چین میں پھلتی پھولتی اردو زبان

محمد کریم احمد  اتوار 9 جنوری 2022
پاکستان میں لوگ اُردو میں انگریزی کا بہت استعمال کرتے ہیں، چین میں آپ کو خالص اُردو ملے گی ۔ فوٹو : فائل

پاکستان میں لوگ اُردو میں انگریزی کا بہت استعمال کرتے ہیں، چین میں آپ کو خالص اُردو ملے گی ۔ فوٹو : فائل

 ’ ڈاکٹر چانگ جیا می ‘ جن کا پاکستانی یا اُردو میں نام ’ طاہرہ ‘ ہے ڈیپارٹمینٹ آف ساؤ تھ ایشین سٹڈیز، سکول آف فارن لینگوئجز ، پیکنگ یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں۔

اس کے ساتھ وہ اردو ٹیچنگ اینڈ ریسرچ سیکشن کی ۔ڈائریکٹر کی ذمہ داریاں بھی نبھا رہی ہیں۔ 2004 سے 2018 کے دوران انہوں نے مختلف ادبی کانفرنسوں میں شرکت اور کلچرل ایکسچینج پروگرامز کے تحت کئی مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا۔ 2019میں وہ وزٹنگ اسکالر، سنٹر فار ریلجس سٹڈیز ،پرنسٹن یونیورسٹی ، امریکہ کے ساتھ منسلک رہیں۔

ا ن کے کئی تحقیق آرٹیکلز ساؤ تھ ایشین سٹڈیز، اورینٹل سٹڈیز، ایریا سٹڈیز جرنل آف پیکنگ یونیورسٹی، لٹریچر اینڈ ہسٹری آف ویسٹرن ریجن میں شائع ہو چکے ہیں۔ انہوں نے ٹریک آن الیگزینڈرز اور پاکستان کی منتخب نظموں کا ترجمہ کیا ہے جو شائع ہو چکی ہیں۔ وہ کتاب ’ گندھارا کی مسکراہٹ‘ ، اے ٹور آف پاکستان مانومنٹ‘ کی چیف ایڈیٹر اور ایک دوسری کتاب ’ شی جن پھنگ دی گورننس آف چائنہ ‘ کے اردو ترجمہ کے لیے قائم ریویو گروپ کی ممبر بھی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے چین میں اور چین سے باہر کئی تحقیقی پروجیکٹس میں حصہ لیا ہے۔

انٹرویو ڈاکٹر طاہرہ ، سر براہ شعبہ اردو ، پیکنگ یونیورسٹی، بیجنگ ، چین

سوال: آپ کی اردو زبان سے آشنائی کب ہوئی ؟

جواب: اردو سے میرا تعلق یا تعارف 1997 میں ہوا جب میں اردو زبان سیکھنے کے لیے پیکنگ یونیورسٹی میں داخل ہوئی۔ اور اس وقت سے لیکر ا ب تک یہ تعلق قائم اور پھل پُھول رہا ہے۔

سوال: اردو زبان سیکھنے کا شوق یا خواہش کب پیدا ہوئی ؟

چین میں ہم پرائمر ی سکول سے انگریزی زبان سیکھتے ہیں، اور اس کے ساتھ کوئی ایک غیر ملکی زبان بھی سیکھنی ہوتی ہے۔ تو اس وقت مجھے غیر ملکی زبان میں دلچسپی پیدا ہوئی ۔ مجھے پانچ یا چھ زبانوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ ان میںجاپانی، منگولین، ویت نامی ، کورین ،عربی اور اردو شامل تھیں۔ تو میں نے اردو کا انتخاب کیا کیونکہ یہ ہمارے ایک اچھے دوست اور پڑوسی ملک کی زبان تھی۔ باقی زبانیں منگولیا، جاپانی ، کورین ، ویت نامی ہمارے ریجن کی تھیں اور کسی نہ کسی حد تک چینی زبان سے مماثلت رکھتی تھیں۔ تو میں نے سوچا کہ مختلف زبان ہونی چاہیے ۔ تو اس لیے میں نے اردو کا انتخاب کیا۔

سوال: چین میں رہتے ہوئے اردو زبان کیسے سیکھی ؟

میں چونکہ پیکنگ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی طالبہ تھی، تو زیادہ زبان تو اپنے شعبہ سے ہی سیکھی۔ اُس وقت زیادہ تر فلمیں بھی پاکستان سے آتی تھیں۔ میرا نام ہے محبت اور آوارہ وغیرہ یہ فلمیں پاکستان کی تھیں جن کی چین میں نمائش ہوئی۔ تو ان سے اردو سیکھنے میں مدد ملی۔ اُس وقت پاکستان ا ور چین کے درمیان تسلسل کے ساتھ وفود وغیرہ آتے جاتے تھے ۔ تو اس طرح آہستہ آہستہ اردو زبان سیکھتے رہے۔ اس وقت پاکستان سے محبت بھی اردو زبان سیکھنے کی وجہ بنی۔

سوال: اردو زبان سیکھنے کے دوران ابتدائی مراحل میں کس قسم کی مشکلات پیش آئیں؟

مشکلات تو بہت تھیں۔ سب سے پہلے تو انیس سو ستانوے میں انٹرنیٹ اتنا تیز اور آسانی سے دستیاب نہیں تھا۔ اردو زبان میں لکھے گئے مواد کی دستیابی آسان نہیں تھی۔ صرف نصابی کتب پڑھتے تھے۔ اردو اخبار بہت کم ملتے تھے۔ گرامر کے لحاظ سے بھی چینی زبان اور اردو زبان میں فرق ہوتا ہے۔ شروع میں اردو زبان سیکھنے کے لیے بہت محنت کی۔ بیجنگ میں پاکستانی سفارت خانے جایا کرتے تھے اور وہاں تعینات عملے اور افراد سے اردو میں بات چیت کیا کرتے تھے۔ انٹرنیٹ کی دستیابی سے اردو سیکھنے میں بہت مدد ملی۔ اب انٹرنیٹ پر اردو اخبارات، فلمیں اور کتابیں دستیاب ہیں جس کے باعث بہت آسانی ہو گئی ہے۔

سوال: چین میں آپ کے اردو کے اساتذہ کون تھے؟

چین میں میرے اردو کے اساتذہ میں پروفیسر تھانگ مونگ شون، پروفیسر لیو شو شو، پروفیسر محترمہ ہونگ چو این تھے۔ان کو پاکستان میں کئی اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ پروفیسر تھانگ مونگ شن، شاہرا ہ قراقرم کی تعمیر میں شریک رہے ہیں اور پاکستان کے بارے میں بہت معلومات رکھتے ہیں۔

سوالؒ: آپ کے اساتذہ نے اردو زبان کہاں سے سیکھی؟

میرے اساتذہ نے اردو زبان پیکنگ یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے سیکھی بعد میں وہ پاکستان سے بھی اردو سیکھ کر اور پڑھ کر آئے۔

سوال: آپ نے کتنے عرصے تک اردو زبان سیکھی؟

میں نے چار سال تک اردو زبان سیکھی اور اس میں گریجویشن کی۔

سوال: اردو کے کونسے ادیب یا شاعر آپ کو پسند ہیں؟

میں نے اردو کے کئی ادیبوں کو پڑھا ہے۔ ان کی ادبی نگارشات کا بھی مطالعہ کیا ہے۔ مجھے بانو قدسیہ ، سعادت حسن منٹو اور امتیاز علی تاج پسند ہیں۔ جبکہ موجود ہ لکھاریوں میں عمیرہ احمد پسند ہیں۔ اردو شاعری قدرے مشکل ہے۔ مگر غالب ، اقبال اور فیض کو جانتے ہیں اور ان کے کلام سے واقفیت ہے۔

سوال: آپ کو اردو زبان میں پی ایچ ڈی کرنے کا خیال کیسے آیا؟

اردو زبان سیکھتے ہوئے اس میں دلچسپی پیدا ہونا شروع ہوئی۔ جو روز بروز بڑھتی چلی گئی۔ پھر پڑھانا شروع کیا تو اردو کو جاننے کا مزید موقع ملا ۔ تو پی ایچ ڈی کرلی۔

سوال: پی ایچ ڈی میں آپ کے تحقیقی مقالے کا عنوان کیا تھا؟

میرے تحقیقی مقالے کاعنوان ـ ـ’ مغل بادشاہ اکبر کی مذہبی سوچ ‘ تھا۔ اور میرے پی ایچ ڈی مقالے کے نگران پروفیسر تھانگ تھے۔

سوال: اردو زبان سیکھنے کے دوران آپ کل کتنے طلباء تھے ۔ اور ان میں سے کتنے گریجویشن کے بعد ا ردو زبان سے کسی نہ کسی طرح جڑے رہے یا اردو زبان کی وجہ سے کسی پیشے سے وابستہ ہوئے؟

جب ہم انیس سو ستانوے میں پیکنگ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں داخل ہوئے تو ہم کل گیارہ طالب علم تھے۔ ان میں چار لڑکیاں اور سات لڑکے تھے۔ ان میں سے تین نے گریجویشن کے بعد مزید تعلیم کے لیے ایم اے میں داخلہ لیا۔ اور اس کلاس میں سے ایک میں اُردو کی تدریس سے منسلک ہوں۔ ایک میری کلاس فیلو ’ شو شیاؤ شن ‘ ( اردو نام نسیم) چائنہ میڈیا گروپ کی اردو سروس میں کام کر رہی ہیں۔ ایک کلاس فیلو چین کی ایک موبائل کمپنی میں ہیں اور وہ اُردو زبان جاننے کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کا کئی مرتبہ دورہ کرچکے ہیں۔ تو ہم تین ہم جماعت کسی نہ کسی طرح اردو زبان سے منسلک ہیں۔ باقی ہم جماعت دیگر شعبوں میں چلے گئے۔

سوال: پیکنگ یونیورسٹی کا شعبہ اردو کب قائم ہوا؟

پیکنگ یونیورسٹی کا شعبہ اردو انیس سو چون میں قائم ہوا۔

سوال: شعبہ اردو میں کس درجہ کی کلاسز ہوتی ہیں

شعبہ اردو میں گریجویشن، ایم اے اور پی ایچ ڈی لیول کی کلاسز ہوتی ہیں۔

سوال: شعبہ اردو سے اب تک اندازاً کتنے طلباء اردو زبان سیکھ چکے ہیں

اب تک دو سو سے زائد طلباء اردو زبان سیکھ چکے ہیں۔ جب سے یہ شعبہ قائم ہوا ہے اس وقت سے آج تک اس میں داخلے ہو رہے ہیں 1960میں ثقافتی انقلاب کے دوران اس میں تعطل آیا۔ 1970 سے آج تک یہ شعبہ بغیر کسی تعطل کے کام کر رہا ہے۔

سوال: پیکنگ یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ اساتذہ کون کون ہیں ؟ ان میں چینی اساتذہ او ر پاکستانی اساتذہ کی تعداد کیا ہے؟

چینی اساتذہ کی تعداد تین ہے اور ایک پاکستانی اُستاد ہیں۔ پاکستان سے اساتذہ آتے رہے ہیں ۔کچھ عرصہ پڑھاتے ہیں پھر واپس چلے جاتے ہیں۔

سوال: آپ خود ایک اسکا لر ہیں اور چینی ادب اور پاکستانی ادب سے واقف ہیں۔ آپ کو دونوں زبانوں کے لکھاریوں کے موضوعات میں کیا مماثلت یا فرق نظر آتا ہے ؟

جواب یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔ چینی ادب اور پاکستانی ادب کے موضوعات میں مماثلت بھی ہے اور فرق بھی۔ ادب کے موضوعات تو ملتے جلتے ہیں۔ ہر معاشرے میں کم و بیش یہ ایک جیسے ہوتے ہیں ۔ بس معاشرتی روایت کے فرق کی وجہ سے موضوعات میں تھوڑا بہت فرق آ جاتا ہے۔

میری ذاتی رائے میں چین اور پاکستان کے ادب میں فرق جدید ناول کے لحاظ سے ہے۔ چینی ناول میں کردار زیادہ پیچیدہ اور تفصیلی ہیں۔ اس میں مصنف اس کی تفصیل اور جزئیات کا ذکر کرتا ہے۔ کردار کا مزاح، طبیعت، مزاج، شکل ، لباس اور دل میں کیا چل رہا ہے، کردار سے جڑی باریک سے باریک جزئیات کا تمام تر ذکر مصنف خود کرتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں ناول میں مکالمہ زیادہ ہے۔ کردار اپنے تمام تر خیالات کااظہار مکالمے سے کرتا ہے۔ جہاں تک موضو عات کا تعلق ہے تو چین میں مخلتف مذاہب موجود ہیں۔ معاشرتی مسائل ہیں۔ گھریلو تنازعات ہیں۔

محبت کے معاملات ہیں۔ ارد گرد کے ماحول سے تعلق یا جڑت کے حوالے سے ایشوز ہیں۔ تو چین میں لکھاری ان موضوعات سے جڑے مسائل پر لکھتا ہے اور یہ بتا تا ہے کہ ان کو کیسے حل کرنا ہے۔ پاکستان میں چونکہ مذہب کا عمل دخل زیادہ ہے تو یہ مصنف پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ اس میں مذہب کے حوالے سے احساسات کا تذکرہ ہے۔ جیسے عمیرہ احمد کے ناول ’پیر کامل‘ اور ’حاصل لا حاصل‘ میں مذہبی معاملات کو زیربحث لایا گیا ہے۔تو اس طرح ادب کہیں کھوجاتا ہے۔ وہ شاید اجنبی لگتا ہے۔ کیونکہ اس میں اخلاقیات کے حوالے سے اصلاح کا پہلو ہوتا ہے۔ بہرحال اس سے ہم پاکستانی معاشرے کو سمجھ سکتے ہیں۔

سوال: کیا شعبہ اردو کے تحت دونوں ممالک کے منتخب ادب کے تراجم کیے گئے ہیں۔ اردو زبان سے چینی زبان میں یا چینی سے اردو میں

جی ہاں۔ تراجم ہوتے رہتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ ہمارے طلباء جب گریجویٹ ہوتے ہیں۔ تو ڈگری کے حصول کے لیے انہیں مقالہ لکھنا ہوتا ہے۔ اس مقالے کا ایک حصہ ترجمہ بھی ہے۔ جو چینی طالب علم اردو سیکھ رہا ہوتا ہے، اس کو اردو ادب میں سے جو پسند آتا ہے خواہ وہ شاعری ہو، کہانی ہو، کوئی ناول ہو یا کوئی نثر ہو تو اسے اس ادبی کام کو اردو ز بان سے چینی زبان میں ترجمہ کرنا ہوتا ہے۔ تو اس طرح کئی تراجم ہوئے ہیں۔

سوال: کیا پاکستان کے ڈراموں، فلموں کی چینی زبان میں ڈبنگ کی گئی ہے؟

کچھ ڈرامے اور فلمیں ڈب ہوئے ہیں مگر یہ تعداد کم ہے۔

سوال: کیا سی پیک کے بعد چینی نوجوانوں میں اردو سیکھنے کا شوق بڑھا ہے؟

جی یہ درست ہے کہ سی پیک کے بعد چینی نوجوانوں میں اردو سیکھنے کا شوق بڑھا ہے۔ پاک چین دوستی کی وجہ سے بھی اس رجحان میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ ہم بھی یونیورسٹی میں داخلے سے پہلے ان کی اورینٹیشن کرتے ہیں۔ طلباء محنت سے اور توجہ سے پڑھتے ہیں۔

سوال: چین میں کتنی جامعات میں اس وقت اردو پڑھائی جار ہی ہے۔

چین میں اس وقت سات جامعات میں اردو پڑھائی جا رہی ہے۔ ان میں سے تین جامعات بیجنگ میں ہیں۔ جبکہ چار جامعات بیجنگ سے باہر دیگر شہروں میں ہیں۔

سوال: کیا پیکنگ یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے چینی کاروباری اداروں یا کمپنیوں نے اردو زبان کے مختصر یا مخصوص کورسز ڈیزائن کرنے کے لیے رابطہ کیا ہے۔

جی، کبھی کبھار کسی ضرورت کے تحت رابطہ کیا جاتا ہے۔ مگر مختصر یا مخصوص کورسز کے لیے رابطہ نہیں کیا گیا ہے۔بعض اوقات طلباء کسی کمپنی کے لیے کوئی ترجمہ وغیر ہ کا کام کر دیتے ہیں۔ مگر یہ کبھی کبھار ہوتا ہے۔

سوال: کسی بھی ملک کی اگر زبان سیکھ لی جائے تو اس ملک کے کلچر یا ثقافت سے بھی آگہی ہو جاتی ہے۔ ایک چینی اردو دان ہونے کے ناطے آپ کو پاکستان کے کلچر میں کیا چیز اچھی لگی ـ؟

چین اور پاکستان کی ثقافت اور تاریخ مختلف ہے۔ پاکستان میں قدیم تاریخ کے اثرات ہیں۔ ہڑپہ اور موہنجو دڑو ایسے قدیم تہذیب و تمدن کے شہر ہیں۔ پاکستان میں ثقافتی تنوع ہے۔ یہاں پر پنجاب، سندھ ، بلوچستان ، خیبر پختوانخواہ، گلگت بلتستان ہیں جن کی اپنی اپنی ثقافتی روایات ہیں جو بہت خوبصورت ہیں۔ یہاں پر بدھ ازم ہے، ہندو مت کے اثرات ہیں پھر مسلم ثقافتی اثرات ہیں۔ پاکستان کے لوگوں میں اس ثقافتی تنوع کا اثر ہے۔ لوگ کھلے دل اور ذہن کے ہیں۔ ملنسار ہیں اور مہمان نواز ہیں۔ کھلے ذہن اور کھلی نظر سے دنیا کو دیکھتے ہیں۔ پاکستان میں ستانوے فیصد مسلمان ہیں تو مذہب کے اثرات بھی نظر آتے ہیں۔

سوال: آپ پاکستان کتنی مرتبہ آ چکی ہیں

میں نے کئی مرتبہ پاکستان کاد ورہ کیا ہے۔ میں پہلی مرتبہ دو ہزار چار میں پاکستان آئی تھی اور آخری مرتبہ دو ہزار اٹھارہ میں، اس دوران میں آٹھ مرتبہ پاکستان کا دورہ کر چکی ہوں۔ میں پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں جا چکی ہوں۔ اسلام آباد، کراچی، لاہور، پشاور ، سوات ، مردان ، سیدو شریف دیکھ چکی ہوں۔ سوا ت میں بدھ مت سے منسلک مقامات کا دورہ بھی کیا ہے۔

میں پاکستان میں مختلف شہروں میں جب لوگوں سے ملتی ہوں اور اردو میں بات کرتی ہوں تو پہلے تو وہ حیران ہوتے ہیں کہ ایک چینی خاتون صاف اردو بول رہی ہے اور اس بات پر بھی حیران ہوتے ہیںکہ ایک چینی خاتون نے اردو زبان کیوں سیکھی۔ پھر یہ حیرت ایک گرمجوشی میں بدل جاتی ہے۔

اس میں اپنائیت اور خلوص آ جاتا ہے۔ اور اُردو بولنے کی وجہ سے مجھے پاکستان میں دکانداروں سے بہت رعایت ملتی ہے۔ اُردو میں بات چیت کرنے سے ہر شخص مجھ سے گھل مل جاتا ہے اور ایک جگری دوست کی طرح بات کرتا ہے۔ ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ جب آپ مادری زبان میں بات کرتے ہیں تو دل سے کرتے ہیں اور غیر ملکی زبان میں کرتے ہیں تو دماغ سے کرتے ہیں۔ میرے ساتھ پاکستان میں ڈرائیورز، راہ گیر ، عام لوگ اردو میں بات کرتے ہیں اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

سوال: آپ کو پاکستانی کھانوں میں کیا پسند ہے

پاکستانی کھانے بہت ذائقہ دار ہیں۔ میرا پسندیدہ کھانا چکن پلاؤ اور مٹن ہے۔ پراٹھا کم کھاتی ہوں ۔ مجھے پاکستان میں ملنے والا دودھ بھی بہت اچھا لگتا ہے۔

سوال: پاکستان کے لباس کے بارے میں آپ کا کیا مشاہدہ ہے؟

میں نے پاکستان کے شہری اور دیہی علاقوں کے لباس میں فرق دیکھا ہے۔ شہر میں زیادہ مختلف نوعیت کے لباس ہیں ۔دیہی علاقوں میں اپنا اپنا لباس ہے۔ پاکستانی لباس بہت خوبصورت ہے، بالخصوص لڑکیوں کے لباس میں تنوع اور رنگ زیادہ ہیں۔ ذاتی طور پر مجھے پاکستان میں ہاتھ سے بنا ہوا لباس جس پر کشیدہ کاری ہوتی ہے وہ پسند ہے۔

سوال: چینی طلباء کو پاکستان کے کلچر سے روشناس کرانے کے لیے کس قسم کی سرگرمیاں منعقد کی جاتی ہیں۔؟

چینی طلباء کو پاکستان کے کلچر سے روشناس کرانے کے لیے مختلف نوعیت کی سرگرمیاں منعقد کی جاتی ہیں۔ کلاسز بھی ہوتی ہیں۔ پاکستان کے اہم تہواروں کے موقع پر کلچرل فیسٹیول بھی ہوتا ہے۔ طلباء انٹرنیٹ سے بہت مواد دیکھتے ہیں اور اس سے سیکھتے ہیں۔ یوم اقبال کے موقع پر خصوصی تقریب ہوتی ہے۔ مشاعرے کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے اہم قومی ایام کے حوالے سے بیجنگ میں سفارت خانے میں منعقدہ تقاریب میں جاتے ہیں۔ اسی طرح سمیسٹر کے شروع اور آخر میں طلباء بیجنگ میں واقع پاکستانی ریسٹورنٹ میں جاتے ہیں ا ور وہاں پاکستانی کھانے کھاتے ہیں۔

سوال: چین میں اردو کا مستقبل کیسے دیکھتی ہیں۔

چین میں اردو کا مستقبل بہت روشن ہے اور دس سال بعد یہ اور زیاہ روشن ہو گا۔ سی پیک اور پاک چین اچھے تعلقات کی وجہ سے بہت سے لوگ اور نوجوان پاکستان کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ پاکستان چین کا پڑوسی ملک ہے تو لوگ اپنے پڑوسی کو بھی جاننا چاہتے ہیں۔ چینی نوجوان انگریزی زبان سیکھنے کے ساتھ ساتھ باہر کی دنیا کے بارے میں بھی جاننے کے خواہشمند ہیں۔

اس لیے چین میں اردو کی اہمیت برقرار رہے گی بلکہ میں تو یہ کہنا چاہوں گی کہ خالص اردو آپ کو صرف چین میں ملے گی۔کیونکہ پاکستان میں لوگ جب اردو بولتے ہیں تو اس میں انگلش کا استعمال زیادہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے اردو اپنی اصل شکل میں نہیں رہی۔ یہاں پر جب ہم اردو بولتے ہیں تو خالص اردو بولتے ہیں۔

ایک اور وجہ بھی ہے کہ جب میں نے اردو سیکھنی شروع کی تھی تو اس وقت بہت کم لوگ پاکستان کے بارے میں جانتے تھے۔ پاکستان کے بارے میں معلومات کم تھیں۔ تو لوگ اکثر مجھے کہا کرتے تھے کہ اردو سیکھ کر آپ کیا کریں گی۔ یہ کیسی زبان ہے۔ پاکستان کونسا ملک ہے۔ لوگ کیسے ہیں۔ آپ کس شعبے میں کام کریں گی یا ملازمت ڈھونڈ پائیں گی۔ کوئی اور زبان سیکھ لیں ۔ لیکن جب میں نے اردو سیکھنی شروع کی توآہستہ آہستہ مجھے پاکستان کے بارے میں علم ہونا شروع ہوا۔ پھر میں نے اپنے اہل خانہ اور احباب کو پاکستان کے بارے میں بتانا شروع کیا۔ تو پھر پاکستان کے بارے میں لوگوں کو علم ہوا تو میں کہہ سکتی ہوں کہ چین میں بہت سے لوگوں کو میری وجہ سے پاکستان کے بارے میں پتہ چلا۔

پیکنگ یونیورسٹی کے طلبا، اردو زبان جن کا روزگار ٹھری
لیو شیائو ہوئی
لیو شیائو ہوئی کا اردو زبان سے تعلق قائم ہونا ایک اتفاق تھا، اور کسے معلو م تھا کہ یہ اتفاق ایک دیر پا تعلق میں بدل جائے گا۔ وہ اتفا ق کچھ یوں ہے کہ ’ لیو شیائو ہوئی ‘ غیرمعمولی طور پر ذہین طالب علم تھے۔ ان کی تعلیمی کارکردگی شاندار تھی، تو اُس زمانے میں حکومتی پالیسی کے مطابق ذہین اور بہترین کارکردگی والے طلباء کو براہ راست پیکنگ یونیورسٹی میں داخلہ دے دیا جاتا تھا یعنی ایسے طالب علموں کو یونیورسٹی میں داخلے کے لازمی امتحان سے مستثنی قرار د ے دیا گیا تھا۔

تو لیو شیائو ہوئی کو اس پالیسی کے تحت یونیورسٹی میں داخلہ ملا۔ پیکنگ یونیورسٹی کا شمار چین کی صف اول کی بہترین یونیورسٹی میں ہوتا ہے۔ اس یونیورسٹی میں داخلہ ہر چینی نوجوان کی خواہش ہے، کیونکہ یہاں سے گریجویٹ ہونے کی صور ت میں روزگار کے مواقع زیادہ ملتے ہیں، تو اُس وقت نوجوان طالب علم لیو شیائو ہوئی کے لیے پیکنگ یونیورسٹی میں داخلہ ایک بڑے اعزاز کی بات تھی۔ لہذا وہ حکومتی پالیسی سے مستفید ہوئے اور انہیں شعبہ اردو میں داخلہ دیا گیا۔ یہاں پر چینی پالیسی سازوں کی دور اندیشی کی داد دینی چاہیے کہ انہوں نے ذہین طلباء کو یونیورسٹی میں براہ راست داخلہ دیا اور انہیں غیر ملکی زبانیں سکھائیں۔ تو اس طرح لیو شیائو ہوئی کا اُردو سے تعارف ہوا جو ایک مستقل تعلق میں بدل گیا۔

لیو شیائو ہوئی کے اردو زبان میں داخلے پر ان کے والدین کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ لیو شیاو نے بتایا کہ ان کے والدین کو علم نہیں تھا کہ ان کا بیٹا اتنا ذہین اور شاندار تعلیمی کارکردگی کا حامل ہے کہ اسے پیکنگ یونیورسٹی میں داخلہ مل جائے گا۔ کیونکہ ان کے نزدیک پیکنگ یونیورسٹی میں داخلہ مشکل تھا اور وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ لیو شیاو کے والد انہیں کوئی ہنر سکھانے کے خواہشمند تھے مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ یوں لیو شیائو ہوئی 1985 سے 1999 تک پیکنگ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے طالب علم رہے۔

اس دوران انیس سو ستاسی سے انیس سو نواسی تک دو برس کے لیے جامعہ پنجاب میں اردو زبان سیکھتے رہے اور 1990 میں پیکنگ یونیورسٹی سے گریجویٹ ہو گئے۔ لیو شیائو ہوئی اپنے دس ہم جماعت ساتھیوں میں سے واحد ہیں جن کا ذریعہ روزگار بھی اردو سے منسلک ہونا ٹھہرا۔

لیو شیائو ہوئی اس وقت چائنہ میڈیا گروپ کی اردو سروس سے وابستہ ایک صحافی ہیں۔ مگر ان کا ادب اور آرٹ سے لگائو فطری ہے۔ انہوں نے اپنے شوق اور ذاتی رجحان کی وجہ سے چین میں سماجی رابطوں کی ایک مقبول ایپ وی چیٹ پر ایک اکائونٹ بنایا ہے جہاں پر وہ اردو شاعری کے منتخب کلام کا چینی میں ترجمہ کر کے اپ لو ڈ کرتے ہیں۔ دو ہزار سولہ میں قائم کیے گیے اس وی چیٹ اکائونٹ کے اس وقت تین سوسے زائد فالورز ہیں اور جناب لیو شیائو ہوئی چار سو سے زائد غزلوں اور نظموں کا اردو سے چینی زبان میں ترجمہ کر چکے ہیں۔ فالورز اس ترجمہ کو پسند کرتے ہیں اور ان کا فیڈ بیک حوصلہ افزاء اور قابل تعریف ہے۔

لیو شیائو ہوئی کو ذاتی طور پر نظم زیادہ بھاتی ہے کیونکہ اس میں ادبی حدود وقیود غزل کے مقابلے میں کم ہیں۔نظم میں خیالات کا مختلف طریقے سے اظہار کیا جا سکتا ہے اور موضوعات کے چنائو میں بھی زیادہ آزادی ہے۔ پاکستانی شعراء میں امجد اسلام امجد لیو شیائو ہوئی کو زیادہ پسند ہیں۔ جناب لیو شیائو ہوئی کو اردو زبان سیکھنے کے وقت یا اس دوران بھی یہ خیال نہ آیا کہ انہیں اس زبان دانی کی وجہ سے کوئی جاب مل جائے گی۔ مگر چین میں چونکہ روزگار کے حصول کا ایک مروجہ طریقہ کار ہے تو اس نظام کے تحت انہیں بھی چین کے ریاستی میڈیا کی اردو سروس میں جاب مل گئی جو کہ ایک اتفاق تھا۔ مگر لیو شیائی ہوئی کے نزدیک اردو صرف ایک زبان نہیں بلکہ یہ ایک رشتہ ہے جو ہمیشہ برقرار رہے گا۔

٭٭٭
تو جیاننگ
محترمہ توجیاننگ (پاکستانی نام تبسم) کی اردو زبان سیکھنے کی وجہ ذاتی خواہش یا رجحان کی بجائے اپنے والد گرامی کی خواہش کا احترام تھا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ جب تبسم بیجنگ کے ہائی سکول میں زیر تعلیم تھیں تو ان کے والد غیر شعوری طور پر گھر میں اپنی بیٹی کے ساتھ بات چیت میں اردو زبان اور پاکستان کا تذکرہ کرتے۔ بیٹی ذہین اور معاملہ فہم ہونے کے ساتھ ساتھ سعادت مند بھی تھی ۔ اس نے یہ بات پلے باندھ لی کہ اس کے والد محترم کی خواہش ہے کہ وہ اردو زبا ن سیکھے۔ تو ہائی سکول سے گریجویٹ ہونے کے بعد انہوں نے چین میں یونیورسٹی میں داخلے کے لازمی امتحان ( کائو کھائو) میں شرکت کی اور داخلہ فارم میں میجر مضمون کے طور پر اردو زبان کا انتخاب کیا اور جامعات میں سے چین کی ممتاز ترین جامعات پیکنگ یونیورسٹی اور شنخواہ یونیورسٹی کا چنائو کیا۔

تبسم کی یونیورسٹی میں داخلے کے لازمی امتحان میں کارکردگی بڑی شاندار تھی تو انہیں پہلے پیکنگ یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے داخلے کی پیش کش ہوئی تو انہوں نے اس کو قبول کر لیا ۔ بعد میں انہیں چین کی شنخواہ یونیورسٹی سے بھی پیشکش ہو گئی مگر چونکہ انہیں اپنے والد کی اردو زبان میں دلچسپی کا علم تھا تو انہوں نے ماہر اقتصادیات یا ایک وکیل بننے کے ذاتی شوق اور رجحان کو ایک طرف رکھا ا ور اردو زبان میں داخلہ لے لیا۔ ان کے والد کہا کرتے تھے کہ پاکستان چین کا اچھا دوست ملک ہے اور پاکستان کی قومی زبان اردو ہے۔ چین میں اردو سمجھنے اور بولنے والوں کی تعداد کم ہے۔ اگر تم اردو سیکھ لو گی تو اس میں ترقی کے مواقع زیادہ ہوں گے۔ اس طرح ان کا اردو سیکھنے کا سفر شروع ہوا جو 2007 سے 2011 تک پیکنگ یونیورسٹی میں جاری رہا۔

محترمہ تبسم کے مطابق ’’اردو سیکھنے کے ابتدائی دنوں میں بہت مشکلات کا سامنا کیا کیونکہ اردو زبان چینی زبان سے بالکل مختلف ہے۔ گرامر ، الفاظ ، تلفظ سب مختلف ہے۔ اردو زبان انگلش سے بھی مختلف ہے۔ پرائمری سکول سے انگلش زبان سکھائی جاتی تھی مگر اردو زبان میرے لیے بالکل اجنبی زبان تھی ۔اسی لیے ابتدائی وقت میں بہت سی مشکلات کا سامنا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مشکل پر قابو پا لیا‘‘۔

شعبہ اردو میں داخلے کے بعد انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ مستقبل میں انہیں اردو زبان کی وجہ سے ملازمت مل جائے گی۔ اردو زبان سیکھنے کی وجہ سے پاکستان کے سماج، ثقافت ، رسوم اور کلچر سے واقف ہونے کا موقع ملا۔ عوام کے بارے میں پتہ چلا اور یہ اردو کی وجہ سے ہوا ۔ پیکنگ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں داخلے سے پہلے انہیں صرف پاکستان کے نام، اس کے جغرافیائی محل وقوع کا علم تھا اس سے زیادہ انہیں پاکستان کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔

اردو زبان سیکھنے کے بعد پاکستان کے سماج ، تاریخ ، سیاست کے بارے میں زیادہ علم ہوا۔ تبسم کے والد نے چین میں اردو زبان کے مستقبل کے حوالے سے جن روشن امکانات و فوائد کے متعلق اندازہ لگایا تھا وہ نہ صرف ان کی بیٹی کے حق میں بلکہ مجموعی طور پر بھی درست ثابت ہوئے۔کیونکہ ان کو بیٹی کو تو چین کے ریاستی میڈیا کے شعبہ اردو میں ملازمت مل گئی اور پاک چین اقتصادی راہداری کے بعد تو چین میں اردو زبان کی نہ صرف مقبولیت بڑھی ہے بلکہ اردو زبان سیکھنے کے رجحان میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

چینی زبان کے پاکستانی اُستاد

ڈاکٹر عصمت ناز ، سابق ٹیچر ، شعبہ اردو ، پیکنگ یونیورسٹی، بیجنگ ، سابق وائس چانسلر ، دی وویمن یونیورسٹی ، ملتان دو ہزار چھ سے دو ہزار بارہ تک پیکنگ یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے بطور غیر ملکی ماہر استاد وابستہ رہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا اپنے چینی ساتھیوں، طلباء اور دوستوں کے ساتھ بڑا اچھا وقت گزرا۔ ڈاکٹر عصمت ناز کے مشاہدے کے مطابق چینی لوگ بڑے محنتی ہیں۔ اپنے کام اور پڑھائی سے بڑے مخلص ہیں۔ سیکھنے کے لیے بڑے پرجوش ہوتے ہیں۔ چینی طلباء کی پاکستان ، اپنے وطن چین اور کلچر سے محبت غیر معمولی اور قابل ستائش ہے۔

انہوں نے بتایا کہ چینی طلباء گہری دلچسپی سے اردو سیکھتے ہیں اور کچھ ہی عرصے کے بعد اردو لکھنے، پڑھنے اور بولنے میں رواں ہو جاتے ہیں۔ بطور ٹیچر ان کے لیے یہ حیران کن امر تھا کہ چینی طلباء بڑی جلدی اور سرعت کے ساتھ اردو زبان سیکھتے تھے۔ بطور ٹیچر وہ ہر سال چینی طلباء و طالبات کو اردو نام دیا کرتی تھیں اور وہ اس کو خوشی سے اختیار کر لیتے تھے۔

ڈاکٹر ناز کا ایک اہم کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے چینی ساتھیوں کے ساتھ مل کر اولین چینی۔ اردو ڈکشنری ترتیب دی جو کہ شائع ہو چکی ہے۔ یہ ڈکشنری طلباء، اساتذہ اور اردو سیکھنے والوں میں بڑی مقبول ہے۔

وہ ان دنوں ایک کلاسک چینی ناول ہونگ لو منگ ( ڈریم آف ریڈ چیمبر) کا ترجمہ کر رہی ہیں۔ یہ ناول پانچ جلدوں پر مشتمل ہے اور اس کے ایک سو بیس ابوا ب ہیں۔ اس ناول سے جہاں چین کی سماجی اقدار، بڑوں کا ادب، معاشرتی رسوم و رواج اور چلن،گھریلو مصروفیات اور ریاستی نظام کا علم ہوتا ہے وہیں ا س میں چینی سماج میں پائی جانے والی باہمی مناقشت، حسد ، توہمات، بدھ ازم سے وابستگی اور عقیدت سے بھی آگاہی ملتی ہے۔

ڈاکٹر عصمت ناز کے مطا بق چینی طلباء کو اردو سیکھنے میں ابتدائی طور پر اُردو الفاظ کی ادائیگی اور اردو کے حروف تہجی بولنے میں مسئلہ ہوتا ہے لیکن مسلسل مشق سے وہ اس مشکل پر قابو پالیتے ہیں۔ دوسرا انہیں پاکستانی کمیونٹی سے گھلنے ملنے کے مواقع کم ملتے تھے ۔ وہ بتاتی ہیں ’’میں بطور ٹیچر انہیں پاکستانی سفارت خانے میں منعقدہ مختلف تقاریب اور پاکستان ایمبیسی سکول میں لے جاتی تھی تا کہ انہیں پاکستانی افراد سے گُھلنے ملنے کا موقع ملے اور پاکستانی کلچر اور کھانوں کا علم بھی ہو سکے۔

پیکنگ یونیورسٹی کے شعبہ اُردو میں اُردو کُتب کی کمی کے پیش نظر ڈاکٹر عصت ناز نے شعبہ اُردو کو کئی کتابیں عطیہ کیں۔

انہوں نے مختلف تدریسی مقاصد کے لیے اپنی آواز میں اردو زبان کے کئی مکالمے ا ور کہانیاں ریکارڈ کیں ۔ یہ صوتی ریکارڈ پیکنگ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی لا ئبریری میں موجود ہے۔

ڈاکٹر عصمت ناز کی چینی سٹوڈنٹس ڈاکٹر فر ح، شبنم اور زیبا اس وقت چین کی مختلف جامعات میں اردو پڑھا رہی ہیں۔

انہوں نے چین کے طلباء کا ایک گروپ بھی تیار کیا جس نے دو ہزار آٹھ کے اولمپک گیمز میں پاکستانی ٹیمز کے ساتھ بطور مُترجم کام کیا۔

٭٭٭

ڈاکٹر آفتاب عظیم ، سربراہ شعبہ چینی زبان ، نمل یونیورسٹی ، اسلام آباد

ٓ ڈاکٹر آفتاب نے دو ہزار سترہ سے دو ہزار ا نیس تک پیکنگ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں وزٹنگ لیکچرر کے طو ر پر پڑھایا۔

اُس وقت وہ چین کی بیجنگ لینگوئج اینڈ کلچرل یونیورسٹی سے چینی زبان میں پی ایچ ڈی کر رہے تھے، تو پی ایچ ڈی کرنے کے ساتھ ساتھ پڑھاتے بھی رہے۔ چینی زبان میں مہارت اور بعد ازاں ڈاکٹریٹ ڈگری کے حامل ہونے کے ناتے انہیں یہ فائدہ تھا کہ جہاں چینی طلباء کو اردو زبان میں کسی گرامر کے ضابطے کی تفہیم میں مشکل ہوتی تو وہ طلباء کو چینی زبان سے مثال دے کر سمجھا دیتے جس سے طلباء کو بڑی آسانی ہوتی۔

چینی اور اردو زبان میں مہارت کے پیش نظر انہوں نے چین کے عظیم فلسفی کنفیوشس کے مکالمات کا اردو زبان میں ترجمہ کیا۔ ان مکالمات میں اخلاقی پند و نصا ئح ا ور قدروں کا تذکرہ ہے۔ ڈاکٹر آفتاب عظیم کے مطابق چینی طلباء وقت کے پابند اور پڑھائی میں ہمیشہ سنجیدہ اور ذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ کرتے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔