کرکٹ بہتری کی راہ پر گامزن ہوئی،اتھلیٹس نے دل جیتے

عباس رضا  اتوار 16 جنوری 2022
 دیگر کھیلوں کے زوال کا سفر جاری رہا
فوٹو : فائل

 دیگر کھیلوں کے زوال کا سفر جاری رہا فوٹو : فائل

رواں سال شروع ہونے سے قبل ہی پاکستان ٹیم نیوزی لینڈ میں سخت ترین قرنطینہ کے دن گزار کر سیریز کھیل رہی تھی۔

اس دوران گرین شرٹس پہلے دونوں ٹی ٹوئنٹی میچز ہارنے کے بعد تیسرے میں فتح یاب ہوئے تھے،مختصر فارمیٹ میں اچھے مقابلے ہوئے مگر ٹیسٹ میں پاکستان کی بیٹنگ لائن مشکلات کا شکار نظر آئی تو بولرز بھی مقامی کنڈیشنز کا فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے۔

فواد عالم، فہیم اشرف اور محمد رضوان بیٹنگ کو سہارا دیتے رہے،دوسرے ٹیسٹ میں میزبان کپتان کین ولیمسن کی ڈبل سنچری نے مقابلہ یکطرفہ بنادیا اور اننگز سے شکست ہوئی،جنوری میں ہی پاکستان نے انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے سفر میں ایک اہم سنگ میل عبور کیا،طویل عرصہ بعد جنوبی افریقہ جیسی بڑی ٹیم نے دورہ کیا۔

گرین کیپس نے پہلے ٹیسٹ میں پروٹیز کو اسپن جال میں الجھایا،فواد عالم کی سنچری بھی کام آئی،دوسرے ٹیسٹ میں فتح کے ساتھ پاکستان نے کلین سوئپ مکمل کیا،حسن علی کی میچ میں10وکٹوں اور محمد رضوان کی تھری فیگر اننگز، بابر اعظم اور فہیم اشرف کی ففٹیز کا اہم کردار رہا،لاہور میں کھیلے جانے والے 3ٹی ٹوئنٹی میچز میں سے پہلا پاکستان، دوسرا جنوبی افریقہ نے جیتا، تیسرے میں فتح کے ساتھ میزبان ٹیم نے سیریز اپنے نام کرلی،محمد رضوان کا بیٹ خوب چلا،انہوں نے ایک سنچری بھی بنائی۔

پی ایس ایل 6کا میلہ پاکستان میں سجانے کا فیصلہ کیا گیا مگر کھلاڑیوں میں کورونا کیسز سامنے آنے پر 4مارچ کو ایونٹ ملتوی کردیا گیا تو صرف14میچز ہی ہوسکے تھے، بعد ازاں دوبارہ شیڈول کیلئے مختلف تاریخوں اور وینیوز پر غور کیا گیا،جون میں ایونٹ یواے ای میں مکمل کرنے کا حتمی فیصلہ کیا گیا تو قرنطینہ سمیت مقامی حکومت کی سخت پابندیوں کی وجہ سے لاجسٹک مسائل سامنے آئے۔

بالآخر آخری لمحات میں معاملات طے پاگئے اور پہلے مرحلے میں زیادہ بہتر کارکردگی نہ پیش کرنے والی ٹیم ملتان سلطانز نے حیران کن فتوحات حاصل کرتے ہوئے فائنل میں پشاور زلمی کو زیر کرکے پہلی بار ٹائٹل پر قبضہ بھی جمالیا،پوائنٹس ٹیبل پر سرفہرست اسلام آباد یونائیٹڈ کوالیفائر میں ملتان سلطانز اور ایلمنیٹر ٹو میں پشاور زلمی سے مات کھاگئی،اس سے قبل ایلمنیٹر ون میں پشاور زلمی نے کراچی کا کنگز کا قصہ تمام کیا،بابر اعظم، محمد رضوان، صہیب مقصود،شعیب ملک اور شرجیل خان ٹاپ 5بیٹسمین جبکہ بولرز میں شاہنواز دھانی، وہاب ریاض،شاہین شاہ آفریدی،جیمز فالکنر اور عمران طاہر سرفہرست رہے۔

اس دوران اپریل میں پاکستان ٹیم نے جنوبی افریقہ کا رخ کیا تو چند میزبان سینئر کرکٹرز نے آئی پی ایل میں شرکت کیلئے سیریز ادھوری چھوڑنے کا فیصلہ کیا،پہلا ون ڈے پاکستان، دوسرا جنوبی افریقہ، تیسرا گرین شرٹس نے جیتا،فخرزمان نے 193کی میراتھن اننگز سمیت 2جبکہ بابر اعظم نے ایک سنچری بنائی،اینرچ نورکیا نے مہمان بیٹنگ لائن کو پریشان کیا، حارث رؤف پاکستان کی جانب سے زیادہ کامیاب بولر رہے، 4ٹی ٹوئنٹی میچز میں پاکستان نے 3، پروٹیز نے صرف دوسرے میچ میں فتح پائی،بابر اعظم ایک سنچری سمیت ٹاپ اسکورر رہے۔

محمد رضوان اور فخرزمان کا بیٹ بھی خوب چلا، حسن علی، فہیم اشرف اور محمد نواز کے میچ وننگ اسپیل دیکھنے کا ملے۔ جنوبی افریقہ سے پاکستان ٹیم ہرارے پہنچی،گرین شرٹس نے 3ٹی ٹوئنٹی میچز کی سیریز تو جیت لی مگر دوسرے مقابلے میں اپ سیٹ شکست کا سامنا بھی کرنا پڑا،محمد رضوان نے 2ففٹیز بنائیں،تیسرے ٹی ٹوئنٹی میں تباہ کن بولنگ کرنے والے حسن علی مین آف دی میچ رہے، پہلے ٹیسٹ میں فواد عالم کی سنچری، دوسرے میں عابد علی کی ڈبل سنچری یاد گار رہی، پیسرز اور اسپنرز کی عمدہ بولنگ نے بھی دونوں میچز میں اننگز سے فتح میں اہم کردار ادا کیا۔

جولائی میں دورہ انگلینڈ کی ون ڈے سیریز مایوس کن رہی،کورونا کیسز کی وجہ سے پورا میزبان اسکواڈ ہی تبدیل کرنا پڑا لیکن راتوں رات تشکیل پانے والی ٹیم نے بھی گرین شرٹس کو کلین سوئپ کردیا، پہلے دونوں میچز میں پاکستانی بیٹنگ استحکام کو ترستی رہی،تیسرے میں بابر اعظم کے 158رنز کی مدد سے بڑا مجموعہ حاصل کیا بھی تو بولرز دفاع نہ کرسکے،گرین شرٹس ٹی ٹوئنٹی سیریز کا پہلا میچ جیتنے کے بعد اگلے دونوں ہار گئے، بابر اعظم اور محمد رضوان کی فارم برقرار رہی مگر مڈل آرڈر کے مسائل ختم نہ ہوئے۔

ثاقب محمود نے ون ڈے سیریز کی طرح مختصر فارمیٹ میں بھی مشکلات پیدا کیں۔ انگلینڈ سے ویسٹ انڈیز جانے والی پاکستان ٹیم کا بارشوں سے استبال کیا، 4ٹی ٹوئنٹی میچز میں سے صرف دوسرا میچ مکمل ہوسکا جس میں فتح کے ساتھ گرین شرٹس نے سیریز بھی جیت لی،پہلے ٹیسٹ میں سنسنی خیز مقابلے کے بعد کیریبیئنز نے ایک وکٹ سے کامیابی حاصل کی، شاہین شاہ آفریدی کی 8وکٹیں کسی کام نہ آئیں،دوسرے لواسکورننگ میچ میں فواد عالم کی سنچری نے پاکستان کو حوصلہ دیا، شاہین شاہ آفریدی کی میچ میں 10وکٹوں کی بدولت مہمان ٹیم نے 109رنز سے فتح پائی۔

ویسٹ انڈیز میں 3ٹی ٹوئنٹی میچز بارش کی نذر کی وجہ سے پاکستان کی یواے ای میں شیڈول ورلڈکپ کی تیاریاں متاثر ہوئیں،اس صورتحال میں توقع کی جارہی تھی کہ نیوزی لینڈ کیخلاف ہوم سیریز میں وائٹ بال مقابلوں نے درست کمبی نیشن تشکیل دینے میں مدد ملے گی،کیویز نے پاکستان آمد کے بعد پنڈی اسٹیڈیم میں پریکٹس سیشن بھی کئے مگر پہلا ون ڈے میچ شروع ہونے سے قبل اسکیورٹی خدشات کو جواز بناکر کھیلنے سے انکار کردیا۔

نیوزی لینڈ کی جانب سے ٹیم واپس بلائے جانے کے بعد انگلینڈ نے بھی ٹور نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا،نومنتخب چیئرمین رمیز راجہ کو آتے ہی گھمبیر صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، بہرحال انہوں نے انٹرنیشنل سطح پر پاکستان کی جانب سے سخت احتجاج ریکارڈ کروایا،منتخب قومی اسکواڈ کو میگا ایونٹ کی تیاریوں کا موقع پی ایس ایل میں ملا، دبئی میں کھیلے جانے والے میچز میں کارکردگی کی بنیاد پر چند تبدیلیاں بھی ہوئیں،ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں گرین شرٹس نئے روپ میں سامنے آئے،تاریخ میں پہلی بار کسی ورلڈکپ میں بھارت کو زیر کرنے سمیت تمام 5گروپ میچز جیت کر سیمی فائنل میں جگہ بنائی مگر آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست نے ٹائٹل کے خواب چکنا چور کردیئے،بابر اعظم اور محمد رضوان کے بیٹ رنز اگلتے رہے۔

آصف علی کی پاور ہٹنگ نے شائقین کے دل جیتے، شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف اور شاداب خان نے بولنگ میں دھاک بٹھائی، حسن علی فارم کا مظاہرہ نہیں کرسکے، سیمی فائنل میں کیچ ڈراپ کرنے پر بھی سخت تنقید کی زد میں آئے۔

دورہ بنگلہ دیش میں پاکستان نے مشکل کنڈیشنز میں بھی میزبان ٹیم کو 3-0سے کلین سوئپ کیا،بابر اعظم فارم کے متلاشی رہے، دیگر بیٹرز میں سے کوئی نہ کوئی چیلنج لیتا رہا،ٹیسٹ سیریز میں عابد علی،عبداللہ شفیق شاہین شاہ آفریدی اور حسن علی کی عمدہ کارکردگی کی بدولت پاکستان نے کلین سوئپ مکمل کیا، بارش زدہ دوسرے ٹیسٹ میں گرین کیپس نے آخری روز میزبان ٹیم کی ریکارڈ 13وکٹیں اڑاکر حیران کن کامیابی حاصل کی، گرین شرٹس نے ویسٹ انڈین ٹیم کو کراچی میں تینوں میچز میں زیر کیا، تیسرے میچ میں پاکستان نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا 208 رنز کا ہدف حاصل کیا، محمد رضوان ٹاپ اسکورر رہے۔

وسیم جونیئر نے 8وکٹوں کے ساتھ انٹرنیشنل کرکٹ میں قدم جمائے،کیریبیئنز اسکواڈ میں6کرکٹرز سمیت 9افراد کے کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد ون ڈے سیریز ملتوی کرنا پڑی، مجموعی طور 2021میں محمد رضوان کا ستارہ خوب جگمگایا، انہوں نے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں سال میں ایک ہزار رنز مکمل کرنے والے پہلے بیٹر کا اعزاز حاصل کیا، سب سے بہتر 73.66 کی اوسط سے 1326رنزاسکور کئے، 12ففٹیز کے ساتھ سب کو پیچھے چھوڑا، وکٹوں کے پیچھے سب سے زیادہ 22کیچ بھی تھامے،دوسرے نمبر پر بابر اعظم نے 939رنز بنائے،دونوں نے 6سنچری شراکتوں سمیت کئی عالمی ریکارڈ بھی توڑ ڈالے۔احسان مانی کی جگہ پی سی بی کی کمان سنبھالنے والے رمیز راجہ نے کرکٹ میں بہتری کیلئے انقلابی اقدامات کا عزم ظاہر کیا، ڈومیسٹک کرکٹ کی تنخواہوں میں یکمشت ایک لاکھ روپے فی کس اضافہ بھی کیا گیا، کرکٹ میں پیسہ لانے کیلئے بھی کوشاں رہے،ڈراپ ان پچز کیلئے ایک معروف کاروباری شخصیت سے معاونت بھی حاصل کی۔

ٹوکیو اولمپکس میں پاکستان کا 10رکنی دستہ شریک ہوا، کوئی میڈل تو ہاتھ نہیں آیا مگر 3اتھلیٹس نے یہ امید ضروری دلائی کہ اگر دیگر کھیلوں پر بھی توجہ دی جائے تو میڈلز حاصل کئے جاسکتے ہیں،جولین تھرو ایونٹ میں ٹاپ اتھلیٹس کی موجودگی میں ارشد ندیم نے 5 ویں پوزیشن حاصل کرکے پاکستانیوں کے دل جیت لئے، ایک عرصہ بعد کرکٹ کے سوا کسی کھیل کیلئے شائقین اپنے ٹی وی سیٹس پر نظریں جمائے دیکھے گئے، ارشد ندیم نے ابتدائی راؤنڈ میں 85.16 میٹرز دور نیزہ پھینک کر گروپ ’’بی‘‘ میں پہلی پوزیشن پر رہے، 12 اتھلیٹس میں چوتھے نمبر پر رہتے ہوئے فائنل 8 میں جگہ بنائی

پہلی تھرومیں 82.40 میٹرزدور نیزہ پھینک کراچھا آغاز کیا، دوسری میں وہ فاؤل ہوا، تیسری تھرو 84.62 میٹرز، چوتھی82.91 میٹرز گئی، پانچویں میں 81.98 میٹرز تک ہی تھرو کر سکے، آخری باری میں فاؤل کر بیٹھے، یوں پاکستان 1992 کے بعد پہلی بار اولمپک میڈل نہ جیت سکا، بھارت کے نیرج چوپڑہ نے 87.58 ، چیک ری پبلک کے جیکب واڈیچ86.67 اور ہم وطن ویٹزلوف ویسلے85.44 میٹرز کے ساتھ ٹاپ تھری،جرمنی کے جولین ویبر 85.30 میٹرز کی تھرو کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہے۔

بہرحال میاں چنوں کے نواحی گاؤں سے تعلق رکھنے والے ارشد ندیم نے اولمپک کے ایتھلیٹکس ایونٹ کے فائنل راؤنڈ میں رسائی پانے والے پہلے پاکستانیکا اعزاز حاصل کیا، ویٹ لفٹنگ میں طلحٰہ طالب نے متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا،نوجوان اتھلیٹ میڈل کے بہت قریب آگئے تھے مگر معمولی فرق سے پیچھے رہنے کی وجہ سے ان کو پانچویں پوزیشن پر اکتفا کرنا پڑا، دونوں اتھلیٹس اسٹار بن کر ابھرے،نوجوانوں کی لئے مثال بھی بنے۔

ٹوکیو پیرالمپکس میں حیدر علی نے نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے پاکستان کے لیے پہلا گولڈ میڈل حاصل کیا،مردوں کے ڈسکس تھرو مقابلے میں پانچویں باری میں 55.26 میٹر فاصلے کے ساتھ سب حریفوں کو پچھاڑنے میں کامیاب ہوگئے۔

یوکرین کے مائیکولا زابنیاک(52.43) میٹر تھرو کے ساتھ سلور جبکہ برازیل کے جو وِکٹر ٹیکزیرا ڈی سوزا (51.86)نے برانز میڈل اپنے نام کیا،حیدر علی نے بیجنگ گیمز 2008 کے لانگ جمپ مقابلے میں چاندی اور 2016 ریوگیمز میں کانسی کا میڈل جیتا تھا، جسمانی معذوری کو روگ بنانے کے بجائے ملک کیلئے اعزاز حاصل کرنے والے ایتھلیٹ کی اس کاوش کو ملک بھر میں سراہا گیا، وسائل کی کمی کا شکار حیدر علی گیمز میں شرکت کیلئے ٹکٹ کو ترس رہے تھے، آخری دنوں میں پنجاب کے وزیر کھیل رائے تیمور بھٹی نے سفری انتظامات کروائے،میڈل حاصل ہونے کے بعد کریڈٹ حاصل کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔

زبانی جمع خرچ تو بہت ہوا مگر ہاکی زوال کی جانب گامزن رہی،قومی کھیل کا نوجوانوں میں مقبولیت کا گراف مزید نیچے آگیا، قومی ہاکی ٹیم اولمپک کیلئے تو کوالیفائی نہیں کرسکی تھی،ڈھاکا میں کھیلی جانے والی ایشین چیمپئنز ٹرافی میں صرف بنگلہ دیش کیخلاف فتح پانے والے گرین شرٹس نے گرتے پڑتے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی مگر جنوبی کوریا نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد 6-5سے شکست دیدی،گزشتہ ایڈیشن میں بھارت کے ساتھ مشترکہ چیمپئن قرار پانے والے پاکستان کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ ٹیم اس ٹورنامنٹ کے فائنل تک رسائی پانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔

ماضی میں گرین شرٹس پانچوں ایونٹس کے فیصلہ کن میچ کھیلے اور 3 بار ٹائٹل بھی جیتا، کورونا کا زور ٹوٹنے پر دیگر کھیلوں میں سرگرمیاں بہتر ہوئیں مگر پاکستانی کھلاڑی انٹرنیشنل سطح پر کامیابیوں کو ترستے رہے، حکومتی سطح پر کھیلوں کے فروغ کیلئے بڑے منصوبوں کا اعلان کیا گیا مگر دوسری جانب حقیقت یہ تھی فیفا کی نامزد نارملائزیشن کمیٹی کو لاہور میں فٹبال ہاؤس سے بے دخل کئے جانے کے بعد پاکستان کی رکنیت معطل ہوئی مگر ارباب اختیار کوئی حل نہ تلاش نہ کرپائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔