سانحہ مری، ریاست ذمے دار

ایڈیٹوریل  ہفتہ 15 جنوری 2022
قدرتی برف کو روکنے اور ہٹانے کی مشینری ہر ممکن طریقے سے استعمال ہوتی، یہ ہولناک برفانی طوفان نہیں تھا۔ فوٹو: فائل

قدرتی برف کو روکنے اور ہٹانے کی مشینری ہر ممکن طریقے سے استعمال ہوتی، یہ ہولناک برفانی طوفان نہیں تھا۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو سانحہ مری کی تحقیقات کر کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا۔ عدالت نے کہا این ڈی ایم اے وزیر اعظم کو نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیشن کا اجلاس بلانے کے لیے خط لکھے جب کہ وزیراعظم آئندہ ہفتے اجلاس بلا کر ذمے داروں کا تعین کریں۔

مری سانحہ نے ملکی ضمیر کو اس سانحہ پر سوگوار کر دیا ہے، عدلیہ نے وزیراعظم کو ہدایت کر کے پوری قوم کے لیے مری واقعہ کو ایک مثال بنانے کی جرأت مندی کی، عدلیہ نے اپنے ریمارکس میں قومی حمیت کو للکارا ہے اور قرار دیا ہے کمیشن جائزہ لے کہ این ڈی ایم اے ایکٹ پر عمل درآمد کیوں نہ ہوا؟ بظاہر این ڈی ایم اے ایکٹ پر عمل نہ کرنا معصوم زندگیوں کے نقصان کا باعث بنا۔ این ڈی ایم اے، اس قانون میں جتنے لوگ ہیں وہ سب اور پوری ریاست اس کی ذمے دار ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے سانحہ مری کیس کا سات صفحات پر مشتمل تحریری آرڈر جاری کر دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ وزیر اعظم کمیشن کا اجلاس بلائیں جس کی کارروائی21 جنوری تک مکمل کی جائے۔ کمیشن دیکھے کہ راولپنڈی ڈسٹرکٹ مینجمنٹ اتھارٹی کیوں غیر فعال ہے؟ حکام پیش ہوکر بتائیں کہ شہریوں کی جانیں خطرے میں ڈالنے والوں کے خلاف کارروائی کیوں نہ ہو ؟ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیاح ہر سال اسی طرح مری جاتے ہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اگر اس ڈسٹرکٹ کے لیے کوئی مینجمنٹ پلان نہیں تھا تو کیوں نہیں تھا؟ 9بچوں سمیت 22 افراد کی موت کا ذمے دار کون ہے؟

قانون میں این ڈی ایم اے کسی سانحہ سے نمٹنے کی تیاری اور ریسپانس کا ذمے دار ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ممبر این ڈی ایم اے سے کہا کہ کل کو خدا نخواستہ زلزلہ آئے تو آپ نے کہنا ہے کہ ہماری ذمے داری نہیں، پارلیمنٹ نے 2010 میں ایک قانون بنایا جس پر عمل درآمد ہونا تھا۔

درخواست گزار کی شکایت ہے کہ کوئی تیاری نہیں تھی ورنہ22 افراد کی جانیں نہ جاتیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی آج تک کبھی میٹنگ ہوئی ہے؟ ممبر این ڈی ایم اے نے بتایا کہ21 فروری 2013 کو ایک میٹنگ ہوئی، 28 مارچ 2018 کو بھی ہوئی۔

عدالت نے پوچھا کہ کسی لیڈر آف دی اپوزیشن نے آپ کو درخواست کی کہ کمیشن کی میٹنگ بلائیں؟ جس پر ممبر نے بتایا کہ کسی اپوزیشن لیڈر نے ہمیں میٹنگ بلانے کا نہیں کہا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کبھی ڈی جی این ڈی ایم اے نے حکومت کو لکھا کہ میٹنگ بلائیں وگرنہ کل کوئی آفت آئی تو ذمے داری ہم پر آئے گی۔

عدالت نے ممبر این ڈی ایم اے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ سمجھ نہیں رہے، آپ کی اتھارٹی نے قانون پر عمل کرانا تھا، کسی اور پر الزام نہ لگائیں، اتنا زبردست قانون ہے کہ ہر ضلع کے ذمے داروں تک کے لیے ذمے داری ڈالتا ہے، آپ کی ذمے داری ہے کہ اس باڈی کی میٹنگز ہوں اور قانون پر عمل درآمد ہو۔ اگر اس قانون پر عمل ہوا ہوتا تو ایک شہری کی بھی ہلاکت نہ ہوتی۔ آپ2021 میں عدالت کو بتا رہے ہیں کہ ہمیں چیک کرنا ہے۔

اس کیس میں تو کسی انکوائری کی ضرورت ہی نہیں، اس قانون پر این ڈی ایم اے نے عمل کرانا تھا۔ حقیقت اتنی تلخ ہے کہ سانحہ مری کو انتظامیہ سرسری انداز میں لےنے کی کوشش کرتی رہی، ہمارے مزاج اور حسیات میں انسانی المیوں کی کوئی گنجائش نہیں رہی ہے، ہم بڑے بڑے المیوں کو فراموش کرتے ہیں، مری سانحہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا، اس میں افسر شاہی نے یہ نہیں سوچاکہ 23 قیمتی جانیں لقمہ اجل بنیں، کتنے گھروں کے چراغ ہماری نااہلی نے بجھا دیے، لازم تھا کہ انتظامی سطح پر ہلچل مچ جاتی، قانون پر عملدرآمد میں مستعدی کا ثبوت دیا جاتا۔

قدرتی برف کو روکنے اور ہٹانے کی مشینری ہر ممکن طریقے سے استعمال ہوتی، یہ ہولناک برفانی طوفان نہیں تھا، بس ایک درد مند آنکھ اس منظر کو دیکھنے کی اہل نہیں تھی، لیکن واقعہ کو اس کے مکمل منظرنامہ کے ساتھ قوم نے دیکھا، لاکھوں دل اس درد ناک منظر سے پارہ پارہ ہوئے، یہ لوگ برف باری کا خوشنما منظر دیکھنے گئے مگر موت نے ان کی تفریح پر پوری قوم کو رلا دیا۔ یہ واقعہ کبھی بھلایا نہیں جا سکے گا۔

عدلیہ نے اس کا نوٹس لیا تو پھر کیسے یہ ہلاکتیں نظرانداز کی جاسکتی ہیں، عدالت عالیہ نے بروقت فےصلہ کیا ہے، اگر مری سانحہ پر ذمے داروں کا تعین نہیں ہوسکتا تو پھر ہمیں کس سانحہ کا انتظار ہے؟ امید ہے ارباب اختیار ذمے داروں کو کےفر کردار تک پہنچانے میں کسی تساہل سے کام نہیں لیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔