آ بیل مجھے مار…

شیریں حیدر  اتوار 16 جنوری 2022
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ اگر کوئی مری جانا چاہتا ہے تو عام اور سیدھے راستوں کے بجائے، جو کہ گاڑیوں کے وہاں پھنس جانے کے باعث، بند کر دیے گئے ہیں، ان کی رہنمائی ان راستوں کے بارے میں کی جا سکتی ہے جو کہ ہر کسی کو معلوم نہیں … جاننے کے لیے ان باکس میں رابطہ کریں!‘‘ فیس بک پر ایک پوسٹ پڑھی۔

اس کے علاوہ بھی کچھ جاننے والوں نے بتایا کہ راستے بند ہونے کے باوجود وہ اپنی فیملی سمیت مری سے ہوکر، برف باری دیکھ کر لوٹ آئے ہیں۔ کچھ پوسٹ ایسی دیکھیں کہ جن میںلوگ اس بات پر ملامت کر رہے تھے کہ حکومت یا افراد ، مرنے والوں کو ہی مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں، جسے Victim shaming کا نام دیا جاتا ہے ۔ اب آپ بتائیں کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی، وہ سن اور پڑھ کر بھی کہ لاکھوں افراد پہلے سے وہاں پھنسے ہوئے اور موت اور زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں، پھر بھی آپ اتنے سورما بننے کی کوشش کریں، کہیں کہ آ بیل مجھے مار… پھر کچھ آپ کے ساتھ برا ہو جائے تو کس پر الزام آنا چاہیے؟

چند روز قبل، جو کچھ مری میں ہوا، اس کے بارے میں ہم سب نے ملی جلی خبریں اور سوشل میڈیا پر پوسٹ دیکھیں ۔ جو کچھ بھی ہوا، اس میں انسانی جانوں کا ہونے والا نقصان نا قابل تلافی اور انتہائی افسوس ناک ہے ۔ اس پر حکومتی سطح پر انکوائری کا حکم دے دیا گیا ہے، جو کچھ بھی اس میں معلوم ہو گا، اس سے کیا فائدہ ہونے والا ہے، کوئی انکوائری اور اس کے نتیجے میں دی جانے والی کوئی سزا اس نقصان اور تکلیف کا ازالہ نہیں کر سکتی… جسمانی اورذہنی کوفت کے جن مراحل سے لوگ گزرے اور جان تک سے چلے گئے، انھیں اب کسی انکوائری کا فائدہ ہے نہ کسی کو ملنے والی سزا سے۔

حکومت چاہتی ہے کہ اس ملک میں سیاحت کو فروغ ملے، اسے انڈسٹری کا درجہ دیا جائے اور یہ ایک بڑا ذریعۂ آمدن بنے۔ سیاحت سے اس علاقے کے لوگوں کا طرز رہائش بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ قدرتی نظاروں کی جو نعمت انھیں مفت میں ملی ہوتی ہے، وہی ان کے لیے بڑا ذریعۂ آمدن بن جاتا ہے۔ ایک نعمت کتنی جلدی ایک زحمت میں بدل جاتی ہے، اس کا اندازہ ہمیں حال ہی میں ہوا ہے۔ چند برسوں سے مری میں برفباری دیکھنے کو جانا، بچوں اور والدین کے لیے سردیوں کی چھٹیوں کے دوران اہم تفریح بن گئی ہے۔ اس سے پہلے تک مری ہمیشہ گرمیوں میں آباد اور سردیوں میں ویران ہواکرتا تھا۔ ذرایع آمد و رفت ناقص تھے، بجلی اور گیس کی کمیابی اور نایابی کے مسائل سردیوں میں لوگوں کے لیے کشش کو کم کر دیتے تھے۔

وہاں کے باشندے بھی گرمیوں کے چند مہینوں کو اپنے لیے سال بھر کی آمدنی کے لیے، سیاحوں کو کھلے دل سے لوٹتے اور سیاح بھی بخوشی لٹتے تھے۔ گزشتہ دو ایک ادوار حکومت سے مری اور گرد ونواح میں حکمرانوں کو کشش محسوس ہوئی اور انھوںنے اپنے چھوٹے چھوٹے بسیرے یہاں بنا لیے، سمر ہاؤسز، ہٹ اور نیم دفتری مصروفیات کے لیے ٹھکانے۔ گرمیوں میں حکمران کبھی مری میں پائے جاتے ہیں اور کبھی نتھیا گلی۔ اسی وجہ سے وہاں کے راستے، سڑکیں اور رابطہ سڑکیں بھی ماضی سے بہت بہتر ہو گئیں۔

گرمیوں میں جب دن لمبے ہوتے ہیں تو عموماً لوگ سویرے نکل کر، دن بھر مری کے موسم سے لطف اندوز ہو کر شام تک لوٹ آتے ہیں، اگر ویک اینڈ پر جانا اور رکنا ہو تو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ اچھی سڑکیں بن جانے کے باعث اب سردیوں میں بھی سیاحت کا رجحان بڑھ گیا ہے کہ مری اسلام آباد سے بمشکل ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے ۔ امسال بھی یہی ہوا، بچوں کی سردیوں کی چھٹیاں ہوتے ہی لوگوں نے برفباری دیکھنے کے لیے مری کا رخ کیا ۔ برف باری بھی اس سال معمول سے زیادہ اور لمبے عرصے کے لیے ہوئی۔ جب ایک شخص وہاں پہنچ کر اپنے لطف اندوز ہونے کی تصاویر سوشل میڈیا پر شئیر کرتا ہے تو اس کے دوستوں اور عزیزوں کو اس میں کشش محسوس ہونا شروع ہوئی اور ہر کوئی وہیں کا رخ کرتا جارہا تھا۔

پہلے پہل تو سب نے خوشی کا اظہار کیا کہ سیاحت کو فروغ مل رہا ہے، لوگ لطف اندوز ہو رہے ہیں مگر جلد ہی یہ منظر نامہ تبدیل ہوا اور برف باری کی رحمت زحمت میں بدلنا شروع ہو گئی۔ مقامی لوگ جو پہلے صرف کاروبار کر رہے تھے، لوگوں کو مشکل میں دیکھ کر خود غرض ہو گئے، قصاب بن گئے اور دونوں ہاتھوں سے لوٹنا شروع کردیا۔ لوگ جو موسم کا لطف اٹھانے گئے تھے، اسی موسم کی سختی اور تسلسل کا شکار بن گئے۔ اس برف کے میدان میں موت گھات لگا کر بیٹھ گئی اور جو جو اس کے ہاتھ آیا، اسے لے گئی۔

Victim shaming کے نقطۂ نظر سے ہرگز نہیں، نہ ہی کسی کو قصور وار ٹھہرانا مقصد ہے، حقیقت یہی ہے کہ اول تو موت کا وقت مقرر ہے۔ لیکن اس المناک طریقے سے جانا، جس سے دل دکھ گئے ہیں، اس میں زیادہ تر وجہ یہی ہے کہ ہمارے لوگ نہ سیاحت کے آداب سے واقف ہیں، نہ ایسے موسموں کی شدت سے آشنا۔ دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک میں حکومتیں اور ادارے بے بس ہوتے ہیں جب قدرتی موسمی آفات قابو سے باہر ہو جاتی ہیں اور لوگوں کے لیے زندگیوں میں مسائل پیدا کرتی ہیں۔

اس وقت نہ کوئی ترقی کام آتی ہے نہ کوئی ایجاد۔ ہم تو ابھی تک ان ملکوں سے بہت پیچھے ہیں۔ ان ممالک میں بھی لوگوں کو سب سے پہلے کسی انتہائی مجبوری کے سوا اپنے گھروں سے باہر نکلنے سے منع کر دیا جاتا ہے۔ وہ لوگ اس لحاظ سے مہذب ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جب انھیں منع کیا جا رہا ہے تو وہ ان کے فائدے کے لیے ہے… ہمارے لوگوں کو جب منع کیا جاتا ہے تو وہ منع کرنے والوں کو اپنا دشمن سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ پولیس والوں کے گریبان پکڑ لیتے ہیں، جس کی سکت زیادہ ہے ، وہ پولیس والوں پر فائر بھی کھول دیتا ہے ۔

ایک دن سنا کہ مری میں تیس ہزار سے زائد گاڑیاں پہنچ چکی ہیں… اگلے دن یہ تعداد پچاس ہزار سنی اور اس سے اگلے دن ستر ہزار۔ چھوٹے سے شہر کی، بمشکل دو رویہ سڑکوں پر، پارکنگ کی قلت والا شہر… یہ سب گاڑیاں کہاں تھیں؟ ظاہر ہے کہ سڑکوں پر ہی پارک کر دی گئی تھیں۔ نہ صرف اس سے ٹریفک کا بہاؤ رک گیا تھا بلکہ مزید آنے والی گاڑیوں نے ٹریفک جام کر دیا تھا۔ جو جان بچا کر نکلنا چاہ رہا ہوگا، وہ بھی بری طرح پھنس چکا تھا۔ واپسی کے راستے پر بھی گاڑیاں پارک ہو چکی تھیں اور اس سے ایک ایسا موت کا پھندا death trap تیار ہو چکا تھا، جس سے نکلنا مشکل تھا۔

امدادی کارروائیاں کرنے والے بھی پہنچے تو ان کی رسائی، مدد کے لیے پکارنے والوں تک نہ ہوسکی تھی۔ اب جس پر چاہے ملبہ ڈالیں، جسے چاہے مورد الزام ٹھہرائیں، جسے چاہیں سزا دیں اور جسے چاہیں منصف ٹھہرائیں… جو ہونا تھا، وہ ہو چکا۔ اسے تبدیل کیا جانا ممکن نہیں مگر عوام، حکومت، ادارے اور مقامی لوگ، یہ سب لوگ اگر اس سے عبرت حاصل کرلیں تو بھی کافی ہے۔ جو کچھ امسال ہوا، اسے مرتے دم تک نشان عبرت بنا لیں تا کہ دوبارہ ایسا نہ ہو۔

اگر آپ تفریح کے لیے جانا چاہتے ہیں تو پہلے آپ اپنی، اپنی گاڑی کی ہمت اور سکت دیکھ لیں۔ گاڑی میں برف پر چلنے والے مخصوص ٹائر ہونے چاہئیں۔ اپنے وسائل کے بارے میں آگاہ ہوں، ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے صلاحیت ہے کہ نہیں۔ آپ اگر چند دن کے لیے جا رہے ہیں تو آپ کے پاس کافی سامان ہے کہ نہیں۔ کہیں رکنا پڑے تو آپ کے پاس بندوبست ہے کہ نہیں۔ اگر ان میں سے کچھ بھی کم ہے، کچھ ایسا ہے جو آپ نہیں سنبھال سکتے تو آپ اپنے اور اپنے خاندان کی زندگیوں کو یوں خطرے میں نہ ڈالیں۔ سب سے قیمتی چیز آپ کی جان ہے، ایک بار چلی جائے تو لوٹ کر نہیں آنے والی۔ اللہ تعالی جانے والوںکے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔