بنگلہ دیش کے پاکستانی

شہلا اعجاز  جمعـء 14 جنوری 2022
فوٹوفائل

فوٹوفائل

بنگلہ دیش کو بنے پچاس برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اس دور کی تلخیاں اب بھی محسوس کی جاسکتی ہیں، سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سے وہ راز بھی کھل کر سامنے آئے ہیں جنھیں اس دور کی سازشوں نے بنا تھا، یہ ایک بہت تکلیف دہ اور تلخ حقیقت ہے کہ جس کی بازگشت آج بھی گونج رہی ہے۔

آج بھی بنگلہ دیش میں وہ لوگ زندگی بسر کر رہے ہیں جو اپنے آپ کو پاکستانی کہلوانا پسند کرتے ہیں، ایک اندازے کے مطابق بنگلہ دیش کے تیرہ مختلف ڈسٹرکٹس میں 116 کیمپس قائم ہیں جس میں پانچ لاکھ یا ڈھائی لاکھ کے قریب پاکستانی آباد ہیں۔ اس بارے میں کچھ اختلافات ہیں کیونکہ بہت سے بہاری ایسے بھی ہیں جو اپنے آپ کو پچاس برس کی تکلیفوں سے گزارتے گزارتے اب خواہش مند ہیں کہ انھیں بنگلہ دیش کی قومیت سے نوازا جائے ان میں وہ نئی نسلیں بھی شامل ہیں۔

جنھوں نے آنکھ ہی بنگلہ دیش میں کھولی اور وہ دو طبقات کی سرد مہری کی سزا گزارنے کے قائل نہیں جب کہ بہت سے ایسے بھی سینئر حضرات ہیں جو اپنی شناخت چاہتے ہیں ۔یہ صورت حال ان تمام لوگوں کے لیے خاصی دشوار اور تشویش ناک بھی ہے لیکن اپنے آپ کی پہچان اور شناخت کے عمل سے گزرنا ان کے لیے یوں اور بھی ضروری ہے کہ آبادی بڑھتی جا رہی ہے۔

غربت، بھوک اور افلاس کے سائے اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ اس کے لیے ان کو نوکریوں کی اور تعلیم کی ضرورت ہے اور بنگلہ دیش کے قومی دھارے سے جدا رہ کر ان کے لیے یہ ممکن نہیں، زندگی ان کے لیے طویل اور صبر آزما ثابت ہو رہی ہے کیونکہ پاکستان یا کسی دوسری قوم کا لیبل ان پر چسپاں ہے جو بنگلہ دیش کی سرکاری نوکریوں اور حقوق سے انھیں محروم رکھتا ہے، وہ پاکستانی ہیں اور پاکستانی نہیں ہیں کے درمیان ڈول رہے ہیں اس جدوجہد میں ہی تیس سال گزر چکے ہیں۔

امتیاز الرحمن فاروقی بنگلہ دیش کے ایک ماہر قانون دان ہیں وہ وہاں کی سپریم کورٹ میں سینئر ایڈووکیٹ کے طور پر پریکٹس کرتے ہیں ان کی مادری زبان اردو ہے وہ غیر بنگالی ہیں، 1972 میں انھوں نے پاکستان جانے کے بجائے بنگلہ دیش میں رہنے کو ترجیح دی تھی۔ اردو کے ساتھ بنگلہ اور انگریزی پر بھی ان کی خوب دسترس ہے قانون کے موضوع پر ہی ان کی انگریزی میں تحریر کردہ کتابیں بنگلہ دیش میں قانون کے ماہرین میں خاصی مقبول ہیں۔

فاروقی صاحب کے لیے یقینا وہ وقت بہت دشوار تھا جب انھیں کیمپ میں منتقل ہونا پڑا، ان کی سوچ تھی کہ جس سرزمین پر وہ پیدا ہوئے ہیں اس کی مٹی کی خوشبو کو پہچانیں اور اسے ہی اپنا وطن سمجھیں ۔بنگلہ دیش میں رہتے ایسی سوچ رکھنا شاید ہم پاکستانیوں کو ناگوار محسوس ہو لیکن اپنے اردگرد دیکھیے ہمارے کتنے عزیز و اقارب، جاننے والے دوست احباب امریکا، انگلینڈ، ہالینڈ، کینیڈا اور عرب امارات جیسے ممالک میں رہتے زندگی بسر کرتے بوڑھے ہو رہے ہیں اور ان کی اولادیں جنھوں نے اسی سرزمین پر جنم لیا ہے۔

اس ملک میں پڑھ لکھ کر کھا کما رہی ہیں یہاں تک کہ ان کی انوسٹمنٹ بھی انھی ممالک میں ہو رہی ہے۔ یہاں تک کہ خود وہ اور ان کی نسلیں پاکستان لوٹنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ان کے خیال میں وہی ان کا ملک ہے، یہ الگ بات ہے کہ برسہا برس کے بعد کبھی پاکستان کا چکر لگ جاتا ہے ورنہ وہ نسلیں بھی دیار غیر میں آپ کو نظر آئیں گی کہ جن کے آبا و اجداد، پردادا ہجرت کرکے ایسے گئے کہ پھر کبھی نہ لوٹے اور شادیاں کرکے برصغیر سے ایسا ناتا ٹوٹا کہ نسل کے ساتھ ساتھ مذہب تک بدل گئے۔

بہرحال یہ ایک الگ طویل بحث ہے۔ امتیاز الرحمن فاروقی کی آواز پر اس طبقے کے لوگوں نے یہ طے کرلیا کہ اب انھوں نے اسی سرزمین کو اپنا سمجھ کر رہنا ہے وہ کل دس لوگ تھے جو سب سے بڑے کیمپ جنیوا کیمپ سے نکلے ان کا مشن تھا کہ ان کا اندراج ووٹر لسٹ میں کیا جائے لیکن الیکشن کمیشن آف بنگلہ دیش نے ان کے ناموں کو ووٹر لسٹ میں شامل کرنے سے انکار کردیا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ وہ جنیوا کیمپ میں رہتے ہیں یعنی ان کی شناخت پاکستانی شہری کی سی ہے۔ فاروقی صاحب یہ کیس لے کر عدالت پہنچے ۔

وہاں ہائی کورٹ میں انھوں نے ایک رٹ پٹیشن دائر کی اور طویل جدوجہد کے بعد پانچ مئی 2003 کو فیصلہ ان کے حق میں ہوا اور 1982 کے الیکشن رولز آرڈیننس کے تحت ان کا نام بنگلہ دیش کی ووٹرز لسٹ میں شامل ہونے کا اہل ثابت ہوا۔ یہ فیصلہ ان کی محنت اور کیمپوں میں زندگی گزارنے والے غیر بنگالیوں کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوا۔

2007 میں جب وہاں نئی ووٹر لسٹ تیار ہوئی کیمپ میں رہنے والے غیر بنگالیوں کے نام لسٹ میں شامل نہ ہوئے ان میں وہی دس اردو بولنے والے شامل تھے پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا اور 2007 میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی گئی اور 2008 مئی میں اس کی سماعت ہوئی بالآخر اٹھارہ مئی 2008 کو اس کا فیصلہ ہوا جس کے مطابق تقریباً نوے فیصد کیمپ میں رہنے والے غیر بنگالیوں نے ووٹر لسٹ میں اندراج کروا کر بنگلہ دیشی شہرت حاصل کی۔

امتیاز الرحمن فاروقی کی محنت اور جدوجہد کے عمل سے ایک نئی راہ کھل چکی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں بنگلہ دیش کی ترقی کا گراف اوپر کی جانب بڑھتا نظر آ رہا ہے ،اسی طرح قرضوں کی صورتحال بھی پاکستان کے مقابلے میں بنگلہ دیش کی بہت بہتر ہے۔

ہم علیحدگی کے درد سے گزرے ہیں جس کے لیے باقاعدہ پلاننگ کی گئی تھی قیام پاکستان کے بعد سے ہی اس کے لیے کھچڑی پک رہی تھی جسے ہمارے سیاستدانوں کی تمام تر دانش وری، اعلیٰ تعلیم و تربیت کے باوجود حماقتوں، انا اور غرور کے باعث پوری طرح تیار کرنے میں مدد دی، اس کے ساتھ عوامل تو اور بھی تھے لیکن علیحدگی کا کیک کاٹنے والوں نے خوشی خوشی یہ تمغہ ہمیشہ کے لیے اپنے نام کرلیا بہت سے دانشور اور محققین کے مطابق مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کو ایک متحدہ پاکستان کی عملی شکل دینے میں ہی بہت سے مسائل درپیش تھے کیونکہ دونوں حصوں کے درمیان راستے خاصے طویل تھے اس طوالت اور معاشی و معاشرتی ناہمواریوں نے جلد ہی علیحدگی کی لکیر کو واضح کردیا تھا۔

یہ ایک الگ اور اٹل حقیقت ہے کہ اسے الگ ہونا تھا اس سے ہمیں اپنی چادر کے پیوند اور شرارتی بھیڑوں سے آشنائی تو ہوئی لیکن ہم نے شاید اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ لیکن ہم اب بھی اپنے ان تمام پیاروں کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ وہ جرأت مند اور دانشور امتیاز الرحمن فاروقی کی بنائی روش پر چل کر اپنے لیے زندگی کی نئی روشن اور تری کی راہیں تلاش کریں اور ہم سب کو بھی نیک ہدایت دے۔( آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔