پرویز خٹک کے حکومت پر وار

احتشام بشیر  جمعـء 14 جنوری 2022
پرویزخٹک نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان اور حکومتی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کی۔ (فوٹو: فائل)

پرویزخٹک نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان اور حکومتی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کی۔ (فوٹو: فائل)

2013 کے عام انتخابات سے قبل یہ قوی امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ ملک میں تحریک انصاف پہلی بار حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی اور پورے ملک میں جس طرح تحریک انصاف کےلیے ماحول بنا ہوا تھا کسی دوسری جماعت کو اکثریت ملنے کا کوئی امکان ظاہر نہیں ہورہا تھا۔

لیکن پنجاب میں مسلم لیگ نواز اکثریت حاصل کرنے کے باعث مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی اور مرکز میں حکومت بنانے کےلیے سادہ سا فارمولا یہی ہے کہ پنجاب کو جیتنا ہوتا ہے۔ تحریک انصاف اس وقت صرف خیبرپختونخوا میں پہلی بار حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے، یعنی تبدیلی کا سفر خیبرپختونخوا سے شروع ہوا۔

تحریک انصاف 2013 کے انتخابات میں خیبرپختونخوا سے نہ صرف صوبائی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی بلکہ صوبے سے قومی اسمبلی کی زیادہ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ بدلتے موسم کو دیکھ کر جس طرح پرندے اپنا ٹھکانہ بدل لیتے ہیں اسی طرح 2013 میں بھی سیاسی ماحول تحریک انصاف کےلیے سازگار دیکھ کر سیاسی پنچھیوں نے بھی اپنے ٹھکانے بدلنا شروع کیے۔ ہر حکومت میں خود کو فٹ کرنے والے سیاستدان پی ٹی آئی کی کشتی میں سوار ہوگئے۔ خیبرپختونخوا سے پرویزخٹک بھی ان موسمی سیاستدانوں میں شامل تھے۔ عام انتخابات سے قبل وہ پیپلزپارٹی کی ڈوبتی نیا کو چھوڑ کر پی ٹی آئی کی کشتی میں سوار ہوگئے اور عمران خان کا ایسا اعتماد حاصل کیا کہ جب خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے کا موقع ملا تو وہ بغیر کسی مخالفت کے وزیراعلیٰ بننے میں کامیاب ہوگئے۔

موجودہ وزیر دفاع پرویزخٹک نے اس وقت خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کو دوام بخشا، پارٹی کو بھی پروان چڑھایا اور 2018 کے انتخابات میں بھی تحریک انصاف خیبرپختونخوا میں دوسری بار حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ لیکن اس بار خیبرپختونخوا حکومت کی ڈرائیونگ سیٹ پرویزخٹک کو نہ ملی اور وہ وفاقی حکومت کا حصہ بن گئے۔

مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد اتار چڑھاؤ آتا رہا۔ کہا جاتا ہے کہ عمران خان کو ماضی کے بحرانوں سے نکالنے میں پرویزخٹک نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ پرویزخٹک کو سیاسی اکھاڑے میں جوڑ توڑ کا ماہر کہا جاتا ہے۔ ماضی میں جس حکومت میں پرویزخٹک شامل تھے اس حکومت کو بنانے میں پرویزخٹک کا اہم کردار رہا۔ 1993 میں اس وقت صوبے میں پیپلزپارٹی کی حکومت بنانے میں پرویزخٹک نے اہم کردار کیا۔ آزاد ارکان سے رابطے اور پھر ایک ہی رات میں حکومت بنانا ایک الگ سے لمبی کہانی ہے۔ اب تک حکومت کو بحرآنوں سے نکالنے میں پرویزخٹک کے ماہرانہ مشورے بھی شامل ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے پی ٹی آئی حکومت کے خلاف جب اسلام آباد مارچ کا اعلان کیا، اس وقت بھی یہ باتیں سامنے آنے لگیں کہ حکومت کے خلاف سازش تیار ہوگئی ہے لیکن حکومتی حلقوں میں کچھ ایسی ہلچل نہیں تھی جو کسی بھی حکومت کے جاتے وقت نظر آتی ہے۔ حکومتوں کے رخصت کے وقت جو چارج شیٹ تیار کی جاتی ہیں ایسا بھی اس وقت کچھ بھی نہیں تھا۔ جب بھی حکومتوں کے جانے کا وقت ہو تو حکومتی ایوانوں سے آوازیں آنا شروع ہوجاتی ہیں اور حکومتی ایوانوں سے حالات خود بتا رہے ہوتے ہیں کہ کچھ ہونے جارہا ہے۔ وقت سے قبل رخصت ہونے والی حکومتوں کا جائزہ لیں تو ان حکومتوں پر مہنگائی، کرپشن، ملک میں غیر یقینی صورتحال جیسے الزامات لگتے رہتے ہیں اور سب سے اہم، جب بھی کسی جماعت کی حکومت سیاسی طور پر غیر مستحکم ہونے لگتی ہے پرندوں کی طرح موسمی سیاستدان بھی طوفان آنے سے قبل اپنے ٹھکانہ تبدیل کرنا شروع کردیتے ہیں۔ تحریک انصاف میں بھی کچھ ایسی ہلچل شروع ہوگئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی نے دوسری سیاسی جماعتوں سے رابطوں کا آغاز کردیا ہے لیکن وقت قریب ہونے پر تبدیلیوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔

پرویزخٹک نے اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان اور حکومتی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کی۔ جو اطلاعات سامنے آئی ہیں پرویزخٹک نے وزیراعظم کو یاد دہانی کرائی ہے کہ خیبرپختونخوا سے تحریک انصاف کی تبدیلی کا سفر شروع ہوا اور بجلی اور سوئی گیس خیبرپختونخوا پر ہی بند ہے۔

یہ حقیقیت ہے کہ تحریک انصاف کے اپنے ہی ارکان اسمبلی بڑھتی مہنگائی پر پریشانی کا شکار ہیں اور نجی محفلوں میں غیر رسمی گفتگو میں وہ اس خدشے کا اظہار کرچکے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں وہ کسیے عوام کا سامنا کریں گے۔ اگرچہ وفاقی وزیر پرویزخٹک نے پارلیمانی پارٹی کی باہر آنے والی باتوں کی تردید کی ہے لیکن سوئی گیس اور بجلی کے حوالے سے کی جانے والی باتوں کا انہوں نے خود ذکر کیا ہے۔ پرویزخٹک جیسا عمران خان کا بااعتماد ساتھی کھل کر وزیراعظم کے سامنے آگیا ہے تو دال میں کچھ کالا کیا، پوری دال ہی اب کالی دکھائی دے رہی ہے۔

سیاسی ماہرین کے مطابق جب حکومت کے اپنے ہی بجلیاں گرانے لگیں، حکومتی پالیسیوں کے گن گانے والے میڈیا ادارے بھی حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنے لگیں تو سمجھ جائیں تبدیلی کے اشارے ملنا شروع ہوگئے ہیں۔ پرویزخٹک کے بھائی اور بھیتجا پیپلزپارٹی میں شامل ہوچکے ہیں اور بھتیجے نے بلدیاتی الیکشن بھی پیپلزپارٹی کے جھنڈے تلے کیا اور آئندہ 2023 کا الیکشن بھی پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر کرنے جارہے ہیں۔ چند روز قبل پرویزخٹک کے بھانجے مسلم لیگ نواز کی کشتی کے مسافر بن چکے ہیں۔ خاندانی طور پر بھی پرویزخٹک اب اکیلے رہ گئے ہیں۔ ایسے حالات میں یہ خبریں سامنے آرہی ہیں کہ مارچ تک اِن ہاؤس تبدیلی لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ معاملہ ق لیگ اور ایم کیو ایم کی رضا مندی پر رکا ہوا ہے۔ ق لیگ پنجاب میں ڈرائیونگ سیٹ چاہتی ہے اور ایم کیو ایم سندھ حکومت میں بھی اپنا حصہ مانگتی ہے۔ دوسری طرف حکومت کی جانب سے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ جون تک سیاسی معاملات تناؤ کی جانب نہ بڑھیں اور عمران خان کو مشورہ دیا جارہا ہے کہ معاملہ اگر بگڑ جاتا ہے تو جون میں بجٹ پیش کرنے کے بعد اسمبلیاں توڑ دی جائیں اور نئے الیکشن کی طرف جایا جائے۔

خیبرپخونخوا کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کی تبدیلی کا ریورس گیئر لگ گیا ہے۔ بلدیاتی انتخابات سے قبل ہی پی ٹی آئی کے انتخابی نشان بلے پر کوئی الیکشن میں حصہ لینے کو تیار نہیں تھا، اسی لیے تحریک انصاف نے بھی عوامی ردعمل کے باعث اپنے کارکنوں کو آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کی ہدایت کی اور پی ٹی آئی کی یہ حکمت عملی کامیاب بھی رہی۔ جن امیدواروں نے بلے کے نشان پر الیکشن میں حصہ لیا وہ جیتنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں جے یو آئی اور اے این پی عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ تحصیل، نیبرہوڈ اور ویلیج کونسلز پر جے یو آئی نے اکثریت حاصل کی اور پھر اے این پی برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔

بلدیاتی انتخابات میں عوامی ردعمل کو دیکھتے ہوئے پی ٹی آئی میں شامل موسمی پرندوں نے اپنے ٹھکانے بدلنے کے بارے میں سوچنا شروع کردیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق صرف پشاور سے تین ارکان قومی اسبملی اور چار ارکان صوبائی اسمبلی اپوزیشن جماعتوں سے رابطے میں ہیں۔ مستقبل قریب میں ٹھکانے بدلنے والے کھل کر رابطے کرتے نظر آئیں گے۔ اگر پرویزخٹک جیسے عمران خان کے قریبی ساتھی کھل کر سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں تو وقت سے قبل تبدیلی کو روکا نہیں جاسکتا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔