اکنامک سیکیورٹی اور قرضے

محمد ابراہیم خلیل  ہفتہ 15 جنوری 2022

اخباری اطلاعات کے مطابق سری لنکا نے معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ کے پاس جانے سے انکار کردیا ہے۔ اس سلسلے میں سری لنکا کے مرکزی بینک کے گورنر کا یہ کہنا سنہری الفاظ سے لکھے جانے کے قابل ہے کہ آئی ایم ایف کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے.

اگرچہ سری لنکا مرکزی بینک کے گورنر کے اوپر یہ دبا ؤ قومی اور عالمی سطح پر بڑھ رہا تھا کہ ملک کے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف سے بیل آ ؤٹ پیکیج لیں، لیکن سری لنکا اب چین کے ساتھ نئے قرض لینے کا ارادہ رکھتا ہے جس کے لیے بات چیت حتمی مراحل میں داخل ہوچکی ہے۔ اس طرح وہ اپنی کمزور معیشت کو مزید کمزور اور مضمحل ہونے سے بچا لیں گے۔

2006 کی بات ہے جب اسرائیل اور لبنان جنگ کے باعث دنیا بھر میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا تھا۔ لہٰذا ترقی پذیر ممالک کے تیل کے درآمدی بل میں شدید اضافہ ہونا شروع ہو گیا جس کے باعث بہت سے غریب ممالک کا تجارتی خسارہ حد سے زیادہ بڑھنے لگا۔

کئی ترقی پذیر ممالک خصوصاً افریقی ممالک کو فوری مالی معاونت کی ضرورت تھی۔ ایسے میں آئی ایم ایف کی طرف سے اعلان ہوا کہ اس نے تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر غریب ممالک کی مالی معاونت کے لیے ایک زبردست پیکیج تیار کرلیا ہے۔ لہٰذا ہر وہ ملک جوکہ اپنی درآمدات برآمدات کے عدم توازن کا شکار ہے وہ فوری رجوع کرلے۔

بلکہ آئی ایم ایف نے خود بھی ایسے ملکوں کے ساتھ بات چیت کا آغاز کردیا تھا جن کو اپنے مالی معاملات درست کرنے، اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لیے فوری قرض کی ضرورت تھی۔ ایسے موقع پر پہل کرتے ہوئے کئی افریقی اور ایشیائی ملکوں نے آئی ایم ایف سے کسی بھی قسم کے پیکیج لینے سے صاف انکار کردیا تھا اور یہ بات ظاہر ہے جو بھی قرض لیتا تھا اس کے لیے بعد میں مزید معاشی مسائل سے نمٹنا پڑتا ہے، جیساکہ پاکستان جب بھی بیل آ ؤٹ پیکیج لیتا ہے۔

اسے مزید معاشی مسائل سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو اپنی اکنامک سیکیورٹی کے لیے جرا ¿ت مندانہ فیصلے کرنے ہوں گے۔ اس سلسلے میں معاشی استحکام کے حصول کے لیے دو یا تین سالہ معاشی منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے۔ اس سے قبل 2004 میں معاشی ماہرین کی مدد سے اور ان کی طرف سے مختلف تجاویز حاصل کی گئی تھیں اور زیادہ ترقی کی ایک اہم رائے یہ بھی تھی کہ آئی ایم ایف کو خیرباد کہہ دیا جائے۔

جلد ہی حکومت کی طرف سے کشکول توڑنے کا اعلان کیا گیا، اس وقت کے معاشی ماہرین اس بات کا اظہار کر رہے تھے کہ قرضوں کا ایک منحوس چکر عمل پذیر ہو چکا ہے۔ قرضوں پر سود اور پھر قسطوں کی ادائیگی کے باعث معاشی افزائش شدید متاثر ہو رہی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ملک میں قرض ادا کرنے کی صلاحیت کمزور ہو رہی ہے۔ جس سے قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس وقت یعنی تقریباً 20 سال قبل ایک کمیٹی قرضوں سے متعلق بنائی گئی تھی جس نے یہ بتا دیا تھا کہ آیندہ چند سالوں تک حکومت پاکستان کے لیے بیرونی قرضوں کے سود کی ادائیگی ایک بہت بڑا مسئلہ بن جائے گا۔ کمیٹی نے برآمدات بڑھانے بیرونی سرمایہ کاری کو بڑھانے درآمدات گھٹانے اور بیرون ملک سرمایہ کی اڑان کی حوصلہ شکنی پر زور دیا۔

لیکن بتدریج پاکستان میں حالات بہت بدتر ہونا شروع ہوگئے تھے کیونکہ ملک کے دہشت گردی کی لپیٹ میں آنے اور اس کے ساتھ ہی توانائی بحران نے برآمدات پر شدید منفی اثرات مرتب کیے اور ساتھ ہی سرمایہ کی اڑان کو بھی ہوا دی۔

ترقی یافتہ ملکوں نے پاکستان میں امن و امان کی خراب صورت حال کے باعث اپنے شہریوں کو پاکستان سفر کرنے سے اجتناب کا مشورہ دینا شروع کردیا۔ جس کے باعث غیر ملکی تاجروں نے پاکستان کے بجائے خطے کے دیگر ملکوں کو اپنے آرڈر منتقل کرنا شروع کردیے۔ ساتھ ہی توانائی بحران کے باعث پاکستانی صنعتکاروں کے لیے برآمدی آرڈرز کی بروقت تکمیل میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث ملک سے ڈالر کی منتقلی میں اضافہ ہوا اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی کمی ہونا شروع ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی ملک میں صنعتی ترقی کا عمل رک گیا۔ نئے کارخانے اور ملیں قائم ہونے کا سلسلہ تقریباً ختم ہوکر رہ گیا۔ کمیٹی نے یہ تجویز دی تھی کہ ہمیں اپنے وسائل کے اندر رہنا چاہیے۔

غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرنا چاہیے۔ (یہ بات ماننا ہوگی کہ موجودہ حکومت نے اپنے طور پر غیر ترقیاتی اخراجات کو کسی حد تک کم کیا ہے۔) غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹیں ختم کرنا ہوں گی۔ پاکستان میں یہ ہو رہا ہے کہ کوئی بھی سرمایہ کار چاہے وہ ملکی ہوں یا غیر ملکی کسی بھی پراجیکٹ کو شروع کرنے کے لیے ذرا سی بھی ابتدا کرتا ہے تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں پر بہت سے معاملات ایسے ہیں اور بہت سے افراد ایسے رکاوٹ بن سکتے ہیں جن کی مٹھی گرم کیے بغیر اس کا کام نہیں ہو سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔