بلدیاتی نظام کے تسلسل کو یقینی بنانے کیلئے نئے ایکٹ میں قانونی تحفظ دیا جا رہا ہے!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 10 جنوری 2022
 پنجاب میں 22 مارچ تک حلقہ بندیاں مکمل ہوجائیں گی، مئی کے پہلے ہفتے میں جماعتی بنیادوں پر مرحلہ وار بلدیاتی انتخابات ہوں گے ۔ فوٹو : فائل

 پنجاب میں 22 مارچ تک حلقہ بندیاں مکمل ہوجائیں گی، مئی کے پہلے ہفتے میں جماعتی بنیادوں پر مرحلہ وار بلدیاتی انتخابات ہوں گے ۔ فوٹو : فائل

بلدیاتی نظام کو جمہوریت کی نرسری اور ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے۔

اس نظام میں نچلی سطح تک مالی، سیاسی اور انتظامی اختیارات منتقل کیے جاتے ہیں تاکہ عوامی مسائل مقامی سطح پر حل کیے جاسکیں۔ صوبے مرحلہ وار بلدیاتی انتخابات کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ پنجاب میں نیا بلدیاتی ایکٹ تیار کیا جارہا ہے جو اس وقت پنجاب اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی میں موجود ہے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ بندیوں کی تکمیل کے بعد امید ہے کہ مئی میں پنجاب کے بلدیاتی انتخابات ہونگے۔ بلدیاتی نظام کے حوالے سے صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، ماہرین اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

میاں محمود الرشید
(صوبائی وزیر بلدیات پنجاب )

31 دسمبر 2021ء کو ختم ہونے والا گزشتہ حکومت کا قائم کردہ بلدیاتی نظام نمائشی تھا جس میں اختیارات بلدیاتی نمائندوں کے بجائے بیوروکریسی کے پاس تھے اور منتخب نمائندوں کو محض لالی پاپ دیکر بلدیاتی نظام کی خانہ پوری کی گئی۔ ہماری حکومت مضبوط اور بااختیار بلدیاتی اداروں کی حامی ہے۔

ہم جو بلدیاتی ایکٹ لارہے ہیں اس میں پنجاب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مقامی حکومتیں، بلدیاتی ادارے اور نمائندے صحیح معنوں میں بااختیار ہونگے ۔ اس ایکٹ میں بیورو کریسی کے اختیارات کم کیے جا رہے ہیں جبکہ بلدیاتی اداروں کو آئین کے آرٹیکل 140 (A) کے مطابق سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات دیے جا رہے ہیں لہٰذا جب بلدیاتی ادارے اور نمائندے بااختیار ہوں گے تو لوگوں کے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔

اس ایکٹ کے مطابق جماعتی بنیادوں پر اور براہ راست انتخابات ہوں گے۔ اس سے سیاسی نظام مضبوط ہوگا۔ میئر اور ڈپٹی میئر کے براہ راست انتخاب سے ووٹ کی خرید و فروخت ختم ہوجائے گی اور نظام کو شفاف بنانا ممکن ہوسکے گا۔ ضلعی سطح پر اسمبلیاں بنیں گی، سپیکر کا چناؤ ہوگا، کابینہ اور کمیٹیوں کی تشکیل ہوگی۔ ضلعی اسمبلیوں میں ٹیکنوکریٹ، تاجر، خواتین، نوجوان و دیگر کو بھی شامل کیا گیا ہے، پہلی مرتبہ خصوصی افراد بھی اس کا لازمی حصہ ہونگے۔ ضلعی اسمبلی میں خواتین کی نشستیں 2 کر دی گئی ہیں، اگر 12 وزیر ہوں گے تو ان میں کم از کم 2 خواتین ہوں گی۔

اسی طرح ویلیج کونسل کے نیچے ہر گاؤں میں پنچائیت کونسل بنائی جائے گی جسے ایکٹ میں خصوصی طور پر بااختیار بنایا جائے گا۔ پنچائیت کونسل کے پاس اپنے علاقے میں صفائی، سٹریٹ لائٹ، چوکیداری، مرکزی و صوبائی حکومتوں کے منصوبوں کی نگرانی، چھوٹے تنازعات حل کرنے جیسے اختیارا ت ہونگے۔ ایسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا، اس سے پولیس اور عدالتوں پر بوجھ کم ہوجائے گا اور چھوٹے مسائل مقامی سطح پر ہی حل کر لیے جائیں گے۔

نئے بلدیاتی نظام میں 9ڈویژنل ہیڈکوارٹرز اور 2  شہروں سیالکوٹ اور گجرات سمیت 11 میٹروپولیٹن کارپوریشنز بنائی جائیں گی۔ ڈویلپمنٹ اتھارٹی، واسا، پی ایچ اے، ویسٹ مینجمنٹ، پارکنگ جیسی اتھارٹیز میئر اور مقامی نمائندوں کے ماتحت ہونگی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ نظام کتنا طاقتور اور نمائندے کتنے بااختیار ہوں گے۔

ہم بلدیاتی انتخابات کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے اس پر کام ہورہا ہے، 22 مارچ تک پنجاب میں حلقہ بندیاں مکمل ہوجائیں گی جس کے بعد الیکشن شیڈول کا اعلان ہوگا۔ ماہ رمضان کے بعد مئی کے پہلے ہفتے میںجماعتی بنیادوں پر مرحلہ وار بلدیاتی انتخابات ہونگے جوکہ 3-4 مراحل میں ہوسکتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن پنجاب سے ہماری بات چیت ہوئی ہے۔ ہم نے بلدیاتی ایکٹ میں ’ای وی ایم‘ کے استعمال کو شامل کیا ہے کہ بلدیاتی انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ کے ذریعے ہونگے۔ اس حوالے سے سیکرٹری لوکل گورنمنٹ کی قیادت میں وفد نے مرکزی الیکشن کمیشن سے اسلام آباد میںملاقات کی ہے تاکہ الیکشن کو شفاف بنایا جاسکے۔

بلدیاتی الیکشن کے انعقاد اور الیکٹرانک ووٹنگ کے حوالے سے موثر لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔ پہلے ہماری حکومت بلدیاتی آرڈیننس لائی، پھر بلدیاتی ایکٹ بنایا گیا جو اس وقت پنجاب اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی میں موجود ہے۔ اپوزیشن کی خواہش تھی کہ وہ اس ایکٹ کو متفقہ طور پر منظور کرنا چاہتے ہیں لہٰذا ان کی خواہش پر سٹینڈگ کمیٹی کے ممبران کی تعداد 11 سے بڑھا کر 23 کردی گئی اور اس میں اپوزیشن نمائندے اور ماہرین شامل کیے گئے ہیں۔ اس کمیٹی میں اپوزیشن کی جانب سے تجاویز آئی ہیں، جن پر غور ہورہا ہے۔

ہم کھلے دل سے عوامی مفاد میں بہتر تجاویز کو اس ایکٹ میں شامل کریں گے، 2 سے 3ہفتوں میں فائنل کر کے جلد اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ مقامی حکومت کے خلاف تنازعہ یا کسی اور مسئلے کے حل کیلئے لوکل گورنمنٹ کمیشن بنایا جا رہا ہے جس میں حکومت اور اپوزیشن کے 2 ارکان اسمبلی اور 2 ماہرین ہونگے۔ یہ کمیشن مسئلے کا جائزہ لے کرانکوائری کرے گا اور پھر ایکشن کیلئے رپورٹ وزیراعلیٰ پنجاب کو بھیجی جائے گی۔ اب اس سسٹم کو ختم کرنا آسان نہیں ہوگا۔ بلدیاتی نظام کے تسلسل کو برقرار رکھنے کیلئے حکومت اور اپوزیشن کا اتفاق ہے کہ ایکٹ میں قانون تحفظ دیا جائے۔

ہم ایسی شق شامل کرنے جا رہے ہیں جس کے بعد کوئی بھی حکومت یہ نظام بلاوجہ ختم نہیں کرسکے گی اور اگرکسی وجہ کی بنیاد پر ایسا کیا گیا تو 90 روز میں نئے انتخابات ہونگے۔ہمارے ہاں ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ہر الیکشن سے پہلے نئی حلقہ بندیاں کی جاتی ہیں، جس سے ووٹر بھی کشمکش کا شکار ہوتا ہے اور نمائندوں کو بھی مسائل ہوتے ہیں۔

دنیا میں جہاں بھی مضبوط اور کامیاب بلدیاتی نظام ہے وہاں جلد سرحدیں تبدیل نہیں ہوتی، بعض جگہ تو 100 برس سے بھی زائد وقت ہوگیا ہے۔ اب ہم بلدیاتی ایکٹ میں حلقہ بندیوں کے حوالے سے بھی شق شامل کر نے جا رہے ہیں جس کے بعد 25 برس تک حلقہ بندیوں کو تبدیل نہیں کیا جاسکے گا۔

سلمان عابد
(دانشور )

بدقسمتی سے ہم ابھی تک گورننس کی بہتری کیلئے ایسا نظام نہیں لاسکے جو لوگوں کی توقع کے مطابق ہو۔ کسی بھی جماعت نے حکومت میں آنے کے بعد بلدیاتی اداروں کو آرٹیکل 140 ) A) کے تحت مالی، انتظامی اور سیاسی اختیارات دینے کی کوشش نہیں کی اور افسوس ہے کہ ملک کو تجربہ گاہ بنا دیا گیا۔

جنرل (ر) پرویز مشرف کا بلدیاتی نظام بہترین تھا، اگر اسی نظام کا تسلسل قائم رکھا جاتا تو 4-5 مرتبہ آنے سے خود بخود اس میں بہتری آجاتی۔ اس وقت ملک میں آدھی جمہوریت ہے، وفاقی اور صوبائی نظام تو قائم ہے مگر بلدیاتی نظام نہیں ہے۔ 18 ویں ترمیم سے صوبوں کو تو اختیارات مل گئے مگر وہ نچلی سطح پر اختیارات دینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ایم این ایز ، ایم پی ایز اور بیوروکریسی اس میں بڑی رکاوٹ ہے،وہ سمجھتے ہیں کہ اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہوگئے تو ان کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی، اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے،ہر ایک کو اپنا کام کرنا چاہیے۔

ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ایک جگہ سے امور حکومت چلانے کا ماڈل اب فائدہ مند نہیں رہا،اضلاع خود مختار ہونگے تو صوبے خودمختار ہونگے اور اسی طرح وفاق مضبوط ہوگا۔ 2013ء کے مقابلے میں 2021ء کا بلدیاتی نظام بہتر ہے، اس میں منتخب نمائندوں اور اداروں کو با اختیار بنایا گیا ہے، اتھارٹیاں ان کے ماتحت کر دی گئی ہیں، ڈسٹرکٹ کونسل، ویلیج کونسل، نیبر ہڈ کونسل کے اختیارات لکھ دیے گئے ہیں اور کمیونٹی کی شمولیت کو بھی خصوی طور پر رکھا گیا ہے جو خوش آئند ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ خصوصی افراد اور تاجروں کو بھی خصوصی طور پرنمائندگی دی گئی ہے جبکہ خواتین کی نشستوں کی تعداد میں بھی اضافہ کیا گیا ہے ۔ میئر اور ڈپٹی میئر کے براہ راست انتخاب سے اقربا پروری کا خاتمہ ہوگا، اس کے علاوہ جماعتی بنیادوں پر انتخاب کرانے سے بھی بہتری آئے گی، سیاسی نظام مضبوط ہوگا۔ صوبائی بجٹ کا 30 فیصد مقامی حکومتیں خرچ کریں گی، ویلیج اور نیبر ہڈ کونسل کو حکومت براہ راست فنڈز دے گی، وہ میئر کے مرہون منت نہیں ہونگے۔

60 فیصد براہ راست الیکشن سے جبکہ 40 فیصد نشستیں متناسب نمائندگی سے پر ہوگی، الیکشن کے وقت پورا پینل دینا ہوگا جس میں خاتون، کسان، تاجر، نوجوان و دیگر امیدوار ہونگے۔ اس ایکٹ کے تحت بہت ساری چیزیں بہتر ہوں گی ، دیکھنا یہ ہے کہ اسے کس حد تک موثر اور شفاف بنایا جائے گا۔  وفاق، صوبوں کے ساتھ مل کر بلدیاتی نظام کا بنیادی ڈھانچہ تشکیل دے جو تمام صوبوں میں یکساں ہو۔ بلدیاتی نظام میں مزید چیزیں شامل کرنے کیلئے صوبے خودمختار ہیں، وہ اس پر کام کر سکتے ہیں البتہ بنیادی ڈھانچے کی تشکیل کے حوالے سے پوچھ گچھ کا میکنزم بھی بنایا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بلدیاتی نظام کو آئینی تحفظ دیا جائے۔

آئین میںا س کا چیپٹر شامل کیا جائے، ہمسایہ ملک کے آئین سے اس حوالے سے مدد لی جاسکتی ہے۔ بلدیاتی نظام کے تسلسل کو برقرار رکھنے کیلئے  الیکشن کمیشن کو 90 روز میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا پابند کیا جائے، وفاقی حکومت کواس میں کردار دیا جائے کہ وہ صوبوں سے بلدیاتی نظام کے حوالے سے وضاحت طلب کر سکے ۔میری تجویز ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ ہی مقامی حکومتوں کے انتخابات کرائے جائیں، اگر ممکن نہیں تو نئی حکومت کی تشکیل کے 90 روز میں لازمی بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں تاکہ وفاقی، صوبائی اور بلدیاتی نظام کی مدت ایک ساتھ ختم ہو، بصورت دیگر بلدیاتی نظام کو مسائل رہیں گے۔

پروفیسر ارشد مرزا
(نمائندہ سول سوسائٹی )

نیا بلدیاتی ایکٹ ابھی قانون نہیں بنا بلکہ تکمیلی مراحل میں ہے جس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ 2021میں جب لوکل گورنمنٹ آرڈیننس آیا تو سول سوسائٹی نے اس پر درجنوں مباحثوں کا انعقاد کیا۔ ماہرین نے اس کا جائزہ لیا اور اپنی تجاویز  پیش کیں۔ پنجاب کا نیا مجوزہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ، پنجاب اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی میں موجود ہے، جو اس پر غور کر رہی ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

اپوزیشن اور ماہرین کی جانب سے اس پر تجاویز دی جا رہی ہیں لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اچھی اور قابل عمل تجاویز کو اس میں شامل کرے تاکہ اسے موثر بنایا جاسکے۔ بلدیاتی نظام کے حوالے سے ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ تسلسل کا نہ ہونا ہے۔ اس نظام کے تسلسل کو یقینی بنانے کیلئے قانونی تحفظ پر غور کرنا چاہیے۔ الیکشن کمیشن 120 دن میں بلدیاتی انتخابات کروانے کا پابند ہے البتہ ماہرین کی جانب سے بلدیاتی نظام کو آئینی تحفظ دے کر 90 روز میں انتخابات کرانے کا پابند کرنے کی تجویز اچھی ہے۔

اس پر لازمی کام ہونا چاہیے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ عام آدمی اور جنہوں نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینا ہے، انہیں ا س نظام کے بارے میں درست آگاہی نہیں ہے، عوام اور امیدوار دونوں ہی اس نظام سے واقف نہیں ہیں، انہیں اس کے جزیات کا علم نہیں ہے لہٰذا انہیں آگاہی دینے کیلئے وسیع پیمانے پر مہم چلائی جائے۔ہمارے ہاں ایک مسئلہ یہ ہے کہ ووٹ دیتے وقت لوگوں کی ترجیحات یہ نہیں ہوتی کہ ان کا امیدوار اپنی ذمہ داریوں،امور اور نظام کا کتنا سمجھتا ہے، کیا وہ اس کا اہل بھی ہے یا نہیں؟ لوگوں کے ووٹ کرنے کی ترجیحات کچھ اور ہوتی ہیں لہٰذا ہمیں انہیں یہ شعور دینا چاہیے کہ وہ ایسے نمائندے منتخب کریں جن میں ذمہ داریاں ادا کرنے کی صلاحیت ہو اور جو نظام کو سمجھتے ہوں۔

اس سے نظام اور ادارے مضبوط ہونگے لیکن اگر نمائندوں میں قابلیت یا اہلیت نہ ہو تو اس کا فائدہ بیوروکریسی کو ملتا ہے۔ہمیں منتخب نمائندوں کو بیوروکریسی کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہیے بلکہ ان کی صلاحیتوں پر اعتبار کرنا چاہیے مگر سوال یہ ہے کہ منتخب نمائندوں اور کونسلز و کمیٹی ممبران کی کپیسٹی بلڈنگ کون کے گا؟ انہیں ان کے فرائض کی آگاہی اور ادائیگی کیلئے تیار کون کرے گا؟ اس حوالے سے حکومت کا کیا لائحہ عمل ہے؟ اگر ہم چاہتے ہیں کہ بلدیاتی ادارے صحیح کام کریں اور یہ نظام مضبوط ہو تو ہمیں کپیسٹی بلڈنگ پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ ہم نے بلدیاتی نمائندوں کی تربیت کیلئے 2 سالہ منصوبہ بھی بنا لیا ہے، ان کی تربیت کی جائے گی۔ میرے نزدیک جب تک بلدیاتی ادارے خود مختار نہیں ہونگے تب تک مسائل رہیں گے۔

اختیارات کے ساتھ ساتھ احتساب کا نظام بھی لازمی ہونا چاہیے، اس حوالے سے بھی لوگوں کی تربیت کی جائے کہ وہ خود اپنے نمائندوں کا احتساب کریں۔ ایک بات قابل فکر ہے کہ ہمارے ہاں 1 کروڑ 25 لاکھ خواتین کے ووٹوں کا اندراج نہیں ہے۔ ووٹرز میں جینڈر گیپ بہت زیادہ ہے جسے کم کرنے کیلئے کریش پروگرام چلانا چاہیے جس میں خواتین کے شناختی کارڈز کا اجراع کیا جائے اور ان کے ووٹ رجسٹر کیے جائیں۔ ہم نے سیالکوٹ میں خواتین ووٹرز کی رجسٹریشن کرائی اور شناختی کارڈز بھی بنوائے ہیں۔ اب بھی ہم 40 سے زائد دیہات میں کام کر رہے ہیں۔

میاں نعیم جاوید
(سابق ضلعی ناظم)

بدقسمتی سے ملک میں شروع سے ہی بلدیاتی نظام کا تسلسل نہیں رہا اور حکومتیں ٹرائل کے طور پر اس نظام کوچلاتی رہی۔ وزیراعظم عمران خان پہلے دن سے ہی بلدیاتی نظام کے حامی اور اس کیلئے کوشش کرر ہے ہیں مگر ٹیم کے مسائل ہیں۔ اب بھی حکومت کی جانب سے جو ایکٹ بنایا گیا وہ کنسلٹنٹ نے بنایا ہے، اس میں کسی سابق ضلعی ناظم یا بلدیاتی نمائندے کو شامل نہیں کیا گیا۔مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کبھی بھی مضبوط بلدیاتی نظام نہیں چاہتی بلکہ وہ بیوروکریسی کے ذریعے عوام کو کنٹرول کرنے کی عادی ہیں۔

جنرل (ر) پرویز مشرف دور کا بلدیاتی نظام بہترین تھا، اگر اسے ہی ضروری تبدیلیوں کے ساتھ آگے بڑھایا جاتا تو بہتر ہوتا۔موجودہ حکومت کا تیار کردہ بلدیاتی ایکٹ بھی اچھا ہے،اس میں بلدیاتی نمائندوں اور اداروں کو بااختیار بنایاجا رہا ہے، براہ راست انتخاب ہوگا جس سے ووٹوں کی خرید و فروخت ختم ہوجائے گی۔ اس ایکٹ میں ایک بڑا مسئلہ ڈپٹی کمشنر کا لفظ ہے۔ بیوروکریسی اس حوالے سے اچھا کھیلی ہے جو حکومت کو سمجھ نہیں آیا۔

ایکٹ کے مطابق میئر، ڈپٹی میئر کے نیچے ’ڈی سی او‘ ہوگا یا پھر وہ کسی 18ویں گریڈ کے افسر کو اپنا نمائندہ مقرر کرے گا۔ میرے نزدیک نمائندہ مقرر کرکے وہ خود اپنی چودھراہٹ قائم رکھے گا اور یہ تاثر دے گا کہ وہ بلدیاتی نمائندوں کے ماتحت نہیں ہے لہٰذا جب تک کمشنر، ڈپٹی کمشنر کا لفظ رہے گا تب تک بلدیاتی نظام مضبوط نہیں ہوسکتا، اسے تبدیل کرکے ’سی ای او‘ یا پھر ماضی کی طرح ’ڈسٹرکٹ کوارڈینیشن آفیسر‘ کر دیا جائے،ا س سے بہتری آجائے گی۔

ضلع اور تحصیل ناظم ایک ہی ڈسٹرکٹ کونسل میں بیٹھتے تو بہتر ہوتا مگر اس میں ایسا نہیں ہے جس سے مسائل حل کرنے میں ایشوز آسکتے ہیں۔ ماضی میں نیشنل ری کنسیلیشن بیورو ہوتا تھا جس میں مسائل سنے اور حل کیے جاتے تھے، اب بھی وہ قائم کرنا چاہیے تاکہ مسائل حل کیے جاسکیں۔ ایکٹ بن جانے کے بعد اصل مسئلہ تو یہ ہوتا ہے کہ اس کے فوائد کس طرح نچلی سطح تک پہنچانے ہیں اور اس پر عملدرآمد کیسے کرنا ہے۔اس کیلئے منتخب نمائندوں کو صحیح معنوں میں بااختیار کیا جائے۔ نئے بلدیاتی ایکٹ میں تعلیم، صحت، کھیل، ماحول اور سوشل ویلفیئر کو بلدیاتی اداروں کے ماتحت کیاہے جبکہ زراعت، ریونیو، لینڈ ریونیو، پٹواری جیسے اہم شعبے دائرہ کار میں نہیں ہیں۔

یہ کس طرح کی ایمپاورمنٹ ہے؟پہلے سٹیزن کمیونٹی بورڈ ہوتا تھا جس میں مقامی مسائل حل ہوجاتے تھے مگر اسے ختم کر دیا گیا۔ نئے بلدیاتی نظام میں کمیونٹی کی شمولیت پر توجہ نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہر حکومت نئے تجربات کرتی ہے، ماضی کے اچھے کام کو آگے نہیں بڑھایا جاتا البتہ اب وزیر بلدیات نے مقامی حکومتوں کے نظام کے تسلسل کو قائم رکھنے کیلئے قانونی تحفظ اورآرٹیکل 140(A) کے تحت اختیارات دینے کی بات کی ہے جو خوش آئند ہے، تحریک انصاف ایسا نظام لانے کی کوشش کر رہی ہے جو صحیح معنوں میں لوگوں کو فائدہ دے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔