معصوم ملزم

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 8 جنوری 2022
barq@email.com

[email protected]

ایک بڑا مشہور اور پرانا لطیفہ ہے کہ ایک شخص بندوق لیے ایک اورشخص کوغصے میں لال پیلا ہوکرڈھونڈ رہا تھا، اس کی کیفیت دیکھ کر کسی نے پوچھاکیوں خیریت تو ہے۔ بولا اسے گولی مارنا چاہتا ہوں۔ دوسرے نے وجہ پوچھی، اس نے مجھے گینڈا کہا ہے۔ پوچھنے والے نے پوچھا کب؟ تو بولا دوسال پہلے۔ اگلے نے کہا کہ اس نے تہمیں دوسال پہلے گینڈا کہا ہے اورغصہ تمہیں آج آیا ہے؟ بولا کیوں کہ میں نے آج ہی گینڈے کو دیکھا ہے۔

ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ماجرا ہوا ہے کافی عرصہ پہلے سے ہم ہراسگی، ہراسمنٹ اور ہراسانی کے مختلف کیسز غیر ملکی اخباروں میں پڑھ رہے ہیں، ان میں سے ایک غیر ملکی محترمہ معززہ محصومہ عفیفہ نے ایک دوست پر ’’می ٹو‘‘یعنی ہراسگی اینڈ ہراسانی اینڈ ہراسمنٹ کا دعویٰ دائر کیا تھا حالاں کہ ہمیں لفظ ہراسانی میں کچھ ایسا دست اندازی قانون دکھائی نہیں دیتاکیوں کہ لغات میں ’’ہراسانی ‘‘ کے معنی ڈرانے کے بنتے ہیں لیکن پھر اچانک اس لفظ نے نہ صرف ’’جرم‘‘ کی حیثیت اختیار کرلی بلکہ اپنا ایک باقاعدہ ’’خاندان‘‘ بھی پیدا کرلیا۔ ہراساں،ہراسانی،ہراسگی،ہراسمنٹ ،ہراسیت، ہراسالوجی بلکہ خودکو انگریزی میں بھی ڈال کر ’’می ٹو‘‘ کر لیا۔

خیروہ تو اپنی جگہ ایک قصہ ہے جو پبلسٹی اور ایڈورٹائزنگ اورمشہوری یا مشہوری بذریعہ رسوائی کے زمرے میں آتاہے ہم اس مخصوص اورشاید اس سلسلے کے پہلے واقعے یامقدمے کاذکر کرنا چاہتے ہیں جسے ’’ڈفلی ‘‘ کا نام ہم نے دیا ہے اوربالکل صحیح دیاہے۔ تو اس ’’ڈفلی‘‘ کیس کی جو غیر ملکی ہیروئن تھی بلکہ ہے شاید اس سلسلہ می ٹوکی پہلی میاں مٹھو بھی تھی اسے ہم نے ایک البم میں دیکھ لیا تولگا جیسے ۔

دل کی آنکھوں نے میری اپنا صنم دیکھ لیا

اب اسی در پہ میرے دم کو نکل جانے دو

ان تمام مقدمات میں ہمیں بیچارے ملزموں پر بہت ترس آیا، اپنے آپ کو اچھاخاصا ملامت کیا ورنہ اگر ہالی ووڈ کا کرایہ آڑے نہ آتا تو ہمارا تو یہاں تک ارادہ تھا کہ جاکر ان بدقماشوں کی خوب گوشمالی کریں کہ انھوں نے ان عصمت مآب، عزت مآب، حیامآب، پاک و پاکیزہ عفیفہ کو بری نیت سے کیوں دیکھا یا چھیڑا۔

لیکن اب تمام بلکہ ایک ایک ’’ویکٹم‘‘کودیکھ کر ایسا لگا کہ وہ بیچارے تو بڑے نیک بچے تھے یا ہیں جنھوں نے صرف ہراسانی یاہراسمنٹ تک خود کومحدود رکھا ورنہ اگرہم اس عفیفہ کواگر بالمشافہ دیکھتے تو اس بڑھاپے میں بھی نہ جانے کیا… بلکہ کیاکیاکربیٹھتے کہ سامنے چیز ہی ایسی تھی جو تصویرمیں شمشیربرہنہ لگتی تھی ۔یہاں پر ہمیں ایک پرانا چائے والا یاد آتا ہے اس کے ہوٹل کے سامنے ایک سرائے تھی،پشاورمیں ’’سرائے‘‘ان جگہوں کوبھی کہتے ہیں جہاں ایک چاردیواری کے اندربہت سارے چھوٹے چھوٹے گھرہوتے ہیں اوران میں کم کرائے پرغریب لوگ رہتے ہیں۔

اس سرائے میں ایک عورت رہتی تھی جس کانام تو کوئی اورتھا لیکن مشہور  ’’دھماکا‘‘ کے نام سے تھی وہ زیادہ باہرآس پاس رہاکرتی تھی اوربات بات پر ہرکسی کوسینگ مارنے پرتیار رہتی تھی چھوٹے قد کی تھی لیکن بلاکی حسین اورکشش رکھتی تھی۔

ایک دن اس ہوٹل والے نے ہم سے کہا ،منشی صیب وہ ہرپڑھے لکھے کومنشی صیب کہتاتھا چاہے وہ کوئی پی ایچ ڈی پروفیسر ہی ہو ۔بولا منشی صیب ۔آپ نے اس دھماکے کوغورسے دیکھا ہے ہم نے کہا نہیں کوئی خاص نہیں،جواب میں اس نے کہا ’’اپنا سب کچھ‘‘ آنکھوں میں لیے پھرتی ہے،’’سب کچھ ‘‘کی جگہ اس نے ایک اورلفظ استعمال کیاتھالیکن وہ لفظ اتنا ’’بے وضو‘‘ ہے کہ ہم اس کے استعمال کاچارہ اپنے آپ میں نہیں پاتے اس لیے ’’باوضو‘‘ کرکے ’’سب کچھ‘‘ کر دیا اور ہم نے اس کے ’’توجہ دلاؤ‘‘ نوٹس کے بعد دھماکے کو دیکھا تو واقعی وہ اپنا سب کچھ یعنی اپنا سارا اثاثہ آنکھوں میں سجائے پھرتی تھی ۔

ظاہرکی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی

ہے دیکھنا تو دیدہ دل واکرے کوئی

ہم نے بھی ایک ایک عفیفہ اورسرتاپا ’’دھماکا‘‘ کو البم میں دیکھا اوردیدہ دل واکرکے دیکھا تو بیچارے ہر ملزم پرترس آیا،اوربہت پشیمان ہوئے کہ ہم نے ان کے بارے میں کیاکیااورکتنا کتنا برا برا سوچا تھا حالاں کہ وہ بالکل بے قصورتھے، مجبورتھے، مظلوم تھے بلکہ اب سوچ رہے ہیں کہ وہ تو اچھے خاصے پارسے ہیں جو اتنے بڑے دھماکے کے سامنے ٹھہرکر صرف ہراسگی تک محدود رہے جب ہم جیسے بوڑھے کے… صرف تصویر دیکھ کر سارے طوطے بٹیراڑ سکتے ہیں جو بقول مرشد

گوہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے

رہنے دو ابھی ساغر ومینا مرے آگے

اورہم یہی کر بھی رہے ہیں، موبائل میں باربار اس گانے کودیکھ رہے ہیں،گھر والے بھی حیران ہیں کہ یہ ہمیں کیاہوگیا کہ ہروقت بس ایک ہی گانا سن رہے ہیں، ان کوکیاپتہ کہ ہم گانا ’’سن‘‘ نہیں رہے ’’دیکھ‘‘ رہے ہیں اورگانا بھی صرف ایک مصرعے پر مبنی ہے کہ ،

ہوں دیکھنے کی چیزمجھے بار باردیکھ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔