاکہ اگر کوئی شکار ہوچکا تو اس کی علامات سامنے آجائیں مگر میچ صرف ایک روز کیلئے ملتوی کر دیا گیا، جس روز فواد احمد کی شکایت کو نظر انداز کیا گیا اسی شام کو ہوٹل میں ملتان سلطانز کے بولنگ کوچ اظہر محمود کی سالگرہ منائی گئی جس میں اسپنر کیساتھ میچ کھیلنے والے حسن علی بھی شریک تھے۔

تقریب میں مختلف فرنچائزز کے کھلاڑی اور معاون سٹاف ارکان وائرس کے خطرے کی زد میں آئے، فواد احمد کے کیس کی تصدیق ہونے پر بھی حسن علی اور پارٹی میں شریک تمام افراد کو آئسولیٹ نہیں کیا گیا، بعد ازاں مزید 2 کیسز کی تصدیق ہوئی، یوں پارٹی میں شریک تمام افراد ہی مشکوک ہوگئے، بعد ازاں تعداد9تک پہنچی اور صورتحال سنگین ہوگئی، اس دوران ہوٹل میں جاری رہنے والی شادی کی تقریبات،مشترکہ کچن اور راستوں کے استعمال سمیت پرٹوکولز میں کئی نقائص بھی سامنے آئے۔

پہلا کیس سامنے آنے کے بعد میڈیکل پینل کی جانب سے حفاظتی تدابیر اور ٹریسسنگ کا عمل انتہائی کمزور اور فرنچائز کے ساتھ رابطے کا فقدان نظر آیا،فواد احمد میں علامات سامنے آنے پر ہی مقابلے چند روز کیلئے معطل کردیئے جاتے، تمام افراد کے ٹیسٹ کرنے کیساتھ قرنطینہ کی مدت پوری کرواکر دوسری بار بھی کیے جاتے تو اتنی تیزی سے کیسز میں اضافہ نہ ہوتا،چند روز کا تعطل ضرور ہوتا لیکن ایونٹ التوا سے بچ جاتا، غلطی کی کسی بھی تھی نقصان تمام سٹیک ہولڈرز کا ہوا۔

اس بار پوری پی ایس ایل پاکستان بہر صورت میں ہی مکمل کرنے کا پلان خوش آئند اور شائقین کرکٹ بھی پرجوش ہیں مگر قبل ازیں سامنے آنے والی بائیو سیکیورٹی کی ناکامیوں سے سبق سیکھتے ہوئے سخت ترین انتظامات کرنا ہوں گے،اگرچہ غیرملکی کمپنی کی خدمات حاصل کرنے اور پورا ہوٹل بک کرنے کی بات کی گئی ہے مگر کسی ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کیلئے پی سی بی اور فرنچائزز کی منیجمنٹ کیساتھ کرکٹرز کو بھی احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔