پارسائوں کے پیغامات

نصرت جاوید  جمعرات 13 فروری 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

پاکستان میں دیرپا امن کے قیام کو جو فریقین یقینی بنا سکتے ہیں انھوں نے اپنے اپنے نمایندگان نامزد کردیے ہیں۔ ان کے درمیان ابتدائی روابط بھی قائم ہوچکے ہیں۔ دونوں اطراف کے نمایندگان جب پہلی بار یکجا ہوئے تو وزیر اعظم کے خصوصی معاون جناب عرفان صدیقی صاحب نے بڑی خوش گوار حیرت کے ساتھ اس امر کا اعتراف کیا کہ مذاکرات کے دوران اکثر یہ احساس ہوتا ہے کہ سب مذاکرات کاروں کی سوچ سانجھی ہے۔ مختصراً مقاصد دونوں فریقین کے تقریباً ایک جیسے ہیں۔ منزل تک پہنچنے کے طریقہ کار میں جو تھوڑے بہت اختلافات نظر آرہے ہیں انشاء اللہ مزید ملاقاتوں میں دور ہوجائیں گے۔ بالآخر کوئی عظیم تر سمجھوتہ ہوکررہے گا۔ اس تک پہنچنے سے پہلے کچھ امور ہیں جو ریاستِ پاکستان کے منتخب وزیر اعظم کو مختلف النوع سرکاری اداروں کے ساتھ تفصیل سے بیٹھ کر طے کرنا ہوں گے۔ چند قیدیوں کی رہائی اور تاوان کی رقم کا تعین وہ مسائل ہیں جو تھوڑے پیچیدہ ہونے کی وجہ سے حل ہونے میں دیر لگا سکتے ہیں۔ مگر نیت صاف ہو اور ارادے اٹل توگھمبیر ترین سوالات کا جواب بھی دریافت کیا جاسکتا ہے۔

بنیادی بات جو میرے اور آپ جیسے عام پاکستانیوں کو پوری طرح سمجھ لینا چاہیے وہ یہ ہے کہ دیرپا امن کے لیے ہونے والے مذاکرات اپنے منطقی انجام تک پہنچنے میں کافی وقت لیں گے۔ اس دوران واشنگٹن، نئی دہلی، اور تل ابیب میں بیٹھے ہمارے دشمن اپنے ایجنٹوں کے ذریعے تخریب کاری کی وارداتیں کرتے رہیں گے۔ ہمیں ذہنی اور جذباتی طور پر انھیں برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا۔ ایک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں والی بردبار تحمل مزاجی کے ساتھ۔ خیر کی خبر سننے کی اس امید کے ساتھ میں مذاکراتی عمل کے بارے میں مزید کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔

فی الوقت میں اس کالم کے ذریعے بڑے کھلے دل اور ذہن کے ساتھ اس بات کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ خیر کی خبر آنے تک جو طویل وقفہ آیا ہے اسے اسلام آباد کی اولین جامع مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز صاحب کمال عقل مندی اور ہوشیاری کے ساتھ اپنا پیغام پھیلانے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد ہمارے کئی ماہرینِ ابلاغ نے غیر ملکی امداد کے ذریعےCommunication Strategyسکھانے کی دکانیں کھولیں۔ مجھے ابلاغ کے علم کو سیکھنے اور سمجھنے کا تقریباً جنون ہے ۔ مگر کمیونی کیشن کی باریکیاں سکھانے والی ورکشاپوں میں کبھی مدعو کیے جانے کا شرف حاصل نہ ہوسکا۔ ہوسکتا ہے ایسی ورکشاپس منعقد کرنے والوں کو میری عمر کا خیال آجاتا ہو اور یہ سمجھ کر کبھی زحمت نہ دی ہو کہ انگریزی محاورے کے بوڑھے گھوڑے کی طرح میں اب کوئی نیا Trickسیکھنے کے قابل نہیں رہا۔ انھوں نے چونکہ مجھے Empowerنہیں کیا اس لیے شام ہوتے ہی بے تابی کے ساتھ ریموٹ اٹھا لیتا ہوں اور اس کے بٹن دباتے ہوئے یہ ڈھونڈنا شروع کردیتا ہوں کہ مولانا عبدالعزیز صاحب کون سے Talk Showsمیں موجود ہیں۔ مسئلہ میرے ساتھ مگر یہ ہوجاتا ہے کہ گزشتہ تین چار دنوں سے وہ بیک وقت تین یار چار اسکرینوں پر دکھائی دیتے ہیں۔ مجھے یہ فیصلہ کرنے میں بہت دیر ہوجاتی ہے کہ کونسے چینل پر رک کر ریموٹ کو ہاتھ سے جدا کر دوں۔

مولانا صاحب کی جس بات نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ان کے ذہن کی Clarityہے۔ بہت سارے موضوعات پر میرا ذہن بھی بہت صاف ہوتا ہے۔ مگر اسے بیان کرتے ہوئے میں اکثر کنفیوژ ہوجاتا ہوں۔ مجھے اپنے غصے اور چہرے کے تاثرات پر مکمل کنٹرول بھی ہرگز میسر نہیں۔ مولانا عبدالعزیز کا کمال یہ ہے کہ ان کے ساتھ بیٹھا شخص کتنا ہی تلخ یا طنزیہ کیوں نہ ہوجائے وہ Coolرہ کر مسکراتے رہتے ہیں اور بڑے ٹھنڈے دل سے Talking Pointsکو دہراتے رہتے ہیں۔ علمِ ابلاغ کی زبان میں غالباً اس انداز کو Message Drummingکہا جاتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مولانا عبدالعزیز صاحب کا Messageکیا ہے۔ میرے جیسا کسی زمانے کا بھٹکا ہوا لیفٹ/لبرل وغیرہ بھی اب سمجھ چکا ہے کہ قائد اعظم نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر جو ملک ہمیں لے کر دیا وہاں اسلام کا حقیقی معنوں میں نفاذ ہونا تھا۔ عملی سیاست سے تعلق رکھنے والے علماء کرام یہ بات 1948سے ہمیں سمجھائے چلے جا رہے تھے۔ لوگوں کو پوری طرح سمجھ نہ آئی تو بالآخر ہمارے میڈیا میں موجود پارساؤں نے بڑی جانفشانی اور لگن کے ساتھ اپنے کالموں اور ٹی وی پروگراموں کے ذریعے یہی بات عام فہم زبان میں بھی پھیلائی۔ مجھے مقبول عام لکھاریوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نظر نہیں آیا جو ان کے پیغام کو جھٹلا سکے۔

بس قائد اعظم کی 11اگست والی تقریر دہرا دہرا کر گزارہ کرتے رہے۔ بہرحال جب یہ بات طے ہوگئی کہ پاکستان کا قیام اسلام کے حقیقی نفاذ کے لیے ہوا تھا تو سوال یہ اٹھا کہ مولانا مفتی محمود، مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا شاہ احمد نورانی اور پروفیسر غفور احمد جیسے اکابرین نے جس آئین پر ذوالفقار علی بھٹو اور ولی خان کے ساتھ مل کر دستخط کیے تھے وہ ’’غیر اسلامی‘‘ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس میں غیر اسلامی شقیں موجود ہوتیں تو جنرل مشرف کی 17ویں ترمیم منظور کرتے وقت قاضی حسین احمد مرحوم اور مولانا فضل الرحمن جیسے صالح افراد اس کی حمایت میں ووٹ نہ دیتے۔ مان لیتے ہیں کہ مشرف ایک فوجی آمر تھا۔ مگر 2008ء سے تو اس ملک میں ’’حقیقی جمہوریت‘‘ آچکی ہے۔ اس جمہوریت کی آمد کے بعد رضا ربانی کی قیادت میں ہماری سیاسی قیادت سرجوڑ کر بیٹھی۔ مولانا فضل الرحمن ان کے ساتھ بھی مہینوں بیٹھے رہے اور بالآخر 18ویں ترمیم آگئی۔ اب تو ہمارے آئین کے ’’اسلامی‘‘ ہونے میں کوئی مغالطہ باقی نہیں رہنا چاہیے۔ مولانا عبدالعزیز کا شکریہ کہ انھوں نے قوم کو بالآخر یہ سمجھا دیا ہے کہ ہمارے آئین نے محض اسلام کا ’’لبادہ اوڑھ‘‘ رکھا ہے۔ عام آدمی کو انصاف دلانے اور ملک میں جرائم کے خاتمے کے لیے آئین سے کہیں زیادہ اہمیت قوانین اورعدالتی نظام کی ہے اور سارے کے سارے برطانوی آقاؤں کے دیے ہوئے ہیں۔

قوانین اور عدالتی نظام کی بنیادی زبان بھی انگریزی ہے جسے صرف بھاری فیس لینے والے بیرسٹر حضرات ہی سمجھ سکتے ہیں۔ پاکستان میں جرائم کو ختم کرنا ہے تو فقہا کو اختیار دیجیے کہ وہ اپنے سامنے پیش ہونے والے مقدمات کا قرآن اور سنت کی روشنی میں فوری فیصلہ کریں۔ مولانا عبدالعزیز صاحب کی طرف سے بار بار دہرایا پیغام ہمارے عوام کی اکثریت کو فوراً سمجھ میں آتا ہے۔ اس پیغام کا اول تو کوئی Counter Narrativeموجود نہیں۔ اگر موجود بھی ہے تو کسی نہ کسی پنج ستاری ہوٹل میں منعقد کسی Communication Strategy Workshopسے باہر نہیں آیا۔ دریں اثناء کراچی میں سندھ فیسٹیول بھی ہورہا ہے اور ایک ادبی میلہ بھی۔ پتہ نہیں ان دونوں نے ہمارے عام آدمی کو کیا پیغامات دیے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔