کرپشن امریکا سے سیکھئے

وسعت اللہ خان  ہفتہ 8 جنوری 2022

کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔البتہ کچھ ممالک میں اسے آرٹ بنا دیا گیا ہے اور  پھر یہ ممالک اس آرٹ کو باریک حروف میں چھپی قانونی لچھے داریوں اور دلکش اصطلاحات میں پوشیدہ رکھ کے اپنی قومی ایمانداری کے درے پاکستان جیسے اناڑی ممالک کی پیٹھ پر برساتے رہتے ہیں۔

پاکستانیوں نے امریکا سے بہت کچھ سیکھا مگر کرپشن کا آرٹ نہ سیکھ پائے کہ پکڑائی ہو بھی جائے تو احتساب نہ ہو پائے اور احتساب بھی ہو جائے تو سزا نہ ہو پائے۔

حال ہی میں امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے نائن الیون کے بعد کے بیس برس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر نجی امریکی ٹھیکے داروں کی چاندی پر تفصیلی رپورٹ شایع کی ہے۔ اس میں ایسے ایسے بھقالے ہیں کہ پڑھنے والا دانتوں تلے انگلیاں چاب لے۔

اس رپورٹ کے مطابق امریکا نے عراق و افغانستان سمیت مغربی ایشیا و مشرقِ وسطی میں بیس برس کے دوران لڑی جانے والی جنگوں پر چودہ ٹریلین (کھرب ) ڈالر خرچ کیے۔اس میں سے لگ بھگ چالیس فیصد رقم سپلائی اور تحفظاتی خدمات انجام دینے والے نجی ٹھیکیداروں ، دلالوں اور اسلحہ فروش کمپنیوں کی جیب میں گئی۔

ایسا نہیں کہ امریکا نے عسکری مہمات میں ٹھیکیداری نظام نیا نیا اپنایا ہو۔انیسویں صدی کی نام نہاد علاقہ ہڑپ انقلابی جنگوں میں نہ صرف نجی ٹھیکیدار محاذِ جنگ پر رسد فراہم کرتے تھے بلکہ ان کے کرائے کے کارندے دشمن کے بحری جہازوں پر حملے اور چھاپوں کے لیے بھی استعمال ہوتے تھے۔دوسری عالمی جنگ کے دوران خدمات انجام دینے والے باقاعدہ فوجیوں اور کنٹریکٹرز کا محاذِ جنگ پر تناسب علی الترتیب سات اور ایک کا تھا۔انیس سو اکیانوے کی جنگِ کویت میں بھی بہت سے عسکری نوعیت کے کام امریکی محکمہ دفاع نے نجی ٹھیکیداروں کے سپرد کیے۔

مگر نائن الیون کے بعد تو گویا آؤٹ سورسنگ کے نام پر اندھی مچ گئی،جس جس کا بس چلا اس نے بہتی گنگا میں جی بھر کے ہاتھ پاؤں دھوئے۔

چودہ ٹریلین ڈالر میں سے دو اعشاریہ ایک ٹریلین تو سیدھے سیدھے پانچ امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کو ہتھیاروں اور دیگر خدمات کے سلسلے میں ادا ہوئے۔  ( لاک ہیڈ مارٹن کارپوریشن، بوئنگ، جنرل ڈائنامکس، ریتھیون ٹیکنالوجیز اور نارتھروپ گرومین نے پینٹاگون کو اصل ضرورت سے دگنے آلات و ہتھیار بیچ ڈالے اور افغان و عراقی فوج کی تعمیرِ نو اور تربیتی خدمات کے علاوہ وہ ہتھیار بھی تھما دیے جن کے استعمال کی جان کاری بذاتِ خود خاصی پیچیدہ تھی۔ان میں سے اکثر ہتھیار یا تو استعمال نہیں ہوئے یا پھر تباہ یا پڑے پڑے ناکارہ ہو گئے۔

میدانِ جنگ کی نوعیت دیکھتے ہوئے بہت سے جدید ترین ہتھیاروں اور عسکری آلات کی ضرورت بھی نہیں تھی۔مگر ایک امریکی محاورہ ہے کہ اچھا سیلزمین وہ ہے جو قطب شمالی کے باشندوں کو برف خریدنے پر قائل کر لے۔

ہنگامی حالات میں فوری ضرورت کے بہانے بولیاں طلب کیے بغیر ٹھیکیداروں کو نوازا گیا۔سرکاری پیسہ کس طرح حلوائی کی دکان سمجھ کر دادا جی کی فاتحہ کے لیے استعمال ہوا۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ افغانستان کہ جس کی دو تہائی دیہی معیشت کا دارو مدار ہی گلہ بانی پر ہے۔ایسے ملک میں کشمیرا اون کی پیداوار کو فروغ دینے کے منصوبے کے نام پر چھ ملین ڈالر خرچ کر کے نو اطالوی بھیڑیں منگوائی گئیں مگر کشمیرا اون کا ایک بال بھی پیدا نہ ہو سکا اور پھر اس منصوبے کو خاموشی سے لپیٹ دیا گیا۔

ایک نوجوان افغان مترجم نے امریکی فوج کو بستر کی چادریں فراہم کرنے کا ٹھیکہ حاصل کر لیا۔ اس کام میں اتنی ’’ برکت ’’ ہوئی کہ اس نے چند برس میں ہی ایک ٹی وی چینل ، ایک ایئرلائن سمیت پوری کاروباری سلطنت کھڑی کر لی۔

کیلیفورنیا کے ایک چھوٹے سے کاروباری ڈگ ایڈلمین نے انیس سو اٹھانوے میں وسطی ایشیائی ریاست کرغیزیا میں ایک شراب خانہ اور پٹرول پمپ کھولا۔نائن الیون کے بعد جب امریکی فضائیہ نے بشکیک ایئربیس کی سہولتیں استعمال کرنا شروع کیں تو ایڈلمین نے ایک مقامی شراکت دار سے مل کر دو کمپنیاں قائم کیں اور امریکی طیاروں کے لیے ایندھن سپلائی کا کام شروع کر دیا۔

کام اتنا بڑھا کہ بگرام ایربیس کو ایندھن کی سپلائی کے لیے پائپ لائن کی تعمیر کا کام بھی انھی کمپنیوں کو مل گیا۔پینٹاگون نے ایڈلمین کو یہ ٹھیکے سنگل بولی کی بنیاد پر عطا کیے اور چار ارب ڈالر کے ٹھیکے حاصل کیے۔سیکڑوں ملین ڈالر کا منافع ایڈلمین کی جیب میں گیا اور مقامی پارٹنر نے منافع کی تقسیم میں بددیانتی کے الزام میں کیلیفورنیا کی ایک عدالت میں اس وقت مسٹر ایڈلمین پر مقدمہ ٹھوک رکھا ہے۔جب کہ ایڈلمین صاحب فی الحال لندن کے ایک محل نما مینشن میں زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔

ایک کمال کہانی امریکی ریاست اوہائیو سے تعلق رکھنے والے نیشنل گارڈز کے دو سابق فوجیوں غاد مونن اور گریگ ملر کی ہے۔دو ہزار تین میں انھوں نے عراق میں امریکی فوج کے لیے عربی مترجم سپلائی کرنے کے لیے مشن اسینشل گروپ کے نام سے کمپنی بنائی۔دو ہزار سات میں انھیں افغانستان میں مترجم سپلائی کرنے کے لیے تین سو ملین ڈالر کا سنگل بولی ٹھیکہ بھی مل گیا۔

مشن اسینشل کے چند سابق ملازموں کے بقول غاد مونن ہوٹل کے کمرے کے پیسے بچانے کے لیے اپنی کار میں ہی سونے کے لیے مشہور تھے۔لیکن جب افغانستان میں مترجموں کی فراہمی کا ٹھیکہ ملا تو غاد مونن نے ایک کنٹری کلب گالف کورس سے متصل تیرہ لاکھ  ڈالر مالیت کا چھ ہزار چار سو اسکوائر فٹ کا گھر خریدا اور ایک کلاسیک فراری کو سواری بنایا۔جیسے جیسے کام بڑھتا گیا مترجموں کی تنخواہیں کم ہونے لگیں اور ساڑھے سات سو ڈالر ماہانہ کی تنخواہ پہلے پانچ سو اور پھر تین سو ڈالر پر آ گئی۔

جنوری دو ہزار دس میں کمپنی کے لیے کام کرنے والے دو مایوس طبیعت مترجموں نے کسی بات پر آگ بگولہ ہو کر بندوق چھین کے دو امریکی فوجی ہلاک کر دیے۔ان کے ورثا نے کمپنی پر ازالے کے لیے مقدمہ کر دیا۔مگر کمپنی کے کاروبار پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔دو ہزار پندرہ میں فریقین نے بالائے عدالت مالی تصفیہ کر لیا۔

دو ہزار دس تک مشن اسینشل کے فراہم کردہ سات ہزار مترجم مختلف امریکی یونٹوں کے ساتھ کام کر رہے تھے۔دو ہزار بارہ کے ایک سال میں کمپنی نے پینٹاگون کو آٹھ سو ساٹھ ملین ڈالر کی بلنگ کی۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ دو ہزار سات سے بیس تک کمپنی نے کتنا کمایا ہوگا اور اس میں سے کتنا مترجموں کو تنخواہ کی شکل میں دیا ہو گا۔

افغانستان کی تعمیرِ نو کے نگراں ادارے سگار کے مطابق بیس برس کے دوران افغانستان میں تعمیراتی ڈھانچے پر ڈیڑھ سو بلین ڈالر صرف ہوئے۔ شاہراہوں، اسپتالوں ، پلوں اور فیکٹریوں کی تعمیر کے لیے مختص سات اعشاریہ آٹھ بلین ڈالر میں سے محض پندرہ فیصد (ایک اعشاریہ دو بلین ڈالر) ہی خرچ ہو پائے۔دو اعشاریہ چار بلین ڈالر ایسے تعمیراتی منصوبوں میں جھونک دیے گئے جو یا نامکمل چھوڑ دیے گئے یا انھیں مکمل ہونے کے بعد کبھی استعمال نہیں کیا گیا۔

یو ایس ایڈ نے ایک کمپنی کو بارہ سو میل طویل پتھریلی سڑک بنانے کے لیے دو سو ستر ملین ڈالر کا ٹھیکہ دیا۔تین برس میں صرف ایک سو میل سڑک بن پائی اور پھر یو ایس ایڈ نے ٹھیکہ منسوخ کر دیا۔نہ ٹھیکیدار سے ہرجانہ لیا گیا نہ ہی دی گئی رقم واپس ہوئی۔

امریکا نے باقاعدہ فوج کے علاوہ نجی کنٹریکٹرز کی فراہم کردہ افرادی قوت پر کتنا انحصار کیا ؟ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ دو ہزار آٹھ میں افغانستان میں تعینات ایک لاکھ ستاسی ہزار باقاعدہ فوجیوں کے علاوہ دو لاکھ سے زائد ٹھیکے والے فوجی بھی خدمات انجام دے رہے تھے۔مگر انھیں تعیناتی کے ریکارڈ میں نہیں دکھایا جاتا تھا۔جب بارک اوباما نے افغانستان سے بیشتر فوجی واپس بلا لیے تو بظاہر ریکارڈ پر نو ہزار آٹھ سو فوجی باقی رہ گئے۔مگر کنٹریکٹرز کی تعداد چھبیس ہزار تھی۔جنوری دو ہزار اکیس میں ٹرمپ کی سبکدوشی کے وقت ڈھائی ہزار باقاعدہ امریکی فوجی اور اٹھارہ ہزار کنٹریکٹرز افغانستان میں موجود تھے۔

عراق اور امریکا میں کل ملا کے پچھلی دو دہائیوں میں سات ہزار امریکی فوجی اور لگ بھگ ساڑھے تین ہزار کنٹریکٹرز ہلاک ہوئے۔

اب جب کہ آخری امریکی بھی افغانستان سے کب کا جا چکا ہے۔بائیڈن انتظامیہ نے اس سوال کی تحقیقات کا حکم جاری کیا ہے کہ میدانِ جنگ میں نجی ٹھیکیداروں کے استعمال سے جنگی اخراجات میں کس قدر اضافہ ہوا؟ اور بے مصرف اخراجات کس قدر ہوئے ؟ بظاہر رپورٹ بنے کی ضرور مگر دفتری کارروائی کا منہ بھرنے کے لیے۔اس کے بعد اگلی جنگ تک سب ہنسی خوشی رہنے لگیں گے۔جب حالیہ جنگوں سے کمائی گئی رقم ایک تہائی رہ جائے گی تو پھر کسی نہ کسی بہانے ایک اور جنگ رچائی جائے گی۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔