انفرادی کردار پر توجہ کی ضرورت

قمر عباس نقوی  جمعـء 14 جنوری 2022
فوٹوفائل

فوٹوفائل

میرا مخصوص شعبہ لکھنا پڑھنا ہے۔ ہر لکھنے والے کا ذوق و شوق ہوتا ہے کہ پوری دنیا کے حالات و واقعات کا مطالعہ کرے اور ان کا اپنے الفاظ اور جملوں میں لکھ کر یا بول کر اظہار کرے۔ اس دنیائے فانی میں بے شمار ایسے عنوانات ہوتے ہیں جن پر لکھا جا سکتا ہے۔

کچھ لوگوں کو اللہ رب العزت لکھنے کی صلا حیت عطاکرتا ہے اور کچھ کو بولنے کی اہلیت سے مالا مال کرتا ہے اور کچھ ایسے خوش نصیب بھی ہیں جو ان دونوں اوصاف سے خوب کھیلنے کا فن رکھتے ہیں۔ بولنے کے لیے مشہور ہے کہ پہلے سوچو پھر بولو۔ زبان سے نکلے ہوئے الفاظ انقلاب کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ زبان ہی ہے جو دوست بھی بناتی ہے اور دشمن بھی۔ اس کو استعمال کرنے میں کسی قسم کا روپے پیسے کا خرچ نہیں ہوتا ۔ یہ بالکل مفت سہولت فراہم کرتی ہے۔ جب کہ لکھنے میں روپے پیسہ خرچ ہوتا ہے۔

قلم ، کاغذ ظاہر ہے مفت میں تو نہیں آتا۔ ہماری ملک کی عوام کو بولنے کا فن بہت آ تا ہے۔ ایک سے زائد افراد اکھٹے ہونگے خوب بڑھ چڑھ کر اس انداز و اعتماد کے ساتھ باتیں کریں گے کہ اس محفل میں وہ ہی دانشمند ہے۔ دوسرے کی بات کو سننا ہر گز پسند نہیں کریں گے۔ دوسرے کے بولنے پر اس کا تمسخر اڑانے سے بھی عار محسوس نہیں کریں گے۔ اس قسم کے لوگ ایسی محفلوں میں دو عنوانات مذہب یا حکومتوں پر تنقید کرتے ہوئے پائے جائیں گے۔ ملک میں ایسے لوگوں کی تعداد اسی فیصد کے لگ بھگ ہے۔

ہم اگر موجودہ حالات میں ایمانداری کے ساتھ بغور مطالعہ و مشاہدہ کریں تو ہم نے صرف ان فضول باتوں میں اپنے قیمتی وقت کا ضیاع کیا ہے۔ مذہب کی گفتگو کرنے والوں کو یہی نہیں معلوم کہ اللہ کی خوشنودی دو طریقوں سے پوری کی جا سکتی ہے۔ اول حقوق اللہ دوم حقوق العباد ۔حقوق العباد کے فرائض انجام دیے بغیر حقوق اللہ کا تصور حیات نا مکمل ہے۔ معروف ادیب ممتاز مفتی اپنے تصنیف ’’تلاش ‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں ’’صوفیائے کرام نے کبھی اسلام کی تبلیغ نہیں کی تھی، انھوں نے کبھی بحث مباحثے نہیں کیے تھے۔

انھوں نے کبھی تقریریں نہیں کی تھی، وہ اسلام کا ڈنکہ نہیں بجاتے تھے،صرف اسلام کے لیے جیتے تھے۔ ان کے پاس دو ہتھیار تھے، اخلاق اور حسن کردار۔ ان دونوں ہتھیاروں میں مساوات کی دھار تھی جو لوہے کی دھار سے زیادہ کاٹ کرتی ہے۔حضرت علی ہجویریؒ کے اخلاق اور حسن کردار کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند سالوں میں آدھا لاہور مسلمان ہو گیا۔متشدد اور متعصب لوگ کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے۔

وہ سچ کہتے ہیں لیکن یہ تلوار فولاد کی نہیں، اسلامی کردار کی تھی۔ صاحبو ! جان لو کہ مساوات سے زیادہ خطرناک ہتھیار کوئی نہیں ہے۔ ‘‘ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ رسول ﷺ، صحابہؓ اور اولیائے کرام رحمتہ اللہ علیہ نے کسی کے سامنے اسلام کی تبلیغ میں سخت روش اختیار نہیں کی بلکہ ان کے کردار میں تبدیلی لانے کی سعی کی۔ ان کے سامنے اخلاق حمیدہ کی روشن خیال صفات خود عملی نمونہ بن کر پیش کیں۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں نے یورپ جیسی ریاست’’ اسپین ‘‘پر کئی سو سال حکومت کی مگر افسوس ! اب وہا ں اسلام کا کوئی نام لیوا نہیں ہے۔

ہم جب پرائمری اسکول کے طالبعلم تھے تو ہمارے نصاب میں دینیات کا مضمون لازمی شمار کیا جاتا تھا ،باقی مضامین اختیاری ہوا کرتے تھے۔ دینیات میں ہم انصاف و عدل ، مساوات ، پڑوسیوں اور ہمسایہ کے حقوق، صفائی نصف ایمان ہے، والدین کے حقوق و فرائض، سچ بولنے اور ناپ تول میں ایمانداری کا مظاہرہ کرنا، غرض اسلامی دائرہ مطالعہ میں عملی دینی طرز حیات کے بارے میں چیزیں سکھائی جاتی تھیں۔

اسلام ایسا دین متین ہے جس کے مقابلہ میں ادیان باطلہ کچھ نہ کر سکے۔ اسی دین حنیف نے تمام ادیان باطلہ کے ایوانوں میں زلزلے بر پا کر دیے۔ افسوس ! وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ ہم سے دینیات چھین لی گئی اور اس کو غیر اقوام نے ہم سے اغوا کرلیا اور ہمارے پاس صرف اسلام آباد رہ گیا۔ہم صرف عبادتوں کی آڑ میں مادیت پرستی کی راہ پر چل پڑے ہیں،روحانیت برائے نام ہو کر رہ گئی ہے۔

اگر مجموعی طور پر آپ کو اپنی عام زندگی میں عوام کا اخلاقی طرز عمل دیکھنے اور ان پر غور کرنے کی فرصت ہوئی ہو تو آپکو لامحالہ خود غرضی اور لالچ و ہوس کے ایسے جواہر نظر آئیں گے یعنی آپ عام طور پر قطار توڑ کر آگے جانے کی کوشش کرتے ہیں تو اگرایسی صورت میں آپکو کوئی طاقتور عہدہ مل جائے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ آپ اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھانے میں رتی بھر تاخیر سے کام نہیں لیں گے۔

عام طور پر ٹریفک جام ہونے کی صورت میں آپ قطار توڑ کر دوسری گاڑیوں کے اندر گھسنے کی کوشش کریں گے تو یقینا جب بھی آپ کو کبھی سرکاری پیسے کا امین بنایا گیا تو اس بات کا قوی امکان ہوگا کہ آپ اس میں غبن کے مرتکب ضرور ہونگے کیونکہ آپ کو قوانین و ضوابط پر عمل کرنے سے نفرت ہے۔

آپ اپنے گھر کے گندے پانی کا بہتر انتظام کرنے کے بجائے رخ دوسرے کے گھر کی طرف کر دیتے ہیں یا گھر کا کوڑا کرکٹ یا کسی بھی قسم کی غلاظت گلی میں ڈال دیتے ہیں ۔اس خیال سے کہ خواہ مخواہ صفائی والے کو پیسے دینے پڑیں گے تو اس کا مطلب ہوگا کہ آپ بد دیانت کے ساتھ ساتھ معاشرتی آداب سے ناواقف ہیں، اگر آپ گھر اور آفس کی فالتو لائٹس بند کرنے کے عادی نہیںتو اس کا مطلب ہے کہ آپ بجلی چوری کرنے اور بجلی کی تاروں میںکنڈے لگانے کے عادی ہیںاور موقع ملنے پر آپ ملکی اور قومی وسائل کو بے دریغ ضایع کرنے کے مرتکب ہوں  گے۔

ہو سکتا ہے کہ آپ زیا دہ تر کمپیوٹر اور موبائل پر گیمز کھیلنے کے عادی ہوں اور وقت کا ضیاع کرتے ہوں تو یقیناآپ ایک کاہل اور سست انسان ہیں اور آپ مطلوبہ مضمون کی تیاری صرف امتحان سر پر آنے پر کرتے ہیں تو آپ بد دیانت ، کاہل اور کام چور ہیں اور آپ اپنے ساتھ ساتھ اپنے والدین ، معاشرہ اور قوم کے بھی دشمن ہیں، اگر آپ کا زیادہ وقت کہانیاں پڑھنے، فلمیں اور ڈرامے دیکھنے میں گذرتا ہے تو آپ خیالوں اور خوابوں کی دنیا میں رہنے والے، بے عمل اور نکمے انسان ہیں جو اپنے علاوہ لواحقین اور دوست احباب کا مستقبل بھی برباد کر رہے ہیں۔آپ لوگوں کی خامیاں تلاش کرنے کے عادی ہیںاور اچھائیوں کو نظر انداز کرتے ہیں تو آپ چھوٹے انسان ہیں جسے لوگوں کو نیچا دکھانا مقصود ہے۔

آ ئیے !عہد کریں کہ ہم بحیثیت ایک اسلامی معاشرہ کے ذمے داری شہری باکردار انسان بننے کی کوشش کریں۔ یقین کیجیے ، اچھی صحت کے ساتھ زندگی ایک نعمت خداوندی ہے اور قوم کی امانت ہے ، اس میں خیانت ہرگز ہرگز نہ کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔