کرپٹو کرنسی، میٹاورس اور ہم

محمد عبداللہ  ہفتہ 8 جنوری 2022
کرپٹوکرنسی کو تسلیم کیجئے، اس سے فائدہ اٹھائیے۔ (فوٹو: فائل)

کرپٹوکرنسی کو تسلیم کیجئے، اس سے فائدہ اٹھائیے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان میں کرپٹوکرنسی بند کرنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت سمجھتی ہے عوام روپیہ دے کر ڈالر خریدے گی، جو منی لانڈرنگ کا باعث بنے گا۔ لیکن چند روز پہلے شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق پاکستانی عوام 20 بلین ڈالر کی کرپٹوکرنسی کے مالک ہیں، یعنی مسئلہ وہیں کا وہیں ہے۔ اس کی بڑی وجہ ’’بائینانس‘‘ جیسی بڑی کرپٹو ایکسچینجز سے صرف نظر ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ حکومت کی پابندی کے باوجود عوام ابھی بھی کرپٹو خرید رہے ہیں تو کیوں نہ اس کا ایسا حل نکالا جائے جس سے ملکی معیشت کو فائدہ حاصل ہو۔

کرپٹو کرنسی اس دور کی حقیقت ہے۔ آنے والا وقت ’’میٹاورس‘‘ اور ’’ویب 3‘‘ کا ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگالیجئے کہ دنیا کی سب سے بڑی سوشل میڈیا کمپنی فیس بک کو اپنا نام تبدیل کرکے ’’میٹا‘‘ رکھنا پڑا تاکہ خود کو جدید ثابت کیا جائے۔

یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ دراصل میٹاورس ہے کیا؟ 2009 میں ہالی ووڈ کی ایک فلم ’’سروگیٹس‘‘ ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم میں یہ دکھایا گیا تھا کہ ہر شخص اپنے گھر یا کسی مخصوص لیب میں ایک خاص قسم کی کمپیوٹرائزڈ کرسی پر خاص قسم کی عینک لگائے لیٹا ہے اور ایک ورچوئل زندگی گزار رہا ہے۔ خیالی دنیا میں پائے جانے والے کردار دراصل انہی کی شکل کے روبوٹس ہیں جو باہر معاشرے میں پھر رہے ہیں، جن کو وہ مکمل طور پر اپنے دماغ سے کنٹرول کر رہے ہیں۔ اگر ان میں سے کسی کی لڑائی ہوجاتی ہے تو مرنے والا ایک روبوٹ ہی ہوتا ہے، اصلی انسان تو گھر میں کمپیوٹرائزڈ کرسی پر لیٹا ہوا ہے۔

کبھی شاید آپ نے بھی سوچا ہو کہ آپ پاکستان میں ہیں اور امریکا میں بیٹھے دوست سے ویڈیو بات کر رہے ہیں اور کاش ایسا ہوجائے کہ دونوں بالکل ایک دوسرے کے آمنے سامنے آجائیں اور باقاعدہ ایک گھر کے اندر یا کسی ہوٹل وغیرہ میں بات کرسکیں۔ بظاہر تو یہ ناممکن سی بات لگتی ہے لیکن اس کو ممکن بنانے کےلیے آیا ہے انٹرنیٹ کا دور ’’ویب 3‘‘ اور ’’میٹاورس‘‘۔

میٹاورس کی بدولت آپ خاص قسم کے آلات مثلا ’’وی آر گلاسز‘‘ کے ذریعے اپنے گھر بیٹھے ہی اپنی مرضی کا شہر، عمارت وغیرہ منتخب کریں اور کمپیوٹر کی دنیا کے اندر چلے جائیں، جہاں آپ کا ایک ہم شکل ’’ایواٹار‘‘ موجود ہوگا۔ اب جس عمارت کے اندر آپ کھڑے ہیں وہ آپ کی اپنی بھی ہوسکتی ہے اور آپ کرائے پر بھی لے سکتے ہیں۔ ویب تھری میں لوگوں کے پاس ڈیجیٹل جائیداد ہوگی جو وہ فروخت کریں گے یا کرائے پر دیں گے۔ اسی لیے مارک زکربرگ نے جیسے ہی میٹاورس کا اعلان کیا، اس کے ساتھ ہی ڈیجیٹل سازو سامان بنانے والے کرپٹو پراجیکٹس کے اسٹاک اوپر چلے گئے۔ شاید آپ نے ان دنوں ’’این ایف ٹی‘‘ کا نام سنا ہو۔ یہ دراصل ڈیجیٹل آرٹ کا نام ہے۔ یعنی تصویروں کی ایک کلیکشن، جسے لوگ ڈیجیٹل پراپرٹی گھر بلڈنگ وغیرہ لے کر اس کی دیواروں پر لگاسکیں گے۔

اس ویب تھری انٹرنیٹ کی دنیا میں استعمال ہونے والا پیسہ کرپٹو کوائن ہے۔ کرپٹو کوائن دراصل ڈیجیٹل کرنسی ہے جس میں آپ پیسے ڈالتے ہیں اور وہ آپ کے پیسے کی ویلیو کو اسٹور کرلیتا ہے۔ مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ کے ساتھ ساتھ اس کی ویلیو میں کمی بیشی آتی رہتی ہے لیکن چونکہ پہلےانفرادی لوگوں نے اسے خریدا پھر اداروں نے پھر بزنس اداروں نے اس کے بعد اب بات ملکوں پر آگئی ہے جو کرپٹو کوائن خرید رہے ہیں، اس لیے سال ہا سال اس کی ویلیو بڑھ رہی ہے اور اس کا مستقبل محفوظ ہے۔

جب بٹ کوائن آیا تب دنیا کے تمام ممالک نے اس کی مخالفت کی اور اس پر پابندیاں لگائیں۔ مگر ہانگ کانگ نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے مقابلے میں اپنا کرپٹو کوائن ’’یو ایس ڈی ٹی‘‘ متعارف کروایا، جس کی قیمت ایک ڈالر کے برابر ہے۔ اس کے کام کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی ’’یو ایس ڈی ٹی‘‘ خریدتا ہے، کمپنی اتنے ہی ڈالر خرید کر اکاؤنٹ میں رکھ لیتی ہے۔ یوں اس کوائن اور ڈالر کی قیمت برابر رہتی۔ اسی لیے اس کو متوازن کوائن کہتے ہیں۔ یوں ہانگ کانگ بجائے کرپٹو کا دشمن بننے کے، اس کا شراکت دار بن گیا۔ آج بٹ کوائن سے لے کر ہر کرپٹو کرنسی کی خرید و فروخت ’’یو ایس ڈی ٹی‘‘ میں ہوتی ہے۔

میں اس تحریر کے ذریعے حکومت سے التجا کرتا ہوں کہ کرپٹوکرنسی کو تسلیم کیجئے، اس سے فائدہ اٹھائیے۔ یہ دس سال میں آپ کی معیشت کا نقشہ بدل دے گی۔ پاکستان کو یو ایس ڈی ٹی کی طرز کا اپنا کرپٹو کوائن متعارف کروانا چاہیے۔ اس کو ’’پی کے آر ٹی‘‘ کا نام دیں اور اس کی قیمت ایک روپے کے برابر رکھیں۔ ملک میں اس سے کرپٹو کرنسی کی خریدوفروخت کی اجازت دے دیں۔ بینکوں میں بھی اس کو ایکسچینج کرنے کی سہولت دیں۔ یو ایس ڈی ٹی اور ڈالر کی قیمت میں 10 روپے کا فرق ہے، آپ یہ فرق 50 فیصد کردیں، عوام اس کوائن کو تسلیم کرلے گی۔ ہمیں اس کو مختلف ایکسچینجز پر لسٹ کروانا ہوگا اور اس میں شائد چند سال بھی لگ جائیں مگر کم از کم ہم دوڑ میں شامل تو ہوجائیں گے۔ پہلا انعام نہ سہی، ہم کچھ نہ کچھ تو جیت ہی جائیں گے اور یقین مانیے یہ کچھ ہی عرصے میں ہماری حالت سنوار دے گا۔

اس کے علاوہ ہمیں میٹاورس پر اپنے تاریخی اور سیاحتی مقامات متعارف کروانے چاہئیں۔ ہمیں اپنی این ایف ٹی بھی جاری کرنی چاہئیں۔ اس سے نہ صرف ہمارے امیج اور ہمارے کلچر کو فروغ ملے گا بلکہ ایک بار کی محنت سے ہم کافی عرصہ تک ڈالر کماسکتے ہیں۔

پاکستان میں ایسے کئی کرپٹو ٹریڈرز اور ’’بلاک چین ڈیولپرز‘‘ موجود ہیں جو حکومت کی مدد کرسکتے ہیں۔ جن کےلیے یہ اعزاز کی بات ہوگی کہ وہ ملک میں کرپٹوکرنسی کے بانی بنیں۔ لیکن بات صرف حکومت کے جاگنے کی ہے، حقیقت کو تسلیم کرنے کی ہے۔ حکومت کو ان سب کو ساتھ بٹھانا چاہیے، ملک کی کرپٹو پالیسی بنانی چاہیے۔ وگرنہ یہ نہ ہوکہ گاڑی نکل جائے اور ہم ہمیشہ کی طرح ہاتھ ملتے رہ جائیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔