بھنگ…دوا یا وباء

رانا نسیم  اتوار 9 جنوری 2022
ہزاروں سال سے انسان کے زیر استعمال رہنے والے پودے سے غیر معمولی طبی اور معاشی فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔ فوٹو : فائل

ہزاروں سال سے انسان کے زیر استعمال رہنے والے پودے سے غیر معمولی طبی اور معاشی فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔ فوٹو : فائل

مالی و طبی فوائد کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے یکم ستمبر 2020ء کو سرکار کی نگرانی میں بھنگ کی کاشت کی محدود اجازت دی تو رواں برس اگست 2021ء میں راولپنڈی میں جی ٹی روڈ سے ہٹ کر واقع زرعی تحقیقاتی مرکز (روات) میں ایک ایکڑ زمین پر گرین ہاؤس بنایا گیا، جس میں بھنگ کے چھوٹے بڑے پودے قطاروں کی شکل میں ترتیب سے گملوں میں لگائے گئے۔

ان پودوں کو ڈرپ اریگیشن کے ذریعے پانی دیا گیا جبکہ گرین ہاؤس میں بڑے ایگزاسٹ فین لگا کر وہاں ہوا کے بہاؤ کا انتظام کیا گیا۔ یہ فصل3 ماہ کی مختصر مدت میں تیار ہوئی اور گزشتہ دنوں 23 دسمبر 2021ء کو وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز نے اس فصل کی کٹائی کا افتتاح کیا۔

بھنگ ایک ایسا پودا ہے، جو اکثر اوقات خودرو بھی ہوتا ہے، لیکن اس کے پتوں، پھولوں اور تنے میں موجود سینکڑوں کیمیائی اجزاء کے بارے میں دنیا تاحال مکمل طور پر واضح نہیں کہ اس کے فوائد زیادہ ہیں یا نقصانات، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ کڑی نگرانی میں سائنسی بنیادوں پر اس کی کاشت انسانیت کی خدمت کر سکتی ہے۔

بھنگ کا پودا آدھے میٹر سے ایک میٹر تک لمبا ہوتا ہے، اس کی شاخیں باریک ہوتی ہیں، جن پر چار پانچ پتے لگتے ہیں۔ یہ پتے گہرے سبز اور کھردرے سے ہوتے ہیں۔ بھنگ کا پھول سفید رنگ کا ہوتا ہے اور بیج ہلکا گول اور چھوٹا ہوتا ہے۔ بھنگ کے پودوں کے پھول دار شاخوں کو جن کے پتوں پر رال دار دودھ لگا رہتا ہے، اس کو گانجا کہتے ہیں اور بھنگ کے پتوں پر جو لیس دار رطوبت لگی رہتی ہے، اسے چرس بولتے ہیں۔ یہ رطوبت بھنگ کو جوش دے کر حاصل کی جاتی ہے۔

بھنگ آج کی بات نہیں بلکہ اس کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ دنیا کی مختلف ثقافتوں میں ہزاروں سال قبل بھی بھنگ کے استعمال کے شواہد ملتے ہیں۔ یہ پودا چین میں 2800 قبل مسیح سے پہلے استعمال کیا جاتا تھا اور ہندوستان میں 1000 قبل مسیح اسے دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اورکھانے پینے میں بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ اسی طرح تاریخ مصر میں بھی بھنگ کا استعمال ملتا ہے۔

بھنگ کے ابتدائی شواہد مغربی چین کے پامیر پہاڑوں میں واقع جرزانکل قبرستان کے25سو سال پرانے مقبروں میں پائے گئے ہیں، جہاں بھنگ کی باقیات جلائے جانے والے کنکروں کے ساتھ پائی گئی تھیں، جو ممکنہ طور پر آخری رسومات کے دوران استعمال کی جاتی تھی، یہ شواہد 2013 ء میں ہونے والی ایک کھدائی کے دوران ملے۔ مئی 2020 میں اسرائیل کے ایک 2700 سال پرانے معبد کے آثار سے کچھ ایسے کیمیائی اجزا ملے تھے، جن کا سائنسی تجزیہ کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ بھنگ کے اجزا ہیں۔

بھنگ کو 1530ء سے 1545ء کے درمیان ہسپانویوں نے جدید دنیا میں متعارف کرایا۔ 1836ء سے 1840 کے دوران شمالی افریقہ اور مشرقی وسطی میں ایک تحقیق کے بعد فرانسیسی ماہر طب جیک جوزف موریو نے بھنگ کے استعمال کے نفسیاتی اثرات پر لکھا۔ 1842ء میں ایک آئرش معالج ولیم بروک او شاگنیسی، جس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ بنگال میں بطور میڈیکل آفیسر کام کرتے ہوئے اس دوا کا مطالعہ کیا تھا، ایک خاص مقدار میں بھنگ لے کر واپس برطانیہ لوٹے تو مغرب میں بھنگ کے حوالے سے نئے سرے سے دلچسپی پیدا ہوئی۔

19ویں صدی کے آغاز میں مختلف ممالک میں بھنگ کو غیرقانونی قرار دیا گیا تھا۔ ماریشس کی نوآبادیاتی حکومت نے 1840 میں بھنگ پر پابندی عائد کر دی تھی کیونکہ اس کے ہندوستانی ورکرز پر بداثرات کے خدشات تھے، امریکامیں بھنگ کی فروخت پر پہلی پابندی 1906ء میں لگی۔

کینیڈا نے افیون اور نارکوٹک ڈرگ ایکٹ 1923ء میں بھنگ کو جرم قرار دیا، 1925ء میں، ہیگ میں ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں ایک سمجھوتہ پر دستخط کئے گئے، جس کی رو سے ان ممالک کو ’’ہندوستانی بھنگ‘‘ کی برآمد پر پابندی عائد کی گئی تھی جنہوں نے اس کے استعمال پر پابندی عائد کی تھی، اور درآمد کرنے والے ممالک سے درآمد کی منظوری کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

1937ء میں امریکا نے ماریوانا ٹیکس ایکٹ منظور کیا اور بھنگ کے استعمال کے ساتھ اس کی پیداوار پر بھی پابندی لگا دی لیکن آج امریکا کی 36 ریاستوں میں طبی بنیادوں پر بھنگ کی کاشت کی اجازت ہے۔2018ء میں کینیڈا نے تفریحی اور دواؤں کے مقاصد کے لیے اس کے استعمال کو قانونی حیثیت دے دی۔ اب برطانیہ، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، فن لینڈ، جرمنی، اٹلی، نیدرلینڈز، نیوزی لینڈ، پولینڈ، پرتگال، سری لنکا، تھائی لینڈ، جنوبی کوریا اور کولمبیا سمیت درجنوں ممالک میں تفریحی اور طبی مقاصد کے لئے بھنگ کی فصل کاشت کرنے کی اجازت ہے۔

عمومی طور پر برصغیر پاک و ہند میں بھنگ/ ملنگی بوٹی (بھنگ کا مقامی نام) کا تصور صرف ایک نشہ یا تفریح ہے کیوں کہ چرس اور حشیش جیسے نشے بھی اسی پودے سے حاصل ہوتے ہیں، اس کے جسم اور نتیجتاً خاندانوں پر مرتب ہونے والے بداثرات سے کون واقف نہیں… لیکن ماہرین کے مطابق بھنگ اس سے بہت بڑھ کر ایک قیمتی نقد آور فصل ہے، جس کے کیمیائی اجزاء سے دکھی انسانیت کی دادرسی کی جا سکتی ہے۔ اور انہی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے 2020 ء میں تھائی لینڈ حکومت نے ملک کا پہلا سرکاری میڈیکل کینابس کلینک قائم کر دیا، جہاں فی الوقت مریضوں کو مفت علاج فراہم کیا جا رہا ہے۔

امریکا کی ورجینیا کامن ویلتھ یونیورسٹی کی طرف سے طبی جریدے سائنس آف فارماکولوجی اینڈ ایکسپیریمنٹل تھیراپیوٹکس میں ایک تحقیق شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ بھنگ یا چرس کے استعمال سے مرگی اور بعض دیگر اعصابی بیماریوں سے بچاؤ میں مدد ملتی ہے۔

امریکا کے نیشنل آئی انسٹیٹیوٹ کے مطابق یہ حقیقت قریب 10 برس قبل معلوم ہو گئی تھی کہ بھنگ یا چرس کا استعمال آنکھوں کی بیماری گلوکوما یا سبز موتیے سے بچاؤ میں معاون ثابت ہوتا ہے، گلوکوما مستقل نابینا پن کا سبب بن سکتا ہے۔ دی جرنل آف الزائمر ڈیزیز میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق بھنگ/چرس دماغی سرگرمی میں تیز رفتار تنزلی کو روکتی ہے۔ اس کا استعمال الزائمر کے خطرات میں بھی کمی لاتا ہے تاہم یہ اس صورت میں ہے، جب اس کا استعمال بطور دوا کیا جائے نہ کہ بطور نشہ۔ امریکا کی کینسر سے متعلق ویب سائٹ کینسر ڈاٹ آرگ پر 2015ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق چرس یا بھنگ نے کینسر کے خطرات میں کمی لانے اور اس کے بچاؤ میں اہم کردار ادا کیا۔ یو ایس ایجنسی فار ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے مطابق بھنگ/چرس کینسر کے مریضوں کی ایک مختلف طرح سے مدد کرتی ہے۔ کینسر کے مریضوں کو اکثر علاج کے لیے کیموتھیراپی کرانا پڑتی ہے اور بھنگ/چرس اس کے مضر اثرات میں کمی لانے میں مددگار ہوتی ہے۔

برطانیہ کی نوٹنگھم یونیورسٹی کے محققین کا خیال ہے کہ چرس یا بھنگ دماغ کو صحت مند رکھتی ہے، جس کی وجہ سے فالج کے خطرات کم ہو جاتے ہیں۔ ذیابیطس کی شدت کی صورت میں مریض کو اپنے اعضاء اور جسم کے دیگر حصوں میں شدید درد محسوس ہوتا ہے۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی کے محققین کے مطابق بھنگ/چرس اس تکلیف میں کمی کا سبب بن سکتی ہے۔ بھنگ/ چرس ہیپاٹائٹس سی کے سائیڈ ایفکٹس میں بھی کمی کا باعث بنتی ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق بھنگ کے محدود استعمال سے اس مضر بیماری کے سائیڈ ایفیکٹس میں آٹھ فیصد تک کمی دیکھی گئی ہے۔ بھنگ کے تیل میں پائے جانے والے پروٹینز کی وجہ سے اسے کھانوں میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان استعمالات کے علاوہ بھنگ کا تیل ہیئر کنڈیشنر اور کاسمیٹکس یعنی لوشن اور صابن وغیرہ میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، جس سے بالوں اور جلد پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

نقد آور فصل کے طبی فوائد کے ساتھ اگر عالمی معیشت پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا جائے تو ایک اندازے کے مطابق آج دنیا بھر میں بھنگ کی کاشت کے کاروبار کا حجم 25 ارب ڈالر سے زیادہ ہے، جو تحقیق کا دائرہ کار بڑھنے سے دوگنا ہو سکتا ہے۔ امریکا ہر سال 30 ملین پاؤنڈ بھنگ پیدا کرتا ہے، جو لاکھوں ایکڑ پر کاشت کی جاتی ہے، اسی طرح کینیڈا میں ایک لاکھ جبکہ چین میں 40 ہزار سے زائد ایکڑ پر بھنگ کی فصل اگائی جا رہی ہے۔ آسٹریلیا میں دنیا کے سب سے بڑے بھنگ فارم کی تعمیر جاری ہے، اس فارم سے سالانہ 5 سو ٹن بھنگ حاصل ہو گی، جس کی برآمدی قیمت ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ 2016ء تک برطانیہ قانونی طور پر سب سے زیادہ بھنگ پیدا کرنے والا ملک تھا۔ کینیڈا نے 275کاروباری اداروں کو بھنگ کی کاشت کا لائسنس دیا ہے، جو لاکھوں ایکڑ پر اس فصل کو اگا رہے ہیں تاکہ ملکی معیشت کو مضبوط بنایا جا سکے۔

اس ضمن میں اگر پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں ابتدائی طور پر ایک ایکڑ زمین پر بھنگ کی فصل کاشت کی گئی اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک ایکڑ زمین پر کاشت کیے گئے بھنگ کے پودوں سے 10 لیٹر تیل حاصل ہوتا ہے جس کی عالمی منڈی میں فی لیٹر قیمت 10 ہزار امریکی ڈالر ہے۔

پاکستانی زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی آب و ہوا اور زمین بھنگ کی پیداوار کے لیے نہایت موزوں ہے اور امید ہے کہ کاشت کی صورت میں اس کی اچھی فصل ہو گی۔ اور اسی بنیاد پر حکومت کا کہنا ہے کہ بھنگ کی کاشت اور فروخت سے اگلے تین سال میں پاکستان ایک ارب ڈالر کا زرمبادلہ کما سکتا ہے۔ فی الحال حکومتی نگرانی میں اس فصل کی محدود کاشت کی جا رہی ہے، جس میں بھنگ کی وہ قسم استعمال کی گئی ہے، جس میں نشے کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہے۔

بھنگ کی کاشت کے حوالے سے حکومت پرعزم دکھائی دیتی ہے تو دوسری طرف ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ وقتوں میں مزید تحقیق کے بعد عام کسان کو بھی بھنگ کی فصل کی کاشت کی اجازت دی جا سکتی ہے لیکن یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ اور آئندہ آنے والی حکومتیں بھنگ کے فوائد کو سمیٹتے ہوئے قوم کو اس کے نقصانات سے بچا پائیں گی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔