سانحات کی ٹرافی

سالار سلیمان  بدھ 12 جنوری 2022
سانحہ مری ہماری معاشرتی، سماجی اور حکومتی بے حسی اور نااہلی کی ٹرافی ہے۔ (فوٹو: فائل)

سانحہ مری ہماری معاشرتی، سماجی اور حکومتی بے حسی اور نااہلی کی ٹرافی ہے۔ (فوٹو: فائل)

ہمارے قومی المیوں میں سے ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جب بھی کوئی سانحہ ہوتا ہے، ہم فوری طور پر اس کے گرد دھول اڑاتے ہیں، جس میں افواہی تجزیہ نگاری بھی ہوتی ہے اور سانحے کے اصل محرکات کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اب جب کہ سانحہ مری پر بہت کچھ لکھا اور کہا جاچکا ہے، میری کوشش ہے کہ چند نکات پر ٹو دی پوائنٹ بات کی جاسکے تاکہ یہ علم ہوجائے کہ سانحہ ہوا کیوں تھا؟ اگر وجہ سمجھ آگئی اور احساس ذمے داری رہا تو شاید سانحہ سے بچ بھی جائیں۔

سب سے پہلے حکومتی طرز عمل دیکھیے۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری ایک ٹویٹ کرکے اس بات پر اظہار مسرت کرتے ہیں کہ مری میں ایک لاکھ گاڑیاں پہنچ چکی ہیں۔ مجھے پہلے لگا کہ کسی نے ٹویٹ کو ایڈٹ کیا ہے ورنہ یہ تو خطرے کی گھنٹی نہیں بلکہ پورا بگل بج چکا ہے۔ پھر یہ شخص کیسے خوشی منا سکتا ہے؟ لیکن کراس چیک سے ویریفائی ہوا کہ ٹویٹ موصوف کی ہی ہے۔ میں نے ماتھا پیٹ لیا کہ وہ تحصیل جہاں زیادہ سے زیادہ چالیس ہزار گاڑیاں صاف موسم میں جاسکتی ہیں، یعنی برفباری میں زیادہ سے زیادہ پچیس ہزار گاڑیاں جاسکتی ہیں، وہاں ایک لاکھ گاڑی یعنی اوسطاً کوئی چار لاکھ بندہ پہنچ چکا ہے اور یہ خوشیاں منا رہے ہیں؟ انہیں یہ سمجھ ہی نہیں ہے کہ سانحہ کی ریڈ لائن کراس ہوچکی ہے۔

مری میں سڑکیں 60 فٹ چوڑی نہیں ہیں، یہ 20 فٹ یا 30 فٹ چوڑی ہیں اور جب برف پڑتی ہے تو دونوں اطراف کی 5 سے 7 فٹ سڑک تو برف میں ڈھک جاتی ہے۔ یعنی آدھی سڑک برف میں ڈھکی ہوتی ہے اور باقی آدھی سے گاڑیوں نے آنا اور جانا ہوتا ہے۔ اور یہ باقی سڑک اتنی ہی ہوتی ہے کہ اگر گاڑیاں گزرنے کی کوشش کریں تو بالکل آہستہ سے گزریں گی تاکہ ایک گاڑی دوسرے کی گاڑی کو نہ لگے اور یہ اسپیڈ بہت زیادہ بھی ہو تو 10 سے 15 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار ہوگی۔ اگر ایک لاکھ گاڑیاں مری میں موجود ہیں اور ہم یہ فرض کرلیں کہ اس میں سے 75 ہزار گاڑیوں نے واپسی کا سفر کرنا تھا تو بھی یہ کم از کم 62 کلومیٹر کا راستہ ہے جس میں سے پہاڑی راستہ کوئی 55 کلومیٹر کے لگ بھگ تو ہے۔ اب آپ خود حساب لگالیجئے کہ سفر بالکل سیدھا بھی ہو، تو بھی کم از کم 4 سے 5 گھنٹے لگ جائیں گے اور یہ بھی اس صورت میں ہوگا جب راستہ سیدھا اور سڑکیں ٹھیک ہوں۔ لیکن اگر اوور ٹیکنگ ہوگی یا برفباری بڑھ جائے گی یا راستہ کسی بھی وجہ سے بند ہوجائے گا تو تاحد نگاہ صرف گاڑیاں ہی گاڑیاں ہوں گی، جہاں سے نہ آگے جانے کی گنجائش ہوگی اور نہ ہی پیچھے جانے کا کوئی امکان ہوگا اور سب لوگ پھنس جائیں گے۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔

اس کے بعد رات ہوئی تو گاڑیوں میں گیس بھرنے کی وجہ سے لوگوں کی اموات بھی ہوئیں اور یہ وہ خبر تھی جس نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ جب گاڑی میں اے سی ہیٹر آن ہوتا ہے تو اس سے کاربن مونو آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے جو کہ بے بو اور بے ذائقہ گیس ہے۔ برفباری کی وجہ سے ایگزاسٹ پائپس بند ہوئے اور اس گیس نے پہلے گاڑی میں موجود افراد کے حواس کو ختم کیا اور پھر غنودگی سے بے ہوشی اور بالآخر موت پر اختتام ہوا۔

اس خبر نے انٹرنیشنل میڈیا میں بھی جگہ پائی۔ تاہم، یہاں بھی حکومتی رویہ انتہائی قابل مذمت ہے۔

پہلے ایک حد سے زیادہ لوگوں کو چھوٹی سی جگہ میں جانے دیا اور اس تحصیل کی اکانومی کی ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کو 180 کے زاویے پر موڑ دیا۔ اس کے بعد کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں، کوئی سرکاری گائیڈ نہیں اور جب لوگ مر گئے تو سب جاگ گئے اور جو پہلے کریڈٹ لے رہے تھے وہی لوگوں کو کوسنے لگ گئے کہ وہ اس برفباری میں پہاڑی مقامات پر کیوں گئے؟

آئندہ قوم کو بھی احتیاط کرنی چاہیے کہ پاکستان میں برفباری دیکھنے کےلیے نہیں جانا بلکہ انٹرنیٹ پر دیکھنی ہے اور اگر جانا بھی ہے تو جون، جولائی میں برفباری دیکھنے جانا ہے جب ان علاقوں میں برفباری ںہیں ہوتی ہے۔ یہاں ہمارے آئی جی لیول کے شخص کا یہ حال ہے کہ وہ اس حوالے سے ٹویٹ کرتا ہے اور پھر اس کو دندان شکن جواب ملتا ہے۔ میں کوشش کرتا رہا کہ کسی بھی طرح سے معلوم ہوجائے کہ حکومت کی اس حوالے سے کیا تیاری تھی لیکن مجھے کوئی تسلی بخش جواب کسی بھی ادارے کی طرف سے نہیں ملا بلکہ اُلٹا بلیم گیم ہی تھا کہ یہ کام ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں تھا اور وہ کام فلاں ادارے کا تھا وغیرہ وغیرہ۔

دنیا بھر کے جن علاقوں میں برفباری ہوتی ہے، وہاں اس کو کلیئر کرنے کے سستے سے مہنگے ترین طریقے بھی موجود ہوتے ہیں۔ لیکن مری میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ بجائے اس کے کہ برفباری کی اطلاعات موجود تھیں تو بروقت مشینری پہنچائی جاتی تاکہ راستے کلیئر ہوسکیں، ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ جس کے بعد مری کا مرکزی داخلی و خارجی راستہ بلاک ہوگیا۔ یہاں سے انسانی المیہ جنم لیتا ہے۔ جہاں پر زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ افراد کو ہونا چاہیے وہاں پر کم از کم چار لاکھ سے زیادہ لوگ موجود تھے، جس نے طلب و رسد کا قانون گھما دیا اور جو ہوٹل کا کمرہ 10 ہزار میں دستیاب ہوسکتا تھا وہ 30 سے 40 ہزار میں مل رہا تھا۔ جو لے سکتے تھے، وہ ٹھہر گئے اور باقی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ گئے۔ اس کے بعد اشیائے خورونوش بھی ناقابل برداشت قیمت میں دستیاب تھیں۔

رپورٹس کے مطابق وہاں 30 سے 40 روپے کی پانی کی بوتل 5 سو روپے میں فروخت ہورہی تھی۔ اب صورتحال یہ تھی کہ باہر برف کا طوفان تھا، رہنے کےلیے جگہ نہیں اور لوگ گاڑیوں میں دبکے بیٹھے ہیں۔ کیا حکومت کو نہیں چاہیے تھا کہ وہ مری میں اپنی پوری مشینری استعمال کرتی؟ کیا مری کے کارپوریٹ قصائیوں کو نہیں چاہیے تھا کہ وہ کرائے ناقابل برداشت حد تک نہ بڑھاتے؟ کیا حکومت کا کام پرائس کنٹرول نہیں ہوتا ہے؟

بعد از سانحہ تو سب ہی ایکٹیو ہوئے تھے۔ الخدمت فاؤنڈیشن سمیت دیگر ادارے اور مقامی افراد امداد لے کر پہنچ گئے تھے، ریسکیو کا کام بھی شروع ہوا تھا لیکن قبل از سانحہ حکومت کی اور مقامی سطح پر کوئی ایسی پلاننگ نہیں تھی جس سے کہ اس سانحے کو روکنے کا کوئی امکان بھی ہوتا۔

اب رپورٹس میں جو مرضی لکھ لیجئے، ذمے داری ٹوٹی ہوئی سڑکوں اور پارکنگ پلازہ کی عدم موجودگی کو دے دیں یا مقامی کارپوریٹ قصائیوں کی بے حسی کو دے دیں لیکن آخری بات یہ ہے کہ اگر گورننس کا یہ حال ہے تو انٹرنیشنل ٹورازم تو چھوڑیے، ہماری مقامی ٹورازم بھی ختم ہوجائے گی۔

مری کے علاوہ بھی ایسے ہل پوائنٹس ہیں جہاں برفباری دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ منہ اٹھا کر مری جایا جائے۔ ہوٹل کا کرایہ 10 کے بجائے 15 بھی لیا جاسکتا تھا، یہ لازمی نہیں کہ 40 سے 50 ہزار کرایہ کر دیا جائے اور لوگ آپ کے سامنے سڑکوں پر پھنسے ہوں اور انسانیت کا جنازہ آپ کی آنکھوں کے سامنے اٹھایا جائے۔ یہ بھی لازمی نہیں کہ سانحہ ہوجائے تو ہی ریاستی مشینری حرکت میں آئے۔ چیف منسٹر ایک دورہ چھوڑ کر دس دورے کریں، وہ ایک پارکنگ پلازہ چھوڑ کر دس بنا دیں، وہ مری کو ضلع کے بجائے شہر کا درجہ دینے کی بات کریں، وہ سڑکوں کو ٹھیک کریں یا نہ کریں لیکن سوال پھر وہی ہے کہ ہمیں چیزوں کو ٹھیک کرنے کےلیے ہر مرتبہ سانحہ کا انتظار کیوں رہتا ہے؟ ہم سانحات سے بچنے کی تیاری کیوں نہیں کرتے ہیں؟ ہم کیوں لاشیں اٹھا کر سیکھنا چاہتے ہیں؟ ہم کب ذمے داری محسوس کریں گے؟

سانحہ مری ہماری معاشرتی، سماجی اور حکومتی بے حسی اور نااہلی کی ٹرافی ہے۔ کوئی اس ٹرافی کو ایوان وزیراعظم میں پہنچا دے جہاں ایسی دیگر ٹرافیاں پہلے ہی موجود ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔