انسانی جسم میں خنزیر کا دل... آخر کیوں؟

سہیل یوسف  ہفتہ 15 جنوری 2022
ڈیوبینٹ خنزیر کے دل کی پیوندکاری کے بعد مسرور ہیں۔ (فوٹو: فائل)

ڈیوبینٹ خنزیر کے دل کی پیوندکاری کے بعد مسرور ہیں۔ (فوٹو: فائل)

گزشتہ ہفتے 57 سالہ امریکی ڈیو بینٹ کو خنزیر کا دل لگانے کے خبریں دنیا بھر کی شہ سرخیوں میں شامل رہیں۔ اس پیش رفت کے بعد کئی لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ آخر خنزیروں میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ اس حرام جانور سے ہم اپنے جسمانی اعضا بطور فاضل پرزے لے سکتے ہیں؟

اس بحث پر روشنی سے قبل کیوں نہ پہلے پورے واقعے کا ایک مختصر جائزہ لے لیا جائے۔ امریکی شخص ڈیو بینٹ مکمل ہارٹ فیل کی طرف بڑھ رہے تھے۔ یعنی ان کا دل اتنا کمزور ہوچکا تھا کہ ہر روز خون پمپ کرنے کی قوت کھو رہا تھا۔ وہ لاکھوں امریکیوں کی طرح دل کے انسانی عطیے کے منتظر تھے اور اس انتطار میں جہاں روزانہ 20 امریکی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، وہیں یہ مرحلہ ان پر بھی آسکتا تھا۔

اس لیے بسترِ مرگ پر موجود بینٹ سے کہا گیا کہ ایک دن یا مزید کچھ روز بعد وہ موت کے شکار ہوسکتے ہیں۔ اسی لیے آخری حربے کے طور پر ایک تجرباتی عمل کے تحت ان میں ایک ایسے خنزیر کا قلب لگایا گیا جس کے بعض جین جان بوجھ کر ایک پیچیدہ عمل کے تحت تبدیل کیے گئے تھے۔

یہ خنزیر ایک بایوٹیکنالوجی کمپنی ’’ریواوی کور‘‘ کی تجربہ گاہ میں تیار کیا گیا تھا اور اس کا دل لے کر گھنٹوں طویل آپریشن کے بعد جامعہ میری لینڈ کے اسکول آف میڈیسن سے وابستہ سائنسداں ڈاکٹر محمد محی الدین اور ان کے رفقاء نے پیوند کیا۔ ڈاکٹر محی الدین پاکستانی نژاد امریکی سائنس داں ہیں جو کئی عشروں سے جانوروں کے اعضا انسانوں میں لگانے پر تحقیق کررہے ہیں۔

جب جسم ہی عضو کا دشمن ہوجائے

ہمارا عام مشاہدہ ہے کہ بالخصوص گردے کے عطیے کے بعد بھی مریضوں کو عمر بھر دوائیں کھانا پڑتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے جسم کا اندرونی دفاعی نظام اسے اجنبی قرار دے کر ’’مسترد‘‘ کردیتا ہے جسے امیون ریجیکشن (امنیاتی استرداد) کہا جاتا ہے۔ اس ردِعمل کو روکنے کےلیے مریض کو روزانہ دوا لینی پڑتی ہے۔ بسا اوقات یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ محض ایک ہی گروپ کا خون مریض کو لگایا جائے تو وہ پیچیدگیوں اور الرجی کے شکار ہوجاتے ہیں۔

واضح رہے کہ یہ کوئی عام سؤر نہیں بلکہ ریواوی کور نے خنزیر کے لاکھ جین میں سے دس جین تبدیل کیے ہیں تاکہ ڈیو بینٹ کا بدن اسے دوست اور ’’اپنا‘‘ سمجھ کر قبول کرلے۔ واضح رہے کہ آپریشن کے بعد مریض زندہ ہے اور دھیمی آواز میں بات بھی کررہا ہے تاہم ڈاکٹر انہیں لمحہ بہ لمحہ دیکھتے رہتے ہیں۔

زینوٹرانسپلانٹیشن

یہ عمل زینوٹرانسپلانٹیشن کہلاتا ہے جس میں کسی جانور بالخصوص خنزیر کے اعضا کو انسانوں میں امراض دور کرنے کےلیے تیار کیا جاتا ہے۔ زینوٹرانسپلانٹیشن کی تاریخ بہت پرانی ہے اور 1960 میں بندروں کے گردے اور دل انسانوں میں لگانے کے تجربات کیے گئے جو بہت کامیاب نہیں ہوسکے تھے۔

اس کے برعکس، خنزیر کے اعضا کو جینیاتی طور پر تبدیل کرنا بہت آسان ہوتا ہے جبکہ ایک خنزیر اپنی نشوونما (بڑھوتری) کے بعد چھ ماہ میں بالغ ہوجاتا ہے۔ اس سے قبل اکتوبر 2021 میں امریکی سائنسداں ڈاکٹر رابرٹ منٹگمری نے جینیاتی تبدیل شدہ سؤر میں انسانوں سے مماثل گردہ تیار کرکے اس کا کامیاب تجربہ کیا تھا جس سے زینوٹرانسپلانٹیشن کی راہ مزید وسیع ہوئی ہے۔ اسی کامیابی کے بعد اس سال انسانوں میں خنزیر کے دل کی انسانی منتقلی کا کامیاب تجربہ کیا گیا ہے۔

اس سے قبل خنزیروں سے ٹشوز اور دل کے والو لے کر بھی انسانوں پرآزمائے گئے ہیں اور ان کے امید افزا نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ اس طرح دیگر جانداروں کے مقابلے میں خنزیر انسانی فاضل جسمانی اعضا کے بہترین امیدوار ثابت ہوسکتے ہیں۔

تاہم ڈیو بینٹ کا معاملہ قدرے پیچیدہ ہے اور وہ ایک تجرباتی نوعیت کا آپریشن بھی ہے۔ اگر بینٹ کی زندگی اور معمولات بہتر ہوتے ہیں تو یہ انسانی کارنامہ ہوگا۔ اس سے قبل ہم خنزیروں سے لبلبے کے خلیات بھی لے چکے ہیں جن سے ذیابیطس کے دیرینہ روگ پر قابو کرنے میں مدد مل سکے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سہیل یوسف

سہیل یوسف

سہیل یوسف سائنسی صحافی اور کئی کتابوں کے مترجم ہیں۔ وہ ویڈیو، سلائیڈ شو میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس وقت ایک اشاعتی ادارے سے وابستہ ہیں۔ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔