دنیا اپنے مفادات کے تابع ہے

محمد مشتاق ایم اے  بدھ 5 جنوری 2022
حالات و واقعات کے پیش نظر ممالک کے باہمی تعلقات اور ترجیحات تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

حالات و واقعات کے پیش نظر ممالک کے باہمی تعلقات اور ترجیحات تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

ہم بچپن سے ہی مطالعہ پاکستان کی کتاب میں پڑھتے آئے تھے کہ ہمارے ملک پاکستان کے تمام مسلمان ممالک کے ساتھ اور بالخصوص سعودی عرب کے ساتھ دیرینہ اور برادرانہ تعلقات ہیں اور ان دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارے کے رشتے میں بندھے ہیں۔

اس دور میں ہم نے بھی مسلمان ممالک میں بسنے والے تمام افراد کو اپنے گھر کے افراد کی طرح ہی سمجھنا شروع کردیا تھا اور سوچتے تھے کہ وہ بھی ہمارے بارے میں ایسے ہی احساسات رکھتے ہوں گے اور ہماری انگلی میں کانٹا چبھنے کی صورت میں وہ ہم سے ہزاروں میل دور بیٹھ کر بھی بے چین ہوجاتے ہوں گے۔ وہ ہمارا بچپن تھا اور بچپن میں بچے واقعی غیر سیاسی ہوتے ہیں۔

پھر ہماری زندگی میں عمر کا وہ دور بھی آگیا جب ہمیں یہ سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی کہ برادرانہ اور دیرینہ وغیرہ محض ایسے الفاظ ہیں جن کی مدد سے صرف کتابوں کے صفحات کا پیٹ بھرا جاتا ہے اور حقیقیت کچھ اور ہوتی ہے۔ پھر اتفاق سے جب سعودی عرب جاکر رہنے اور کام کرنے کا موقع ملا تو بہت سارے خیالی مغالطے آناً فاناً رفو چکر ہوگئے اور ہم کھلے دل اور حقیقت کی آنکھ سے دنیا کو دیکھنے کے قابل ہوگئے۔ سو باتوں کی ایک بات جو ہم نے پلے باندھ لی وہ یہ کہ ساری دنیا اپنے مفادات کے تابع ہے، نہ کسی کا کوئی مستقل دوست ہے اور نہ بھائی۔ بلکہ حالات و واقعات کے پیش نظر ان دونوں رشتوں میں تبدیلی کسی وقت بھی ممکن ہے اور اس بات پر ہماری بالغ زندگی کے شب و روز نے مہر تصدیق ثبت کردی۔

آج سے محض ایک دہائی قبل سعودی عرب کا نام ذہن میں آتے ہی اسلامی تعلیمات سے بھرپور اور بدعات سے پاک ملک کا خاکہ ابھر آتا تھا۔ لوگوں سے بھی سنا تھا اور پھر بعد میں اللہ نے خود بھی مشاہدہ کرنے کی توفیق بخشی کہ وہاں اذان ہوتے ہی مارکیٹیں بند ہوجاتی تھیں اور دکانوں میں موجود گاہکوں تک کو یہ کہہ کر نکال دیا جاتا تھا کہ نماز کے بعد آئیں۔ اذان کے ساتھ ہی گلیوں، محلوں اور سڑکوں پر محکمہ ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ کی سائرن بجاتی گاڑیاں ’’صلوٰۃ صلوٰۃ‘‘ کی صدائیں بلند کرتی دوڑتی پھرتی تھیں اور نماز کی طرف نہ جانے والوں کو پکڑ کر اپنے اداروں میں لے جاتی تھیں اور پھر کچھ نمازیں پڑھا کر چھوڑ دیتی تھیں۔

ملک میں مخلوط نظام تعلیم کا نام و نشان تک نہ تھا۔ خواتین کو ڈرائیونگ کرنے، مخلوط محفلوں میں شرکت اور بغیر محرم کے سفر کی اجازت تک نہ تھی۔ ملک میں سینما ہاؤسز کا وجود نہ تھا۔ مجسموں اور تصاویر کو اچھا نہ سمجھا جاتا تھا، البتہ وہاں کے حکمرانوں کی قد آدم تصاویر جابجا نظر آتی تھیں۔ ایک پاکستانی پہلی بار جب وہاں پہنچا تو یہ تصاویر دیکھ کر سمجھا کہ شاید یہ کوئی سینما ہاؤس ہے۔ عورتوں کو مارکیٹ جانے کےلیے بھی مکمل پردے کا انتظام کرکے جانا پڑتا تھا۔ الغرض اس وقت کے سعودی عرب کو مکمل طور پر ایک قدامت پسند ملک قرار دیا جاسکتا تھا۔ البتہ تیل کی پیداوار کی بدولت اس کی معیشت مضبوط تھی اور دنیا کے کئی ممالک سے لوگ وہاں روزگار کےلیے جاتے تھے۔ ملازمین کی تنخواہ پر کوئی ٹیکس نہیں تھا، جس سے ہر فرد کو اپنی تنخواہ میں سے بچت کرنا آسان تھا۔

یہ حالات و واقعات اس وقت تک رہے جب تک پرانے بادشاہوں کے ہاتھ میں حکومت تھی، جس کے آخری فرمانروا موجودہ بادشاہ سلیمان بن عبدالعزیز ہیں مگر اپنے بڑھاپے کی بدولت ان سے مملکت کے امور کی مکمل انجام دہی اب ممکن نہ رہی اور عملی طور پر ساری ذمے داری ان کے ولی عہد محمد بن سلیمان کے کندھوں پر ہے۔

محمد بن سلیمان (ایم بی بی ایس) ایک جوان خون ہیں۔ انہوں نے ولی عہد کی ذمے داریاں سنبھالتے ہی ملک کی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں کا رخ بدلنے کا آغاز کردیا تھا اور ان کے موجودہ اقدامات سے بظاہر نظر یہی آتا ہے کہ وہ قدامت پسند سعودی عرب کے مقابلے میں ایک مختلف ذہن کے مالک ہیں۔ عام طور پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کو مضبوط کرنے میں امریکا بہادر کی بھی آشیرباد انہیں حاصل ہے اور اب پہلے کی نسبت جدت پسند فیصلے دیدہ دلیری سے کرتے جارہے ہیں، جن کے بارے میں محض کچھ عرصہ پہلے تک وہاں سوچنا بھی گناہ تھا۔ اب وہاں قدامت پسندی والے اقدامات ایک ایک کرکے ختم کیے جارہے ہیں۔

اس حوالے سے وژن 2030 کے تحت ملک کو جدیدیت کے ماڈل میں ڈھالا جارہا ہے۔ انسانی تفریح کے سامان مہیا کرنے کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ سینما ہاؤسز بحال کردیے گئے ہیں۔ خواتین مردوں کے شانہ بشانہ ملکی ترقی میں اپنا حصہ بڑھاتی جارہی ہیں۔ میوزک کنسرٹ منعقد کیے جارہے ہیں۔ کھیل کے میدانوں میں عورتوں کو جانے کی اجازت مل چکی ہے۔ عورتیں گاڑیاں دوڑاتی پھر رہی ہیں۔ ملک کو سیاحتی حوالے سے بھی تبدیل کیا جارہا ہے۔ جدہ میں بھی ایک جدید شہر بسایا جارہا ہے۔ نیو ایئر نائٹ پر بھی میوزک کنسرٹ کا اہتمام کیا گیا۔ پچھلے دنوں بھارتی اداکاروں نے بھی وہاں اپنے جلوے دکھائے اور لوگوں کو ہجوم امڈ آیا۔

اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بھی نئی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی سے ملکی معیشت کی کمزوری کو اب نہ صرف موجودہ وسائل سے پورا کرنے کےلیے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں بلکہ دنیا بھر میں موجود ترقی کے ماڈلز کو دیکھ کر ملکی ترقی کےلیے نئے وسائل بھی تلاش کیے جارہے ہیں۔ بہت سارے شعبہ جات میں ٹیکس نافذ کردیے گئے ہیں اور اب تنخواہیں بھی ٹیکس فری نہیں رہی ہیں۔ عورتوں کو پبلک سیکٹرز کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی خوش آمدید کہا جارہا ہے۔ الغرض اب دنیا سعودی عرب کا ایک نیا رخ دیکھ رہی ہے اور اس میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سعودی عوام کی اکثریت کی طرف سے موجودہ حکومت کے ان سارے اقدامات کے خلاف احتجاج کے بجائے ان کو خوش آمدید کہا جارہا ہے، کیونکہ وہ بھی اب ایک ماڈرن دنیا کا حصہ بننے کےلیے پر تول چکے ہیں۔

یہ ایک الگ بحث ہے قدیم یا جدید سعودی عرب میں سے کون بہتر ہے اور موجودہ حکومت کے کئی اقدامات بظاہر اسلامی تعلیم کے منافی نظر آتے ہیں یا ان کو اسلام میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ ہم اپنی بات اس فقرے پر ختم کرتے ہیں کہ ’’جو پیا من بھائے وہی سہاگن‘‘۔ دوسری بات کہ کوئی ملک کسی کا بھائی یا دوست ہمیشہ کےلیے نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک اپنے مفادات کے تابع ہوتا ہے اور یہی سچ ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد مشتاق ایم اے

محمد مشتاق ایم اے

بلاگر ایک کالم نگار، سیاسی، سماجی اور کاروباری تجزیہ کار ہیں۔ سیاست، مذہب، تعلیم اور دوسرے سماجی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ان ہی پر زیادہ لکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر آئی ڈی @MMushtaq28 پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔