گئے دنوں کا سراغ لے کر

راؤ سیف الزماں  جمعـء 14 جنوری 2022
فوٹوفائل

فوٹوفائل

بہت سے ادارے قائم کیے گئے، جابجا ٹیمیں ترتیب دی گئیں،جے آئی ٹیز بنائی گئیں لیکن گئے دنوں کا سراغ نہ مل سکا۔ NAB بھی حیران و پریشان کھڑا ہے کہ اب کیا چال چلی جائے؟ اپوزیشن کا کیا ہو، اور حکومت کو کیسے مطمئن کرے؟ فارن فنڈنگ کیس، منی لانڈرنگ، یہ دعویٰ کہ ہزاروں ارب ہر سال ملک سے باہر منتقل کیے جاتے ہیں، غیر قانونی طور پر، ہمیں یاد ہے جب پی ٹی آئی کی حکومت معرضِ وجود میں آئی تھی تو محترم وزیر اعظم نے ایسے ایسے انکشافات کیے جنھیں سن کر رونا آگیا تھا کہ ہمیں اتنا لوٹا گیا بڑے بھی روئے اور بچے بھی۔ اس وقت تو سارے ہی کرپٹ قرار پائے تھے۔

کون ان کی دستِ برد سے محفوظ رہا کوئی بھی نہیں اور پھر لوٹی ہوئی دولت کی بازیابی کے متعدد دعوے کیے گئے۔ کہا گیا کہ اب انصاف ہو گا ملک کے سارے قرضے اتار دیے جائیں گے اور عقب میں وہ بھی تالیاں بجاتے دکھائی دیے جو پچھلی حکومت کے بارے میں فرما رہے تھے کہ ’’ان کے دور میں معیشت بری نہیں تو اچھی بھی نہیں‘‘ اور لگے ہوئے تھے ٹویٹر پر۔ کبھی ریجکٹڈ بھی لکھتے تھے اور ان کی شان تھی کہ ہمہ وقت ہائی برڈ جنگ میں مصروف رہا کرتے تھے اور قوم کو بھی مصروف رکھا کرتے تھے، ویسے یہاں مجھے ایک بات یاد آرہی ہے کہ کم و بیش ایک سال سے بارڈر پر کوئی ایک گولی تک نہیں چلی ایسا کیا ہو گیا! آخر ملک نازک دور سے کیسے نکلا یا نکال لیا گیا۔ معاملہ اعتدال پر کیسے آگیا؟

بہرحال بات ہو رہی تھی کہ کرپشن کیوں نا پکڑی جا سکی؟ اسے حکومتی نا اہلی سے تعبیر کیا جائے یا کرپشن کرنے والوں کی اہلی سے؟ تازہ تازہ تو شکاری خود ہی جال میں آتے دکھائی دے رہے ہیں آخر فارن فنڈنگ کیس کا کیا ہو گا؟ اس بار بھی انصاف ہو گا یا صرف نسلہ ٹاور ہی مسمار کیا جائے گا اور بنی گالا سے پھر کچھ جرمانہ لے کر اسے ریگولرائز کر دیا جائے گا؟۔خیر دیکھ لیں گے آخر 73 سالوں سے دیکھ ہی تو رہے ہیں کرنا کرانا کیا ہے بس خاموش رہتے ہیں۔

اب تو اللہ نے صبر ایوب ؑعطا فرما دیا ہے۔ سنا ہے نواز شریف کی تشریف آوری ہے یعنی کس شیر کی آمد ہے کے رن کانپ رہا ہے؟ اب دیکھتے ہیں کیا فرق پڑ جائے گا ملکی سیاست میں؟ ویسے وہ بھی گئے دنوں کا سراغ ہی ہیں۔ میری تحریر کا عنوان شاید بہت فٹ ہے میں دیکھ رہا ہوں ہر موضوع ہر پورا اترتا ہے۔ لیکن جو کچھ دکھائی دے رہا ہے وہ وہی ریشہ دوانیاں ہیں جو ماضی میں بھی کار فرما رہی ہیں گویا پھر ایک دریا کو عبور کرنا ہے لیکن کشتی کے ناخدا وہی ہونگے جو پار کروائیں گے، البتہ مسافر بدل جائیں گے ہو گا بس اتنا ہی اس سے زیادہ تبدیلی کو تو ہم ہضم ہی نہیں کر پائیں گے۔

قا بل احترام سپریم کورٹ کا مدینہ مسجد طارق روڈ، کراچی کے معاملے میں فیصلے پر نظر ثانی کا عندیہ اطمینان بخش ہے۔ IMF کی مزید شرائط پر منی بجٹ کا خطرہ اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں پھر ہوشربا اضافہ جان لیوا ثابت ہو گا حالانکہ ہم عوام حکومت کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم احتجاج ہرگز نہیں کریں گے کیوں کہ ہم احتجاج کے لیے پیدا ہی نہیں ہوئے، بس ایک اطلاع دے رہے ہیں کہ براہِ کرم ہمیں قبل از وقت فوتگی سے بچائیے اللہ آپکا بھلا کرے گا اور کوئی گلہ نہیں جو کرنا ہے بصد شوق کیجیے ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ سنا ہے پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے!! لیکن سنکر بالکل ہنسی نہیں آئی شاید دل مردہ ہو گیا یا بھوک نے ستایا ہوا ہے۔

بعض حکومتی وزراء کا بھلا ہو جو ہمیں اپنی باتوں سے مرنے نہیں دیتے لیکن دوسرے وزیر صاحب ہیں کہ جینے نہیں دیتے۔ اب کیا عدم اعتماد آرہی ہے؟ میں کہتا ہوں جب اعتماد کر ہی لیا تو کیوں حکومت کو تنگ کرتے ہیں ویسے بھی کیا حکومت بدلنے سے عوام کے حالات بدل جائیں گے؟ کیا انصاف مل جائے گا؟ کیا ملیں لگانے اور چلانیوالے مزدوروں کے بچے پوری روٹی کھانے لگیں گے؟ کیا دہقان کو ان کی لگائی ہوئی فصلوں کی قیمت ملنے لگے گی؟ نہیں تو پھر موجودہ حکومت کی تبدیلی کیوں ہو اور ہم عوام اس کھیل میں حصہ کیوں لیں؟ جو کرنا ہے آپ ہی کرلیں اور جب کرلیں تو اخبار میں چھپوا دیجیے گا پڑھ لیں گے۔

گئے دنوں کے سراغ پر یاد آیا کہ سردیوں کی راتوں میں سڑک پر جب کوئی گھوڑا تانگہ چلتا تھا تو گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز کسی خوبصورت موسیقی سے کم نہیں ہوتی تھی ٹک ٹک کی آواز دور سے آتی ہوئی اور کسی چائے کے ہوٹل کے ریڈیو پر چلتا ہوا یہ گیت ’’او دور کے مسافر، ہم کو بھی ساتھ لے لے،، ہم رہ گئے اکیلے۔‘‘ عجیب سا سماں ہوتا تھا سمجھ میں نہیں آتا وہ روایتیں کہاں بچھڑ گئیں ہم سے؟ وہ معصومانہ سی زندگی، ملک سے محبت کرنیوالے سیاستدان، بھائی بھائی بن کر رہنے والی قوم ایک دوسرے کا ہر دکھ درد میں ہاتھ بٹانیوالے لوگ کیا ہوئے؟ الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ جنوں نے کام کیا۔

وہ بہنیں جو جنگوں میں ملک کا دفاع کرنے والوں کو سویٹر بن کر دیتی تھیں جو سرحدوں پر کھانے پکا کر بھیجا کرتی تھیں، وہ وطن پرستی کا جذبہ کیسے مفقود ہو گیا؟ ایک ساتھ ساری روایتوں کا ٹوٹ جانا تو ایک بڑا سانحہ ہے، کیا یہ 1975 کا پاکستان ہے؟ یا 1980 سے 1990 کا جب میں نے خود 100 روپے پاکستانی کے 125 روپے انڈین لیے تھے! کس نے لوٹ لیا سب کچھ، کسے الزام دیں موقع تو سبھی کو ملا ہے اب وہ جمہوریت ہو یا آمریت یا باہر کے imported وزیر ِاعظم، ملک باری باری سب کے ہاتھ میں دیا گیا لہٰذا یہ کہنا کہ اس میں کسی ایک کا قصور ہے غلط ہو گا بقولِ شاعر

سمندر تیز ،طوفانی ہوا، ٹوٹی ہوئی کشتی

یہی اسباب کیا کم تھے کہ اس پر نا خدا تم ہو

گئے دنوں کا سراغ کہاں ڈھونڈیں؟ راولپنڈی میں یا رائے ونڈ میں یا بنی گالا میں؟ یا بڑی بڑی ملوں میں بڑے بڑے بنگلوں میں کون اس قوم کا خون پی رہا ہے کس نے اس ملک کی معیشت کے جسم میں حرام اور رشوت کی خاک بھری ہے اجاڑ کر رکھ دیا اس ملک کو۔ اور مجال ہے کہ شرم تک نہیں آتی جب ساری دنیا احساس دلاتی ہے کہ ہم سے آزاد ہونے والا بنگلہ دیش آج ہم سے سیکڑوں میل آگے نکل چکا۔ ہر زمانے کا قرار دیا ہوا دشمن انڈیا ہزاروں میل آگے نکل گیا۔

بس زبانی ترقی ہے کہتے ہیں ’’ہم زندہ قوم ہیں۔‘‘ کیا قبرستان میں زندہ ہیں؟ اب فرماتے ہیں ہمیں سیاست سے دور رکھیں! نو سو نہیں نو ہزار نوسو ننانوے چوہے کھا کر بھاگنا چاہتے ہیں لیکن سن لو کہ اب بہت دیر ہو گئی بھاگنے کا وقت بھی گزر چکا اب تو تباہی ہو چکی اور اب جو ہو گا اس میں کوئی نہیں بچے گا 22 کروڑ انسانوں کی زندگیوں سے کھیلنے والو، سراغ تو مل گیا ہے ہم سب جانتے ہیں ’’اہلِ خلوص کون ہے، غدارکون ہے؟‘‘ یہ صحراؤں میں بھوک اور پیاس سے مرتے بلبلاتے بچے اپنا حساب لیں گے یہ نہروں، ندیوں نالوں میں بہتی ہوئی بے گوروکفن لاشیں تمہیں بتائیں گی کہ انھوں نے خود کشی کیوں کی تھی؟ فرار کا وقت جا چکا ابھی تو ’’گئے دنوں کا سراغ ملا ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔