معاہدہ ڈیورنڈ لائن1893

جمیل مرغز  جمعـء 14 جنوری 2022
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

سرکاری میڈیا خاموش ہے لیکن سوشل میڈیا پر مسلسل خبریں اور وڈیوز آرہی ہیں کہ افغانستان کے حکمران طالبان کی طرف سے ڈیورنڈ لائن(پاک افغان سرحد) پر سیکیورٹی کے لیے نصب خاردار تاروں کو مسلح طالبان اکھاڑ رہے ہیں۔

افغان طالبان کی طرف سے ایسے بیانات سامنے آئے ہیں کہ وہ اس سرحد کو تسلیم نہیں کرتے ‘پاکستان کی حکومت کا دعویٰ تھا کہ طالبان کے آنے سے ہماری شمالی سرحد محفوظ ہوگئی ہے ‘اسی لیے اب وہ اس اہم مسئلے کو عوام سے چھپانا چاہتی ہے جب کہ طالبان نے دوبارہ ڈیورنڈ لائن کا تنازعہ کھڑا کردیا ہے۔ یہ تنازعہ ہر افغان حکومت اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے استعمال کرتی چلی آئی ہے ‘اس لیے ضروری ہے کہ ڈیورنڈ لائن معاہدے کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے اس کا تفصیلی جائزہ لیا جائے۔

موجودہ کالم میں افغانستان کے سربراہ  عبدالرحمان خان اور برطانوی حکومت کے نمایندے سرہنری مورٹیمیر ڈیورنڈکے درمیان (12 NOV 1893)کو طے پانے والے معاہدے کا متن انگریزی سے ترجمہ کیا ہے کوئی غلطی ہو جائے تو اس کے لیے پیشگی معذرت چاہتا ہوں۔ ’’چونکہ ہندوستان کی طرف افغانستان کی سرحد کے بارے میں کچھ تنازعات پیدا ہوئے ہیں اور ہز ہائی نس امیر آف افغانستان اور گورنمنٹ آف انڈیا کی خواہش ہے کہ ان کو باہمی طور پر دوستانہ انداز میں حل کیا جائے اور دونوں طرف باہمی رضامندی سے اپنے اپنے دائرہ اثر (respective sphere of influence)کے حدود کا تعین کریں‘یہ اس لیے ضروری ہے کہ مستقبل میں اس بارے میں کوئی اختلاف پیدا نہ ہو ‘فریقین کے درمیان مندرجہ ذیل امور پر اتفاق رائے پیدا ہوا۔

(1)۔اس معاہدے کے ساتھ جو نقشہ لف ہے‘ اس میں کھینچی ہوئی لائن کے ذریعے واخان سے لے کر ایران تک امیر افغانستان کی حکومت کے مشرقی اور جنوبی حدود کو ظاہر کیا گیا ہے۔(2)۔حکومت ہندوستان کسی حالت میں بھی اس لائن کے پار افغانستان کے علاقوںمیں مداخلت نہیں کرے گی اور اسی طرح امیر افغانستان کی حکومت کسی بھی حالت میں لائن کے پار ہندوستان کے علاقوں میں مداخلت نہیں کرے گی۔ (3) ۔ برطانوی حکومت نے امیر افغانستان کے ساتھ اس بات پر اتفاق کر لیا ہے کہ وہ اسمار اور اس کے اوپر چانک (Chanak)تک وادی کو اپنے قبضے میں رکھے۔

اس کے بدلے میں امیر صاحب نے اس امر سے اتفاق کرلیا کہ وہ کبھی بھی سوات ‘باجوڑ اور چترال بشمول ارناوائی یا بشغال وادی میں مداخلت نہیں کرے گا‘ برطانوی حکومت اس بات پر بھی راضی ہوئی کہ امیر  صاحب کے قبضے میں برمال ٹریک بھی دے دے‘ جس کو امیر صاحب کو دیے گئے نقشے میں واضح کردیا گیا ہے۔اس طرح امیر افغانستان باقی ماندہ وزیری اور داوڑ علاقوں پر اپنے حق سے دستبردار ہوگئے ہیں۔ امیر صاحب چاغی سے بھی دستبردار ہوگئے ہیں۔ (4)تفصیلی سرحدی لائن اور حد بندی برطانوی اور افغانی مشترکہ کمیشن کے ذریعے جہاں ممکن ہو‘ کی جائے گی ۔

س حد بندی کا مقصد باہمی اعتماد کے ساتھ ایک ایسی سرحد کا تعین کرنا ہوگا ‘جو معاہدے کے ساتھ لف نقشے پر کھینچی ہوئی لکیر کے قریب ترین سطح تک صحیح ہو‘اس حد بندی میں یہ خیال رکھا جائے گا کہ سرحد کے ساتھ بسنے والے دیہا تیوں کے مقامی حقوق کا خیال رکھا جائے۔ (5)۔جہاں تک چمن کا تعلق ہے تو امیر افغانستان نے وہاں پر تعمیر کردہ نئی برطانوی چھاؤنی کے متعلق اپنا اعتراض واپس لے لیا ہے‘وہ سرکئی تریلائی پانی (Sirkai Tilerai water) میں خریدے گئے اپنے حقوق سے انگریزی سرکار کے حق میں دستبردار ہوگئے ہیں۔

سرحد کے اس علاقے میں لائن اس طریقے سے کھینچی جائے گی کہ ’’پاشا کوتل کے نزدیک خواجہ امران پہاڑوں کی چوٹی (جو برطانوی حکومت کا علاقہ ہے) سے لائن اس طرح جائے گی کہ مرغاچمن اور شروبو کا چشمہ افغانستان کا حصہ رہیں‘یہ لائن نیو چمن قلعے اور افغان آؤٹ پوسٹ جو مقامی طور پر لشکر ڈھنڈ کہلاتی ہے کے درمیان سے گزرے گی ‘یہ لائن پھر ریلوے سٹیشن اور میاں بولدک کی پہاڑی کے درمیان سے گزرتی ہوئی‘ جنوب کی طرف مڑ کر گواشا پوسٹ کو برطانوی علاقے میں چھوڑتے ہوئے خواجہ ارمان رینج کے ساتھ مل جائے گی ‘اس طرح مغرب میں شوراوک کو جانے والی سڑک اور گواشا کا جنوب افغانستان کے پاس رہ جائے گا‘برطانوی حکومت اس سڑک کے ایک میل کے اندر کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔

(6) ۔اوپر دیے گئے معاہدے کے آرٹیکل‘ حکومت برطانیہ اور امیر افغانستان کے خیال میں ایک مکمل اور اطمینان بخش حل ہے‘ ان تمام بنیادی اختلافی مسائل کاجو سرحد کے متعلق ان کے درمیان پیدا ہوئے تھے۔ امیر افغانستان اور برطانوی حکومت یہ عہد کرتے ہیں کہ تفصیلات کے متعلق اگر کوئی اختلاف ہو تو وہ دونوں طرف سے سرحد کے تعین کے لیے مقرر کردہ افسران دوستانہ طریقے سے حل کریں گے ‘تاکہ جہاں تک ممکن ہو دونوں حکومتوں کے درمیان مستقبل میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کی وجوہات کو ختم کیا جا سکے۔

(7)۔چونکہ برطانوی حکومت امیر افغانستان کی طرف سے برطانوی حکومت کے لیے نیک خواہشات سے پوری طرح مطمئن ہے اوراس کی خواہش ہے کہ افغانستان ایک آزاد اور مضبوط ملک رہے‘ افغانستان کے امیر کی طرف سے اسلحہ کی خریداری اور درآمد پرحکومت انڈیا کوئی اعتراض نہیں کرے گی بلکہ وہ اس سلسلے میں خود بھی افغانستان کی مدد کرے گی‘ امیر افغانستان کی طرف سے سرحدی معاہدے کے متعلق مذاکرات میں نیک نیتی سے حصہ لینے کے عوض حکومت برطانیہ اپنی دوستانہ جذبات کا اظہار کرتے ہوئے امیر افغانستان کو دی جانے والی 12لاکھ سالانہ وظیفے میں6لاکھ روپے سالانہ کا اضافہ کرتی ہے۔

13نومبر1893 کو امیر افغانستان نے دربار منعقد کیا‘ جس میں ان کے دو بیٹوں کے علاوہ مختلف قبائل کے سرداروں اور کابل میں موجود اعلیٰ سول اور فوجی افسروں نے شرکت کی اس موقعہ پر امیر نے معاہدے کے بارے میں بتایا‘انھوں نے اس موقع پر سر مارٹیمور ڈیورنڈ اور مشن کے دوسرے ممبران کا خوش اسلوبی سے سرحدی تنازعہ حل کرنے پر شکریہ ادا کیا‘اس موقع پر سر ڈیورنڈ نے بھی خطاب کیا اور اس معاہدے پر وائسرائے اور سیکریٹری آف اسٹیٹ برائے انڈیا کی طرف سے امیر کا شکریہ ادا کیا‘دربار میں موجود زعماء نے معاہدے کی منظوری دی اورافغانستان و برطانوی حکومت کے درمیان دوستی پر خوشی کا اظہار کیا۔

مشن کے ارکان 14نومبر 1893کو کابل سے روانہ ہوئے، معاہدے کے مطابق دونوں اطراف نے سرحدوں کے تعین کے لیے مشترکہ کمیشنوں کی تشکیل کی ‘کمیشنوں نے 1894/1895کے دوران دو سال تک کام کیا‘انھوں نے چترال سے لے کر ایران کی سرحد تک حدبندی کی اور صرف ان مقامات پر سرحدی ستون تعمیر کیے ‘جن پر دونوں فریقوں کا اتفاق تھا اور جہاں حد بندی ممکن تھی۔اس سرحدی لائن کو ’’ڈیورنڈ لائن‘‘ کہتے ہیں جو اس وقت سے لے کر آج تک برٹش انڈیا اور اب پاکستان کے ساتھ افغانستان کی سرحد ہے ۔

امیر عبدالرحمان کے بعد ان کے بیٹے امیر حبیب اللہ خان نے اس معاہدے پر اعتراض کیا، اس کی وجہ بھی قوم پرستی نہیں بھی بلکہ یہ تھی کہ برطانوی حکومت نے وعدے کے مطابق 6لاکھ کی رقم نہیں دی تھی ‘امیر امان اللہ خان نے بھی اعتراضات کے بعد نیا معاہدہ کیا تھا ‘ان سب کے باوجود ڈیورنڈ لائن اپنی جگہ پر قائم رہی‘ اب جب افغانستان کی حکومت اعتراض کرتی ہے تو  حکومت پاکستان کا موقف بھی پڑھیے۔ محمد مشتاق  جدون صوبہ سرحد کے داخلہ اور قبائلی امور کے سابقہ ڈپٹی سیکریٹری نے کہا ہے کہ ۔

’’ڈیورنڈ لائن کے بارے میں چند باتیں مشہور ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔

(1) ۔کہ ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ 100سال کے لیے تھا ۔(2)۔یہ کہ ڈیورنڈ کا معاہدہ چونکہ حکومت برطانیہ کے ساتھ ہوا تھا حکومت پاکستان کے ساتھ نہیں اس لیے اب یہ ختم ہو چکا ہے۔(3)۔چونکہ اس وقت کے افغانستان کے امیر نے دباؤ کے تحت اس معاہدے کو تسلیم کیا تھا، اس لیے اب افغانستان کو حق ہے کہ وہ اس معاہدے کو ماننے سے انکار کرے۔ (4)۔مہمند ایجنسی کے علاقے سے گزرنے والی ڈیورنڈ لائن متنازعہ ہے کیونکہ یہ صرف کاغذات تک محدود ہے اور زمین پر اس کی حد بندی نہیں کی گئی ہے‘ اس لیے افغان حکومت کو اختیار ہے کہ وہ خوازئی کے علاقے پر اپنا حق جتائے۔

مشتاق جدون نے ان اعتراضات کے سلسلے میں دیگر وضاحتوں کے علاوہ یہ وضاحت بھی کی ہے کہ۔’’معاہدے سے صاف ظاہر ہے کہ نہ معاہدے میں اور نہ ہی مصدقہ نقشے میں کسی علاقے کو متنازعہ قرار دیا گیا ہے‘ زمین پر سرحدی تعین کے بغیر علاقے اور متنازعہ علاقے میں بہت فرق ہے‘ جہاں تک اس معاہدے کے مستقل ہونے کا تعلق ہے‘ تو اس سلسلے میں اتنا کہنا کافی ہے کہ‘کہیں بھی معاہدے میں 100 سال کا ذکر نہیں ہے‘مزید برآں‘ روس کے ساتھ افغانستان کے شمالی اور مغربی سرحدوں اور ایران کے ساتھ افغانستان کے مغربی سرحدوں کا تعین بھی برطانوی حکومت نے کیا تھا‘سوویت یونین کے ٹکڑے ہوگئے لیکن نہ تو ترکمانستان ‘ازبکستان اور سینٹرل ایشیاء کی دیگر ریاستوں نے جو روس کے وارث ہیںاور نہ ہی افغانستان کی حکومت نے ‘ان معاہدوں کے بارے میں کوئی سوال اٹھایا ہے۔

ایران کے صوبے سیستان کے ساتھ بھی انگریزوں نے حد بندی کی تھی چونکہ پاکستان بھی برطانوی حکومت کا وارث ہے‘ اس لیے وہ اور افغانستان دونوں اس بات کے پابند ہیں کہ وہ اپنے سرحدوںکے بارے میں معاہدوں کی پاسداری کریں‘اس ساری بحث اور مختلف معاہدوں کو دیکھنے کے بعد یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ ڈیورنڈ لائن معاہدے کی توثیق مختلف اوقات میں کی گئی ہے اس سلسلے میں 1894 ‘1895‘ 1905 ‘1919 ‘1921اور1930کے معاہدوں کا انھوں نے حوالہ دیا۔ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ جاری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔