لیاری میں اسپورٹس کمپلیکس کا قیام

شبیر احمد ارمان  جمعـء 14 جنوری 2022
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

گزشتہ دنوں سندھ کے وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ اور بلدیہ اعظمیٰ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب نے مشترکہ طور پر لیاری کراچی میں واقع مولانا محمد علی جوہر پارک المعروف ککری گراؤنڈ کے مقام پر ککری اسپورٹس کمپلیکس کی سنگ بنیاد رکھا۔

یہ منصوبہ سندھ حکومت کا ہے جسے حکومت سندھ کے محکمہ پلاننگ اینڈ ڈیولیپمنٹ کے تحت تعمیر کیا جارہا ہے۔ اس منصوبہ کے تحت ایک جدید فٹبال گراؤنڈ، جوکنگ ٹریک ،ازسر نو دیگر تعمیراتی کام و دیگر بنیادی سہولیات پر مشتمل تعمیرات، فٹبال تربیتی میدان، باکسنگ اور کراٹے کے مقامات کی تعمیرات، پارک اور سڑکوں کی تعمیر، اردگر کی گلیوں و سڑکوں، واک ٹریک اور دیگر تعمیرات،عوامی مقامات کی تعمیرات، اسٹریٹ و روڈز لائٹ کی تنصیبات شامل ہیں۔ علاوہ ازیں ایک تین منزلہ عمارت تعمیر کی جائے گی جس کے اندر کھیل کی تمام سہولیات ایک چھت کے نیچے دستیاب ہونگے جس میں مختلف کھیل کی تربیتی مراکز ہونگے۔

فٹبال داخلہ کے دفاتر ہوں گے، خواتین و مردوں کے لیے جمنازیم، بیت الخلا، لباس کی تبدیلی کے کمرے، کیفے ٹیریا، لیبریری، باسکٹ بال کی جگہ، کھیل کے ہال، ٹیبل ٹینس کورٹ، 40گاڑیوں کے لیے پارکنگ ایریا تعمیر کیے جائین گے۔ سندھ حکومت کے اس منصوبے کو اہل لیاری بالخصوص لیاری کے مختلف کھیلوں سے وابستہ شخصیات اور کھلاڑیوں نے سراہا ہے۔

خیال رہے کہ ان دنوں مولانا محمد علی جوہر پارک المعروف ککری گراؤنڈ ایک وسیع فٹ بال گراؤنڈ پرمشتمل ہے جو اسٹیڈیم نما ہے جہاں آئے روز فٹ بال کے ٹورنامٹس اور ایک روزہ میچ کھیلے جاتے ہیں، جنھیں دیکھنے کے لیے لیاری کے علاوہ دور دراز علاقوں سے بھی فٹ بال کے شائقین آتے ہیں اور بعض اوقات یہ گراؤنڈ شائقین سے اس قدر بھر جاتا ہے کہ تل بھر نے کی بھی جگہ نہیں ہوتی، اسی گراؤنڈ اندرونی حصے میں الٹے ہاتھ کی جانب علی محمد قنبرانی باکسنگ اسٹیڈیم ہے یہاں باکسنگ کے مقابلے بڑے شور و زور سے منعقد کیے جاتے ہیں جنھیں باکسنگ کے شائقین بڑی تعداد میں دیکھنے آتے ہیں۔

جس کے ساتھ ایک کراٹے جمنازیم ہال ہے جہاں جوڈو کراٹے کی تربیت دینے کے ساتھ جوڈو کراٹے کے مقابلے بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔ ککری گراؤنڈ کے اندر ہی جافا فٹ بال اکیڈ می بھی قائم ہے جہاں نوجوانوں کو فٹ بال کی تربیت دی جاتی ہے، یہاں پر لیاری ضلع جنوبی کا ڈومیسائل بنانے کا دفتر بھی قائم ہے۔ ککری گراؤنڈ کے اندر ہی سیدھے ہاتھ کے کونے پر بلدیہ عالیہ جنوبی لیاری کا نرسری بھی ہے جہاں درختوں اور پودوں کی نگہداشت کی جاتی ہے اور پھر انھیں لیاری کے مختلف علاقوں میں لگایا جاتا ہے۔

ککری گراؤ نڈ کی زمین پر مین سڑک کی طرف دو منزلہ عمارت میں متعدد مختلف قسم کی دکانیں قائم ہیں۔ ککری گراؤنڈ کے اندر مرکزی دروازے کے برابر میں جنگلی کبوتروں کا مسکن ہے جہاں وہ دانہ پانی چنتے اور پیتے ہیں جہاں ہر وقت سیکڑوں کبوتروں کی موجودگی خوب صورت منظر پیش کرتا ہے۔

ککری گراؤنڈ میں آنے جانے کے لیے تین دروازے ہیں ان میں سے دو دروازے مرکزی سڑک کی جانب واقع ہیں جن میں سے ایک دروازہ بند ہے اور ایک دروازہ زیر استعمال ہے تیسرا دروازہ موسیٰ لین کی طرف نالے پر کھلتا ہے۔ ککری گراؤنڈ کی بیشتر نشستیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جہاں صفائی کا فقدان جابجا نظر آتا ہے۔ ککری گراؤنڈ کے مرکزی سڑک کی جانب دیوار کے ساتھ ایک کچرا کنڈی بھی ہے جو گراؤنڈ کو بدنما بنائے ہوئے ہے۔ کامل امید ہے کہ مجوزہ منصوبہ کے تحت اسے یہاں سے ہٹا دیا جائیگا۔

ککری گراؤنڈ لیاری کا بہت پرانا کھیل کا میدان ہے ،ماضی میں لیاری ندی دھوبی گھاٹ، حسن لشکری ویلج ،گارڈن سے ہوکر اسپنسر آئی اسپتال ،لی مارکیٹ ،میٹھا در سے ہوکر کھڈہ سے سمندر میں جاگرتی تھی ۔جب ہر چند رائے وشنداس کراچی میونسپل کا میئر منتخب ہوا تو اس نے لیاری ندی کا رخ پر موجودہ شاخ کی طرف موڑ دیا پرانی ندی کی شاخ پر لی مارکیٹ 1930میں تعمیر کی گئی ۔ککری گراؤنڈ جو کہ ندی کا حصہ تھا وہاں پر مقامی لو گ فٹبال کھیلتے تھے ندی کے کنارے کی وجہ سے یہاں چھوٹی چھوٹی کنکریاں تھیں تو اس کو کنکری گراؤنڈ کہا جانے لگا بعد میں بگڑ کر ککری گراؤنڈ کے نام سے مشہور ہوا۔

کافی عرصے بعد سرکاری طور پر اسے تحریک پاکستان کے رہنما مولانا محمد علی جوہر پارک کا نام دیا گیا ،لیکن یہ نام عوامی مقبولیت حاصل کرنہ سکی آج بھی لوگ اسے ککری گراؤنڈ کے نام سے پکارتے ہیں ۔ککری گراؤنڈ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی شادی کی تقریب یہاں منعقد ہوئی بعد ازاں محترمہ بے نظیر بھٹو عالم اسلام اور پاکستان کی پہلی وزیر اعظم منتخب ہوئیں اسی طرح آصف علی زرداری صدر پاکستان بنے۔ ماضی میں یہ ہائیڈ پارک بھی تھا جہاں قوم پرستوں سے لے کر وفاق پرستوں اور مذہبی جماعتوں کے اجتماعات یہاں ہوتے تھے اور کبھی کے بار یہاں ثقافتی اور تعلیمی میلے بھی منعقد کیے جاتے رہے ہیں۔

لیاری کو فٹ بال کے شائقین ایشیا کا برازیل کہتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب بر صغیر کے گلی کوچوں میں کیپٹن محمد عمر، کیپٹن تاج محمد، کیپٹن ابراہیم کیماڑی والا اور کیپٹن لالا میر داد کا نام کا ڈنکا بجتا تھا ۔یہ کھلاڑی فلمی ہیروؤں کی طرح مقبول تھے۔ بھارت میں دلیپ کمار (مرحوم ) لیاری کے ان کھلاڑیوں کے لیے دیدہ و دل فراش راہ کرتے تھے۔

ان کھلاڑیوں کے اعزاز میں موسیقی کی محفلیں ہوتی تھیں ،بڑے بڑے فنکار ان کھلاڑیوں کی نقلیں اتار کرتے تھے ۔وہ بھی ایک زمانہ تھا جب نئی دہلی کے فٹ بال گراؤنڈ میں صدر جمہوریہ ہندراجند ر پرشاد ہمارے فٹ بالر کھلاڑیوں کا میچ دیکھتے تھے اور ان کے گلے میں میڈل ڈال کران کی توقیر بڑھاتے تھے۔

1975 کے بعد پاکستان میں فٹ بال کے زوال کی کہانی شروع ہوتی ہے مگر اس کے بعد بھی کچھ محکموں کی طرف سے ان کھلا ڑیوں کی حوصلہ افزائی کرکے اس کھیل کو زندہ رکھا گیا ،مگر اب ان اداروں سے فٹ بال کے تمام شعبے ختم کردیے گئے ہیں جس وجہ سے لیاری کے فٹ بالرز بے روزگار ہوگئے ہیں جس کے منفی اثرات فٹ بالروں کی کارکردگی پر بھی پڑگئے ہیں۔

فٹ بال کی تباہی میں حکومتی اداروں کا بھی بڑا ہاتھ ہے ۔آج بھی اگر صرف صلاحیتوں کی بنیاد پر کھلا ڑیوں کو منتخب کیا جائے تو 60 فیصد کھلاڑی لیاری سے منتخب ہوجائیں گے، لیکن یہ بات ان لوگوں سے ہضم نہیں ہوتی جو فٹ بال کے نام پر سہولیات حاصل کرتے رہے ہیں۔

امید کامل ہے کہ ککری اسپورٹس کمپلیکس کی تعمیر سے لیاری میں فٹ بال کے کھیل جدید خطوط پراستوار کیا جاسکے گا،اور ساتھ ہی لیاری کے با صلاحیت فٹ بالروں کے لیے روزگار کے دروازے کھل جائیں گے۔ راقم الحروف ان سطور کے ذریعے حکام بالاسے گزارش کرتا ہے کہ لیاری کے مقامی فٹ بال گراؤنڈ وں کی تزئین و آرائش پر بھی توجہ دی جائے، جو اپنی خستہ حالی کے باوجود بھی فٹ بال کے کھیل کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔