سانحہ مری

ایم جے گوہر  جمعـء 14 جنوری 2022
mjgoher@yahoo.com

[email protected]

پاکستان دنیا کے ان خوش قسمت ملکوں میں شمار ہوتاہے جہاں حد نظر قدرت کے حسین نظارے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ سرسبز و شاداب وادیاں، بلند و بالا پہاڑی چوٹیاں، خوب صورت جھیلیں، آبشاریں، گنگناتی، لہراتی اور بل کھاتی ندیاں، گھنے جنگلات، لق و دق صحرائی علاقے، برف پوش پہاڑ، بہتے رواں دواں دریا اور سیر و سیاحت سے لاتعداد حسین مقامات سے اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو نوازا ہے۔

پاکستان سیاحت کے حوالے سے دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے۔ خوب صورت مقامات کی سیاحت کے لیے ہر سال بڑی تعداد میں غیر ملکی سیاح پاکستان آتے ہیں۔ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں واقع وادی سوات کو ایشیا کا ’’سوئٹزرلینڈ‘‘ کہا جاتا ہے ملکہ برطانیہ جب 1961 میں پاکستان کے دورے پر آئیں تو سوات کی سیر بھی کی اور یہ خطاب ملکہ برطانیہ کی ہی طرف سے سوات کو دیا گیا تھا جو بلاشبہ پاکستان کے خوبصورت اور جنت نظیر ہونے کا اعتراف ہے۔

مری، کاغان، ناران، ہنزہ، شنگریلا ریزورٹ، اسکردو، جھیل سیف الملوک، وادی نیلم اور دیگر کئی تفریحی و سیاحتی مقامات پاکستان کی سیاحت کی پہچان ہیں۔ اندرون اور بیرون ملک سے آنے والے سیاحوں نے ان علاقوں کو آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ بنا دیا، اگر ہمارے سیاحتی ادارے ملک کے حسین مقامات پر انفرااسٹرکچر کی جانب بھرپور توجہ دیں اور آنے والے اندرونی و بیرونی سیاحوں کو ضروری سہولیات اور آسانیاں فراہم کی جائیں تو پاکستان کے سیاحتی مقامات زرمبادلہ کمانے کا بہترین ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں، نیز روزگار کے مواقع بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔

عالمی سیر و سیاحت کونسل کے مطابق پاکستان میں سیر و سیاحت کے شعبہ میں صرف دس سال کے عرصے میں تقریباً آٹھ ارب امریکی ڈالر اور اگلے پندرہ سال میں ایک ہزار ارب ڈالر تک پہنچنے کی امید کی جاسکتی ہے۔ پاکستان سیاحت کے شعبے میں جی ڈی پی کا صرف دو اعشاریہ آٹھ فیصد حصہ رکھتا ہے۔ 2016 میں سیر و سیاحت کے شعبے نے سات ارب ڈالر کے لگ بھگ دیے جو مجموعی جی ڈی پی کا تقریباً پونے تین فیصد بنتا ہے۔ 2013 میں ایک محتاط اندازے کے مطابق پانچ لاکھ سے زائد سیاح پاکستان آئے جو کم و بیش تیس کروڑ ڈالر آمدنی کا ذریعہ بنے۔ زیادہ تر سیاح برطانیہ، امریکا، چین اور بھارت سے آتے ہیں۔

سب سے زیادہ سیاح سوات اور مری کی برف باری سے لطف اٹھانے ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ فوربز میگزین کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند برسوں سے پاکستان سیاحت کی اگلی بڑی منزل سمجھا جا رہا ہے، تاہم برطانوی شاہی جوڑا جب پاکستان آیا تو اس نے سیاحتی مقامات کی بھی سیر کی جسے عالمی میڈیا میں بڑی پذیرائی ملی پس اس کے بعد پاکستان سیاحت کا پرکشش مقام بن گیا۔

عالمی رینکنگ کے ادارے ورلڈ انڈیکس نے دو سال قبل دنیا کے 20 مقامات کی فہرست شایع کی جو چھٹیوں کے دوران سیاحت کے لیے بہترین قرار دیے گئے تھے، اس فہرست میں پاکستان پہلی پوزیشن پر موجود ہے جو پاکستان کے شعبہ سیاحت کے لیے اچھی خبر ہے،لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم اچھی خبر سے بھی برے نتائج کی راہیں تلاش کرنے میں ثانی نہیں رکھتے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان کے تمام معروف و مشہور سیاحتی مقامات پر جہاں قومی و بین الاقوامی سیاح جانے میں دل چسپی رکھتے ہیں وہاں انفرااسٹرکچر کی تعمیر اور سیاحوں کو سہولیات فراہم کرنے اور کسی بھی امکانی اور ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جاتے تاکہ کسی قسم کا کوئی انسانی المیہ جنم نہ لیتا لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ارباب اقتدار نے محض زبانی جمع خرچ کے سوا کوئی عملی اقدامات نہ اٹھائے اور تفریحی مقامات بالخصوص مری جیسے اپنے حسن، دلکشی اور پہاڑوں پر برف باری کے فطری نظاروں کے باعث ’’ملکہ کوہسار‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، امکانی خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ اسی خطرے سے گزشتہ ہفتے ایک دل خراش حادثے نے جنم لیا جب برف باری کا نظارہ دیکھنے کے لیے مری جانے والے اندرون ملک کے 22 سیاح برف کے طوفان کے باعث اپنی گاڑیوں سے نہ نکل سکے۔ کاریں برف میں دب گئیں اور 22 افراد لقمہ اجل بن گئے۔

مری سانحے پر غم زدہ خاندانوں سے اظہار ہمدردی میں پوری قوم سوگوار ہے۔ حکومت سے لے کر اپوزیشن رہنماؤں تک سب ہی نے اس دل خراش سانحے پر اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں و لواحقین سے اظہار تعزیت کیا ہے۔

وزیر اعظم نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ غیر معمولی برف باری اور موسم دیکھے بغیر عوام کی بڑی تعداد میں مری آمد کے باعث ضلعی انتظامیہ تیار نہیں تھی۔ گویا انھوں نے مرحومین کو ہی ذمے دار ٹھہرا دیا کہ شدید برف باری اور خراب موسم کے باوجود وہ لوگ از خود وہاں گئے ہی کیوں تھے۔ ضلع انتظامیہ سیاحوں کی اتنی بڑی تعداد میں آمد کے باعث نظم و ضبط برقرار نہیں رکھ سکی اور یہ حادثہ رونما ہو گیا جو ایک بڑا دھچکا ہے۔

مری سانحے نے بہت سے سوالوں کو جنم دیا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق محکمہ موسمیات نے وزیر اعظم آفس اور این ڈی ایم اے کو مری میں برفانی طوفان کی پیشگی اطلاع دے دی تھی۔ پہلا الرٹ 31 دسمبر 2021 کو جب کہ دوسرا الرٹ 5 جنوری 2022 کو جاری کیا گیا تھا۔

اس کے باوجود انتظامیہ خواب غفلت سے بیدار نہ ہوئی اور 3 سے 4 ہزار پارکنگ کی گنجائش والے علاقے میں ایک لاکھ سے زائد گاڑیوں کو جانے کی اجازت دے دی گئی۔ موقع پرست ہوٹل مالکان نے ایک کمرے کا معاوضہ 30 ہزار سے 50 ہزار کردیا۔ لوگ مجبوراً اپنی گاڑیوں میں ہی وقت گزارنے پر مجبور ہوگئے اور برفانی طوفان کے باعث موت کے منہ میں چلے گئے۔ باقی بچ جانے والوں کو پاک فوج کے جوانوں، سماجی تنظیموں کے اہل کاروں اور درد مند مقامی لوگوں نے امداد کرکے محفوظ مقامات تک پہنچایا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب بزدار کو پیش گئی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق برف باری کے باعث پوری پوری گاڑیاں جب برف سے ڈھک گئیں تو کاربن مونو آکسائیڈ گیس کا اخراج گاڑیوں کے اندر پھیل گیا جس سے اندر موجود لوگوں کی موت واقع ہوگئی۔

ہر حادثہ ایک سبق ہوتا ہے، تحقیقات کے بعد ہی اصل حقائق سامنے آئیں گے، لیکن یہ بات طے ہے کہ انتظامیہ کی غفلت، لاپروائی اور کوتاہی کے باعث یہ سانحہ رونما ہوا۔ اپوزیشن نے مری سانحہ پر حکومت کو ذمے دار ٹھہراتے ہوئے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا اور جوڈیشل کمیشن سے تحقیقات کرانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

مری سانحے پر حکومت اور اپوزیشن سیاسی ڈگڈگی بجانے کے بجائے ذمے دار اداروں اور افراد کے خلاف کارروائی کرے اور انھیں قرار واقعی سزا دی جائے اور ایسے سانحات سے بچنے کے لیے سیاحتی مقامات پر فول پروف انتظامات کیے جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔