اہل مری کی بے حسی اور پیسے کی ہوس 

مزمل سہروردی  منگل 11 جنوری 2022
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

سانحہ مری میں حکومت کی کتنی ذمے داری ہے۔ انتظامیہ کی کتنی ذمے داری ہے اس پر بہت بات ہو چکی ہے۔کئی ناقدین تو طنز کر رہے ہیں کہ جب علیمہ خان کی مبینہ جائیداد اور کاروبار کا معاملہ اپوزیشن نے اٹھایا تھا تب تو انھیں بچانے کے لیے حکومت متحرک ہو گئی تھی لیکن مری میں معصوم شہریوں پر قیامت ٹوٹی تو انھیں بچانے کے لیے ویسے متحرک نظر نہیں آئی۔

یہ دو نہیں ایک پاکستان کا نعرہ لگانے والی حکومت سے اس بارے میں سوال نہ کیا جائے تو کیا کیا جائے۔ بہر حال سانحہ مری کے بعد حکو مت کافی متحرک نظر آئی ہے۔کافی فیصلے بھی نظر آئے ہیں۔امید ہے ان فیصلوں کے اچھے نتائج بھی سامنے آئیں گے اور دوبارہ ایسا سانحہ نہیں ہوگا۔

میں اس وقت اس کالم میں حکومت پر تنقید نہیں لکھنا چاہتا کیونکہ ہر پہلو سے تنقید ہو گئی ہے۔ اب میں جو بھی تنقید لکھوں گا وہ دہرانا ہی ہوگا۔نئی تنقید کیا لکھی جا سکتی ہے۔ بہرحال قصور مقامی انتظامیہ کا ہے اور کٹہرے میں ساری حکومت کھڑی نظر آرہی ہے۔ یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ یہی جمہوریت کی طاقت ہے۔

تاہم میں سمجھتا ہوں کہ اہل مری کا اجتماعی رویہ بھی بہت افسوسناک ہے۔اس پر زیادہ بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اہل مری اس قدر بے حسی نہ ظاہر کرتے توشاید پھر بھی اس سانحہ سے بچا جا سکتا تھا۔ اہل مری کی بے حسی کی جو داستانیں سامنے آرہی ہیں وہ کسی انسان دوست قوم کی نہیں ہو سکتیں۔ پیسے کے لالچ نے اہل مری کو انسان سے حیوان بنا دیا ہے۔

پیسے کے چکر میں اہل مری بنیادی انسانی اخلاقیات سے بھی عاری ہو گئے ہیں۔ وہ لاشوں سے پیسے نوچنے کی کوشش کرتے نظر آئے ہیں۔ انھوں نے لوگوں کی بے بسی اور مجبوریوں کا جس طرح فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ افسوس کی  بات یہ ہے کہ انھیں اس پر شرمندگی بھی نہیں ہے۔ وہ اس کی بیہودہ قسم کی توجیہات پیش کر رہے ہیں۔

پچاس ہزار کا کمرہ پانچ سو روپے کا انڈہ اور ایک ہزار کا چائے کے کپ کا کیسے دفاع کیا جا سکتا ہے۔ پھنسی گاڑیوں کو دھکا لگانے کے پیسے بٹورنا کونسی انسانیت ہے۔ اس میں کسی حکومت کا کوئی قصور نہیں۔ یہ بتاتا ہے کہ اتنے سالوں میں اہل مری کا اجتماعی ضمیر مردہ ہو گیا ہے۔ وہ انسانوں کو اے ٹی ایم مشینوں کی طرح دیکھتے ہیں۔ ان کی کھال سے بھی پیسے نچوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پیسے کمانے کے لیے ان کے کوئی اصول نہیں رہے۔

سیاحوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک پورے پاکستان کے لیے افسوسناک ہے۔اہل مری نے اپنے پاکستانی بھائیوں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے ایسا سلوک تو لوگ دشمنوں کے ساتھ بھی نہیں کرتے۔ جنگی قیدیوں کے ساتھ بھی ایسا سلوک نہیں کیا جاتا۔ جنگی قیدیوں کے ساتھ سلوک کے بھی کوئی عالمی قوانین موجود ہیں۔اہل مری تو ایسی قوم لگے ہیں جو مجبور لوگوں سے ان کی مجبوریوں کے عوض اپنی خوشیاں اور خوشحالی خریدنے کی کوشش کر رہے تھے۔

یہ درست ہے کہ سیزن میں ریٹ اوپر جاتے ہیں۔ دنیا کے تمام مہذب ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ دنیا کے تمام سیاحتی مراکز میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ لیکن ریٹس کے اوپر اور نیچے جانے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم کیا ہو سکتا ہے۔ اسی طرح کھانے پینے کی چیزوں کے ریٹس میں اس طرح اتار چڑھائو تو کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آتا۔ ریسٹورنٹس کے ریٹس تو ایک ہی ہوتے ہیں۔ جب مرضی چلے جائیں۔

یہ اہل مری نے کونسی نئی سائنس چلائی ہے جہاں کھانے پینے کی چیزوں کے ریٹس کو لوگوں کی مجبوریوں اور بے کسی کے حساب سے اوپر نیچے کیا جاتا ہے۔ لوگ جتنے مجبور ریٹ اتنے زیادہ مجبوری جتنی کم ریٹ اتنے کم۔ یہ کیا کاروبار ہے یہ تو انسانی مجبوریوں کا کاروبار ہے۔

یہ بھی درست ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ ریٹس کو ریگولیٹ کرے۔ کھانے پینے کی چیزوں کے ریٹس کو ریگولیٹ کرنا حکومت کا کام ہے۔ کھلی چھٹی کیسے دی جا سکتی ہے۔ غیر معیاری کھانا بھی مری کی خاص پہچان بن چکا ہے۔اہل مری اتنے سالوں میں مری میں اچھے ریسٹورنٹس بھی نہیں بنا سکے ہیں۔ سڑک چھاپ ہوٹل مری کی پہچان بن چکے ہیں۔ کہنے کو مال روڈ ہے لیکن ایک بھی اچھا ریسٹورنٹ نہیں۔ریٹ فائیو اسٹار اور سہولیات سڑک چھاپ یہی مری برانڈ ہے۔

لوگ موسم کی وجہ سے جانے پر مجبور ہیں ورنہ اہل مری نے تو مری میں ایسا کچھ نہیں بنایا جس کو دیکھنے جایا جا سکے۔ آج بھی لوگ جا کر عملی طور پر بور ہی ہوتے ہیں۔ اہل مری نے مری کے لیے کچھ نہیں کیا۔ بس پیسے کمائے ہیں اور کم تر سہولیات کے ساتھ زیادہ پیسے کمانے کا مری ایک بہترین ماڈل بنا ہے۔ اسی لیے عالمی سیاحوں کو کبھی اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکے۔ کیا سوال اہم نہیں کہ مری کبھی عالمی سیاحوں کا مرکز کیوں نہیں بن سکا۔

یہ درست ہے کہ ہو ٹل مالکان کو اپنے ہوٹل کے کمروں کے ریٹ مقرر کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ یہی مارکیٹ اکانومی ہے۔ جس کی چیز ہے اس کی مرضی وہ جتنی مرضی کے بیچے۔ لیکن ہر چیز کی کوئی حد ہوتی ہے۔ یہ شتر بے مہار آزادی نے سیاحوں کے حقوق  بھی متاثر کیے ہیں۔ اگر ہوٹل مالکان کے حقوق ہیں تو سیاحوں کے حقوق بھی ہیں۔ یہ حکومت کا کام ہے زیادہ سے ریٹس کا تعین کرے۔ حکومت کا کام ہے ریگولیٹر کے طور پر کام کرے۔

حکومت نے عوام اور کاروباری افراد دونوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔ اسی لیے حکومت کو ریگولیٹر کہا جاتا ہے۔ لیکن اتنے سالوں میں حکومت مری میں ہوٹل کرایوں کو ریگولیٹ کرنے کا کوئی نظام نہیں بنا سکی۔ وہی پرانے ہوٹل وہی پرانے کمرے۔ وہی گندے بستر اور منہ مانگے دام۔ کیوں ہم مری میں بھی اچھے ہوٹل نہیں بنا سکے۔

مری کے عوام کی اخلاقیات کہاں گئی ہیں۔ ماضی میں بھی ایسے واقعات سامنے آئے ہیں۔ جہاں اہل مری نے سیاحوں کے ساتھ برا سلوک کیا ہے اور سوشل میڈیا پر اس پر بہت احتجاج ہوا۔

آپ اندازہ لگائیں لوگ سڑکوں پر مر رہے تھے اور اہل مری اپنی مدد کا ریٹ لگا رہے تھے۔ لوگ پانی مانگ رہے تھے اور وہ پانی نہ صرف بیچ بلکہ مہنگے داموں بیچ رہے تھے۔ لوگ سردی سے مر رہے تھے اوروہ اپنے گھروں میں پیسے گن رہے تھے۔کیا یہ پاکستان ہے۔ کیا ہم مسلمان ہے۔ کیا یہ حقوق العباد ہیں۔ افسوس در افسوس۔

میں سمجھتا ہوں حکومت کو مری میں سیاحت پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ جب تک مری کے کاروباری طبقات کے نمایندے اور وہاں سے منتخب ہونے والے سیاستدان معافی نہیں مانگتے جب تک مری میں سیاحوں کے حقوق کا کوئی روڈ میپ تیار نہیں ہو جاتا۔ تب تک مری میں سیاحت بند ہونی چاہیے۔ اہل مری کو سیاحوں کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا۔ ویسے تو اہل پاکستان سے بھی میری اپیل ہے کہ وہ بھی مری سے باز آجائیں۔

حکومت کو چاہیے کہ ایسے تمام ہوٹل جنھوں نے کرایوں میں غلط اضافہ کیا ان کے ہوٹل سیل کرے۔ ایسے ریسٹورنٹس جنھوں نے لوگوں کی مجبوریاں منہ مانگے دام خریدی ہیں ان کو بھی سیل کرنا چاہیے۔ ان پر مقدمات قائم کرنے چاہیے۔ ہمیں لوگوں کو احساس دلانا ہوگا کہ ایسے نہیں چلنے دیا جائے گا۔ ہمیں اپنی قوم کی اخلاقی تربیت بھی کرنی ہوگی۔ پیسے کی ہوس نے اس قوم کو پاگل بنا دیا ہے اور پاگل پن میں ہم نے ایک دوسرے کا خون پینا شروع کر دیا ہے۔ ہمیں اب کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم خود ہی ایک دوسرے کا خون پینے کے لیے کافی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔