لانگ مارچ اور عدم اعتماد ساتھ ساتھ ؟

مزمل سہروردی  جمعـء 14 جنوری 2022
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پیپلزپارٹی نے27 فروری سے یک طرفہ لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے جب کہ پی ڈی ایم نے23مارچ کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے، ایسے میں پیپلزپارٹی تقریباً ایک ماہ قبل تنہا لانگ مارچ کیوں کرنا چاہتی ہے؟ پیپلزپارٹی کے اس اعلان نے پی ڈی ایم بالخصوص ن لیگ کو مشکل میں ضرور ڈال دیا ہے۔

اگر دونوں الگ الگ لانگ مارچ کرتے ہیں تو اس کا فائدہ حکومت کو ہوگا۔ اس لیے اول تو پیپلزپارٹی کو پی ڈی ایم کے ساتھ شامل ہوجانا چاہیے تھا ،اگر وہ شامل نہیں ہوئی تو پی ڈی ایم کو ہی ہوش کے ناخن لے لینے چاہیے۔

پیپلزپارٹی کا اعلان بھی مبہم ہے۔ 27فروری کو کراچی سے اسلام آباد کے لیے نکلنے کا اعلان تو کیا  گیا ہے لیکن ابھی تک کارکنوں کو یہ نہیں بتایا گیاکہ اسلام آباد کب پہنچنا ہے۔ قائدین کا موقف ہے کہ انھیں خود نہیں معلوم کہ کب اسلام آباد پہنچیں گے، اس لیے کوئی تاریخ نہیں دی جا سکتی ۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اسلام آباد پہنچ کر کرنا کیا ہے۔ ایسا تو ہو نہیں سکتا ہے کہ کراچی سے اسلام آباد پہنچ کر صرف جلسہ کیا جائے اور گھر آجائیں۔ اگر وہاں دھرنا دینا ہے تو اس کی کیا حکمت عملی ہوگی؟ اس لیے پیپلزپارٹی کا اعلان نا مکمل اور بغیر کسی روڈ میپ کے نظر آرہا ہے۔ اگر پی ڈی ایم پیپلز پارٹی کے ساتھ شامل ہو گی تو اس کے لیے یک طرفہ اعلان مشکل ہو جائے گا، وہ اکیلے گھر نہیں جا سکیں گے ۔

پیپلزپارٹی کے لانگ مارچ کے مسائل تو تب شروع ہوں گے جب وہ سندھ سے پنجاب میں داخل ہو ںگے۔ پنجاب میں ان کی حکومت نہیں ہے۔ رکاوٹیں پنجاب سے شروع ہوںگی۔ لوگ تھکنا بھی شروع ہوںگے۔ لوگ کتنے دن ساتھ رہ سکتے ہیں۔ جو لوگ سندھ سے ساتھ آئیں گے وہ پنجاب سے واپس چلے جائیں گے ، اگر سندھ سے آئے لوگ واپس چلے جائیں گے تولانگ مارچ کی کامیابی پر ضرور سوالیہ نشان پیدا ہو جائیں گے۔ لیکن منظر نامہ ساتھ تبدیل بھی ہو رہا ہے۔ پہلے پیپلزپارٹی نے لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ لیکن اب بات لانگ مارچ کے ساتھ ساتھ تحریک عدم اعتماد کی طرف جاتی بھی نظر آرہی ہے۔

پی ڈی ایم نے بھی اپنا سربراہی اجلاس بلا لیا ہے۔ جس میں تحریک عدم اعتماد پر غور ہوگا۔ لوگ اس کو پی ڈی ایم کی سوچ میں تبدیلی بھی کہہ رہے ہیں۔ کیونکہ پہلے پی ڈی ایم اور بالخصوص ن لیگ تحریک عدم اعتماد کے خلاف رہی ہے۔ تا ہم شہباز شریف کی جیل سے رہائی کے بعد ن لیگ کی سیاست اور سوچ میں تبدیلی نظر آرہی ہے۔عدم اعتماد پر قائل ہونا بھی اسی کی نشانی ہے۔ بہر حال میں سمجھتا ہوں عدم اعتماد کے ساتھ ساتھ پی ڈ ی ایم کو پیپلزپارٹی کے لانگ مارچ میں شامل ہونے کا اعلان بھی کرنا چاہیے۔ یہی بہتر حکمت عملی ہوگی۔ یہ وقت پیپلزپارٹی کو اکیلے چھوڑنے کا نہیں ہے۔

پیپلزپارٹی کافی عرصہ سے عدم اعتماد کی بات کر رہی ہے۔ لگتا ہے کہ اب عدم اعتماد کا موسم آگیا ہے۔ اسی لیے ن لیگ اور مولانا بھی اس کے لیے تیار نظر آرہے ہیں۔ حکمران جماعت کی توڑ پھوڑ بھی واضح ہوتی جا رہی ہے۔ اتحادیوں کی ناراضگیاں بھی واضح ہیں۔ ہر طرف ٹوٹ پھوٹ نظر آرہی ہے۔ اگر ایمپائر کے نیوٹرل ہونے کے مزید شواہد سامنے آجائیں تو عدم اعتماد کی کوشش میں کوئی حرج نہیں۔ حکومت مشکل میں آجائے گی۔

جہاں تک لانگ مارچ کا تعلق ہے تو پیپلزپارٹی نے کے پی اور دیگر صوبوں کے لوگوں کو کوئی کال نہیں دی ہے۔ کے پی میں پیپلزپارٹی کی کارکردگی پنجاب سے بہتر نظرا ٓرہی ہے،وہاں ووٹ بینک بھی بہتر ہے۔ کیا کے پی کے لوگوں کو اس لانگ مارچ میں شرکت کی کوئی کال نہیں دی جائے گی؟ کیا آزاد کشمیر سے لوگوں کو اسلام آباد آنے کی کوئی کال نہیں دی جائے گی؟ کیا گلگت بلتستان کے لوگوں کو بھی کوئی کال نہیں دی جائے گی؟اسی لیے میں نے کالم کے شروع میں ہی لکھا ہے کہ یہ ایک مبہم کال ہے۔ جس میں کراچی سے نکلنے کا اعلان تو موجود ہے لیکن اسلام آباد پہنچنے کا کائی اعلان نہیں ہے۔

اس تناظر میں دیکھاجائے تو پیپلزپارٹی نے ایک کھیل کھیلا ہے جس میں پی ڈی ایم کو سیاسی طور پر دفاعی پوزیشن میں لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک رائے عامہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ دیکھیں ہم اصل اپوزیشن ہیں اور پی ڈی ایم اصل اپوزیشن نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی کیا واقعی لانگ مارچ کرے گی؟ اس پر بھی سوالیہ نشان موجود ہیں۔ جب تک وہ اسلام آباد پہنچنے کے روڈ میپ کا اعلان نہیں کرتے، لانگ مارچ پر سوال موجود رہیں گے تا ہم پھر بھی میری یہ رائے ہے کہ ن لیگ اور پی ڈی ایم کو اب پیپلزپارٹی کو اسی کے کھیل میں پھنسا لینا چاہیے۔

ن لیگ کو بھی پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کی کال کو ری شیڈیول کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے ساتھ ہی 27فروری کو ہی لانگ مارچ کرنے کا اعلان کر دینا چاہیے۔ انھیں بھی کراچی سے ساتھ ہی نکلنے کا اعلان کردینا چاہیے۔ ان کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ اب پیپلز پارٹی کو اس لانگ مارچ سے نہ تو بھاگنے دیں اور نہ ہی اسے سبوتاژ کر نے دیں۔جب وہ ساتھ نکلیں گے تو پنجاب میں اکٹھے داخل ہوں گے۔ کے پی سے نکلنے کا بھی روڈ میپ دینا ہوگا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بلاول سندھ سے نکلیں، شہباز شریف لاہور سے نکلیں اور مولانا پشاور سے نکلیں، اس طرح سب اکٹھے اسلام آباد پہنچنے کی بھی کال دے سکتے ہیں۔

پارلیمنٹ میں متحدہ اپوزیشن اکٹھے چل رہی ہے جو خوش آیند ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ سڑکوں میں اکٹھے چلنے کی راہیں بھی دوبارہ نکالنا ہوںگی۔ لانگ مارچ کے نتیجے میں اگر پارلیمنٹ میں کوئی ہلچل ہوتی ہے تو اس کا بھی اپوزیشن کو مل کر ہی مقابلہ کرنا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں جلسے ، جلوس، ریلیاں تو الگ الگ ہو سکتی ہیں۔ لیکن لانگ مارچ اکٹھے کرنا ہوگا۔ لانگ مارچ پر ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ناقابل فہم ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ لانگ مارچ اور عدم اعتماد ایک ساتھ شروع ہو جائیں۔ کھیل سڑکوں پر بھی کھیلا جائے اور ایوان میں بھی کھیلا جائے۔ موسم بھی سازگار ہے اور حالات بھی سازگار نظرا ٓرہے ہیں۔ صرف سیاسی قیادت کو سمجھداری دکھانا ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔