بچوں کی نافرمانی کی وجہ توجہ کا حصول
پانچ سال کی عمر تک بچوں کو خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے
MARDAN:
بچے جب اس دنیا میں آنکھ کھولتے ہیں، تو وہ اپنی حسیات اور پھر پروان چڑھتے ہوئے شعور کے وسیلے اپنے ارد گرد کے ماحول کو جاننے اور پرکھنے کی جستجو میں غیرمعمولی توجہ اور رغبت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
پھرجوں جوں عمر بڑھتی رہتی ہے ان کی یہ غیر معمولی حساسیت بتدریج کم ہوتی جاتی ہے، لیکن اپنی کم سنی میں چوں کہ وہ جاننے اور آگہی کا سفر طے کر رہے ہوتے ہیں، اس لیے اپنے گردوپیش میں رونما ہونے والی ایک ایک چیز کو وہ پوری توجہ دیتے ہیں اور اس کے ذریعے اپنی معلومات کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے تئیں کچھ تصورات واضح کرتے ہیں، تو کچھ نتائج اخذ کرتے ہیں۔
اسی مزاج کے تحت وہ اپنی قریب ترین شخصیات یعنی اپنے والدین پر بھی خوب نظر رکھتے ہیں۔ کم عمری میں ان کی متاعِ زندگی حقیقی معنوں میں والدین سے ہی شروع ہوتی ہے اور ان کی دنیا کا بہت بڑا حجم لیے ہوئے ہوتی ہے۔ ان کا پیار، غصہ، رویہ، حکم اور نصیحت اس کے لیے نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ اپنی کسی خواہش کو چاہے وہ اپنے والدین کے حکم کے بغیر بھی انجام دے لیں، لیکن ان کا اپنی بات منوانے کے لیے اصرار اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ والدین کی رضامندی کے متمنی ہیں۔
وہ والدین کے لمس سے ان کی محبت اور بے اعتنائی کا اندازہ لگالیتے ہیں، لہٰذا اگر اپنی مصروفیات یا کسی اور وجہ سے والدین بچوں سے بے اعتنائی برتنے لگیں، تو نفسیاتی طور پر بچوں میں بے چینی پنپنے لگتی ہے، جو اولاً چڑ چڑے پن کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے، پھر حکم عدولی اور غصے کی شدید شکل بھی اختیار کر جاتی ہے، چوں کہ یہ سب ناسمجھی میں ہوتا ہے۔
لہٰذا وہ اپنی اپنی عقل کے مطابق رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق جب بچہ خود کو تنہا سمجھتا ہے تو غصہ کرتا ہے۔ کسی خاص حالات کی وجہ سے ہی بچوں میں غصہ راہ پاتا ہے اور وہ اپنے انتہائی ردعمل کے ذریعے بڑوں کی توجہ کے حصول کی کوشش کرتا ہے اور اکثر یہ افعال منفی ہی سامنے آتے ہیں۔ہمارا بچہ جب اسکول میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے تو یقیناً اسے حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے، اگر اسے سراہنے کے بہ جائے اس کا موازنہ اس سے بہتر بچوں سے کر کے اس کی حوصلہ شکنی کی جائے تو اس کم سن بچے کے لیے اس سے بڑا ظلم اور کوئی نہیں۔
یہ طرز عمل اس کے اندر جذباتی گھاؤ ہی نہیں لگاتا، بلکہ نفسیاتی طور پر بھی کاری ضرب کا باعث بنتا ہے۔ اسی طرح بعض جگہوں پر بچوں کی کام یابی پر والدین کو اس کا سہرا اپنے سر باندھنے کا خبط ہوتا ہے، ایسے میں بھی بچے کو یہ احساس ہوسکتا ہے کہ کام اس نے کیا ہے اور اسے تو کوئی حیثیت دی ہی نہیں جا رہی، بلکہ ان کی امی یا ابو اپنے ملنے جلنے والوں میں نمبر بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ امر بھی اس کی شخصیت میں عدم اطمینانی پیدا کر سکتا ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ بعض دقیانوسی اور فرسودہ روایات کے غلام گھرانوں میں بچے کو صرف اس وجہ سے بھی نظر انداز کیا جاتا ہے کہ اس کی پیدایش کے وقت گھر میں کوئی ناگہانی حادثہ یا نقصان ہو گیا ہوتا ہے، لہٰذا بچے کو اہمیت نہیں دی جاتی یا پھر جہاں والدین بیٹے کی خواہش رکھتے ہوں اور بیٹی کی ولادت ہوجائے، ایسے میں بھی اس بچی کے ساتھ نہایت غیر مناسب رویہ برتا جاتا ہے۔
بچوں کی شخصیت میں ٹھیراؤ اور اعتماد سازی کے لیے کم سے کم پانچ سال کی عمر تک اس سے کسی طور پر بے اعتنائی نہیں برتنی چاہیے، کیوں کہ کم سن بچے ناپختہ عقل کے باعث کچھ بھی اخذ کرکے بیٹھ جاتے ہیں، پھر اس موقعے پر ان کی قوت اظہار بھی خاصی کم زور ہوتی ہے۔ انہیں کچھ سمجھ نہیں آتا کہ وہ والدین کے اس رویے کی شکایت کے بارے میں کس طرح بتائیں۔
لہٰذا وہ بدمزاجی اور بد تمیزی کے مظاہرے کرتے ہوئے ضد سے بھر پور رویوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس لیے ہر بچہ اپنے والدین سے بھرپور توجہ چاہتا ہے، بالخصوص جب اس کا موقع ہو، وہ آپ سے جواب کی توقع کر رہا ہویا کچھ بتا رہا ہو، اسے بھرپور توجہ دے کر اسے اپنی اہمیت کا احساس دلائیں۔ یہ امر اس کی جذباتی اور نفسیاتی تسکین کا باعث ہوگا اور اس کا براہ راست اثر اس کی شخصیت اور رویوں پر بھی نظر آئے گا۔