- صدر مملکت کا یاسین ملک کی فوری رہائی کا مطالبہ، بھارت کے عدالتی فیصلے کی شدید مذمت
- حکومتی ٹیم اورتحریک انصاف کے درمیان مذاکرات نہ ہوسکے
- پی ٹی آئی لانگ مارچ کے قافلے اسلام آباد میں داخل، ڈی چوک پر پولیس اور مظاہرین کا شدید تصادم
- آئی ایم ایف نے ایک ارب ڈالر کی قسط پیٹرول اور بجلی مہنگی کرنے سے مشروط کردی
- کراچی میں پولیس فائرنگ سے پی ٹی آئی کے 2 کارکنان جاں بحق ہوئے، علی زیدی کا دعویٰ
- راولپنڈی میں فائرنگ سے دو بچے قتل
- کابل کی مسجد میں دھماکا، 11 افراد جاں بحق
- پی ٹی ائی کو سیکٹر ایچ نائن اسلام آباد میں اجتماع کی مشروط اجازت دی ہے، رانا ثنااللہ
- پی ٹی آئی رہنما لانگ مارچ کے دوران گاڑی کی چھت سے گر کر زخمی
- اے این ایف کی کارروائی، 516 کلو گرام منشیات قبضے میں لے لی
- جاپانی شہری نے کتا بننے کیلئے لاکھوں روپے خرچ کردئیے
- چارجنگ کے دوران کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے والی ایجاد
- یاسین ملک کو سزا دے کر کشمیریوں کے جذبہ حریت کو ختم نہیں کیا جاسکتا، آئی ایس پی آر
- عوام نے عمران خان کو زناٹے دار تھپڑ مارا ہے، گونج ہر جگہ سنی گئی، مریم نواز
- ایکواسٹاراینڈروئڈ 11 ٹی وی سیریز: مناسب قیمت، بہترین فیچرز
- افغانستان میں 11 لاکھ بچوں کو شدید غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، رپورٹ
- پاکستانی پیسر عمرگل مستقل طور پر افغانستان کے بولنگ کوچ مقرر
- پی ٹی اے نے انٹرنیٹ اور موبائل سروس بندش کی خبروں کی تردید کردی
- سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو ایچ نائن اسلام آباد میں احتجاج کی اجازت دیدی
- پہلی پاکستانی خاتون کوہ پیما ’کے ٹو‘ سر کرنے کے لیے پُرعزم
ہزاروں سال پہلے گھوڑوں کے بجائے ’جنگی گدھے‘ استعمال ہوتے تھے

کُنگا کہلانے والے یہ جانور جنگلی خچر اور گدھے کے ملاپ سے، جنگی مقاصد کیلیے تیار کیے جاتے تھے۔ (تصاویر: سائنس ایڈوانسز)
پنسلوانیا: ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی ایک عالمی ٹیم نے دریافت کیا ہے کہ تقریباً 4,500 سال پہلے میسوپوٹیمیا (موجودہ جنوبی عراق اور شمالی شام) میں جنگی مقاصد کےلیے پالتو گدھوں اور جنگلی خچروں کے ملاپ سے پیدا کیے گئے جانور استعمال ہوتے تھے جنہیں ’جنگی گدھے‘ کہا جاسکتا ہے۔
شاید یہ اوّلین مخلوط نسل (کراس برِیڈ) کے جانور تھے جنہیں انسان نے تیار کیا تھا۔ ان کے بھی 500 سال بعد جنگوں میں گھوڑوں کا استعمال شروع ہوا تھا۔
میسوپوٹیمیا سے ملنے والی قدیم تختیوں پر بنی علامتی تصاویر، جانوروں کے ڈھانچوں اور دوسری دستاویزات پر تحقیق سے معلوم ہوا کہ انہیں ’کُنگا‘ (Kunga) کہا جاتا تھا اور یہ جنگ میں رتھوں (دو پہیوں والی جنگی گاڑیوں) کو کھینچنے میں استعمال کیے جاتے تھے۔
آثارِ قدیمہ کے دوسرے شواہد سے یہ بھی پتا چلا کہ ’کُنگا‘ بہت طاقتور تھے اور تیزی سے دوڑنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
البتہ، جب ماہرین نے ’کنگا‘ کی ہڈیوں کا تجزیہ کیا تو پریشان ہوگئے کیونکہ یہ جانور جسامت میں قدیم گدھوں اور جنگلی خچروں سے بڑے تھے لیکن گھوڑوں سے چھوٹے تھے۔
اگر یہ گھوڑا، گدھا یا جنگلی خچر نہیں تھا تو پھر ’کُنگا‘ آخر کونسا جانور تھا؟
یہ الجھن پچھلے کئی سال سے یونہی چلی آرہی تھی جسے امریکا، فرانس، جرمنی اور چین سے تعلق رکھنے والے ماہرین ایک ٹیم نے جینیاتی تجزیئے سے حل کرلیا ہے۔
تحقیق کی غرض سے انہوں نے آخری شامی خچر کی بافتوں (ٹشوز) جین کے نمونے حاصل کیے۔ صرف 3 فٹ اونچائی والا یہ خچر آسٹریا کے ایک چڑیا گھر میں رکھا تھا اور 1927 میں یہ مرچکا تھا۔ لیکن اس کا مُردہ جسم پوری احتیاط سے محفوظ کرکے آسٹریا ہی میں رکھ لیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ انہوں نے جنوب مشرقی ترکی میں گوئبیکلی تیپ نامی علاقے سے ملنے والے، گیارہ ہزار سال قدیم جنگلی خچر کا جین بھی علیحدہ کیا جو خاصی مکمل حالت میں تھا۔
دونوں جانوروں کے جینوم کا موازنہ کرنے پر معلوم ہوا کہ جنگلی خچروں کا ارتقاء بہت تیزی سے ہوا اور اس کا جسم چھوٹا ہوتا چلا گیا۔
تاہم جب میسوپوٹیمیا کے ’کُنگا‘ سے ان کا موازنہ کیا گیا تو واضح طور پر معلوم ہوا کہ ’کُنگا‘ اِن دونوں کے ساتھ ساتھ گدھے سے بھی مشابہت رکھتے تھے۔
اس تجزیئے کی روشنی میں ماہرین نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’کُنگا‘ دراصل جنگلی خچروں اور میسوپوٹیمیا کے مقامی گدھوں کے ملاپ سے تیار کیے جاتے تھے۔
وہ جسامت میں عام گدھوں اور جنگلی خچروں سے بڑے ہونے کے علاوہ طاقتور اور تیز رفتار بھی تھے لیکن مخلوط (ہائبرڈ) ہونے کی وجہ سے وہ اپنی نسل آگے نہیں بڑھا سکتے تھے۔
میسوپوٹیمیا کی قدیم دستاویزات میں ’کُنگا‘ کو بہت قیمتی اور ’انعام میں دیا جانے والا‘ جانور بھی قرار دیا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی پیدائش بہت مشکل کام ہوا کرتی تھی۔
اس کےلیے نر جنگلی خچر پکڑے جاتے تھے جن کا ملاپ گدھی سے کروا کر ’کُنگا‘ پیدا کیے جاتے۔
میسوپوٹیمیا سے ملنے والے ’کُنگا‘ کے ڈھانچوں میں دانتوں اور ہڈیوں پر کچھ مخصوص نشانات ظاہر کرتے ہیں ان کے پورے جسموں پر زرہ بکتر جیسے خول چڑھائے جاتے تھے جبکہ طاقت اور تیز رفتاری کی غرض سے انہیں مخصوص غذائیں کھلائی جاتی تھیں۔
ان تمام خصوصیات کی بناء پر ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے انہیں ’جنگی گدھے‘ کا نام دے دیا ہے جبکہ آن لائن ریسرچ جرنل ’سائنس ایڈوانسز‘ کے تازہ شمارے میں اس دریافت کی تفصیلات بھی شائع ہوچکی ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔