جگہیں تبدیل ہوسکتی ہیں

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 16 جنوری 2022
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

تیرہویں صدی کا عظیم اطالو ی شاعر دانتے جس نے ایک نظم لکھ کر عالمی شہر ت حاصل کی، اس عظیم شعر ی کارنامے سے پوری دنیا کے ادب نے استفاد ہ کیا۔ہم یہاں صرف جہنم کا ذکر کریں گے کیونکہ ہمارے ملک کی اشرافیہ کی اکثریت یہاں ہی آیندہ قیا م پذیر ہونے والی ہے۔

اس لیے اس کا ذکر بہت ضروری ہے کہ ہمیں اس بات کااندازہ ہونے میں آسانی ہوجائے گی کہ وہ وہاں کن حالوں میں ہونگے ’’ دانتے ورجل کو ساتھ لے کر دوزخ کی یاترا کی طرف روانہ ہوتا ہے ،جہنم میں گناہ گار روحوں کا ہجوم تھااور یہ 9 حصو ں میں تقسیم تھیں۔ پہلے حصے کے دروازے سے داخل ہونے لگا تو دانتے نے دیکھا دروازے پر لکھا تھا کہ اب تم آہوں اور آنسوئوں کے شہر میں داخل ہورہے ہو، اس شہر میں جو چلا گیا وہ اپنے آپ کو فرامو ش کردیتا ہے یہ وہ شہر ہے جہاں گناہ گار اپنے گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں اس میں وہ ہیں جنہوں نے حکم خداوندی سے انکار کیا وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے خداکا اقرار کیا نہ انکار کیا بلکہ ساری زندگی شکوک میں مبتلا رہے۔

یہ سب لوگ ہاتھ باندھ کر ایک دوسرے کے آگے پیچھے چل رہے تھے اور ناقابل فہم الفاظ ان کے منہ سے نکل رہے تھے اور ان کے منہ سے نکلی ہوئی آوازیں ساری فضا کو داغدار کررہی تھیں۔ ورجل اور دانتے چلتے چلتے ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں پانچ ندیاں بہہ رہی تھیں، ان میں کشتیا ں کھڑی تھیں جن پر روحیں سر جھکائے بیٹھی تھیں ،دانتے نے ورجل سے پوچھا۔ ’ یہ کشتیاں کہاں جارہی ہیں ‘ ’ یہ ملاح انھیں لے کر جہنم کے مختلف حصو ں میں جارہے ہیں ‘‘ ورجل یہ کہہ کر کشتی بان شارون کے پاس گیا اور کہا ’’ میں حکم الہی سے اس فانی انسان کو جہنم کی سیر کرارہاہوں ’’ جہنم کے ایک ڈھلوان راستے سے گزر کر وہ ایک ایسی جھیل کے پاس پہنچتے ہیں جہاں ایک شیطان ناف تک جھیل میں ڈوبا ہوا کھڑا ہے ارد گرد روحیں درد اور کرب میں مبتلا ہیں۔ روحیں الٹی لٹکی ہوئی ہیں اور آہ و فغان اور درد کی شدت سے روحیں رو رہی ہیں۔

دانتے نے ورجل سے پوچھا ’’ میرے پیرو مرشد ۔ یہ کون ہیں ‘‘ ورجل نے جواب دیا ’’ یہ زنا کے گناہ کے مرتکب ہیں ان کی سزا کا خاتمہ نہیں ہوگا ‘‘ کچھ لوگ انھیں ایسے بھی نظر آئے جن کے چہرے جلے ہوئے تھے بس جبڑے ہل رہے تھے۔ دانتے کے پوچھنے پر ورجل نے جواب دیا۔ یہ سب شرابی لوگ ہیں۔ دانتے نے دیکھا کہ ان پر پیپ اور غلا ظت کی بارش ہورہی تھی اور وہ یہ پیپ پی رہے تھے ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے عیاشی اور فضول خرچی کو اپنا وتیرہ بنا رکھا تھا ۔جہنم کے ایک حصے میںغلاظت، خون ، پیپ اور کیچڑ میں لپٹی ہوئی روحیں دریا کے پانی پر بے چینی کی حالت میں دوڑی پھررہی ہیں ،ایک دوسرے کو نوچ رہی ہیں لڑرہی ہیں۔

ورجل دانتے کو بتلا تا ہے کہ یہ مسلسل گناہوں میںمصروف رہنے والی روحیں ہیں جنہوں نے دنیا کو صرف گناہوں کی آما جگاہ سمجھا تھا ایک حصے میںخون کے دریا میں روحیں ابل رہی تھیں اور دریا سے باہر نکل رہی تھیں لیکن دریا کے کنارے گھوڑوں پر سوار کچھ فرشتے دوڑ رہے تھے ۔ان کا کام یہ تھا کہ وہ ان روحوں کو دوبارہ دریامیںپھینک دیں جو دریا سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے باہر نکل رہی تھیں۔ دانتے اس منظر سے لرز گیا ورجل سے ان کے بارے میں پوچھا توورجل نے جواب دیا یہ وہ لوگ ہیںجنہوں نے اپنے رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلو ک کیا نہ ہمسایہ اور پڑوسی کے آرام کا خیا ل رکھا نہ ہی خدا کے احکامات کو مانا بلکہ رشتے داروں اور پڑوسیو ں کے حقوق پورے نہ کیے اور ان پرتشدد سے کام لیا پھر ورجل کے اشارہ کرنے پر دانتے نے ایک طرف نظر دوڑائی ،وہاں گرم ریت پر آگ کے الائو جل رہے تھے۔

ورجل نے کہا یہ سو د خوروں اور ناجائز منافع کمانے والوں کا گھر ہے جہاں وہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے خدا نے انسان کو زمین پر ہل چلانے ، فصلیں اگانے کا حکم دیا تھا مگر ان لوگوں نے رزق حلال کے بجائے حرام کوسینے سے لگایا۔ جنگل سے نکل کر وہ ایک ندی کے دہانے پر پہنچے جہاں ندی میں پانی کے بجائے گرم ریت ابل رہی تھی اور اس میں دھوکے بازا ور فریب کار دانوں کی طرح بھونے جارہے تھے ۔اس ندی کی رکھوالی درندے کرر ہے تھے۔ ورجل نے ایک درندے کو اپنے پاس بلایا اور پھر دونوں اس پر سوار ہوکر ایک طرف چل دیے اور ایک ایسی جگہ پر آئے جہاں گوشت بھوننے کی بدبو آرہی تھی اور چاروں طرف دھواں پھیلا ہوا تھا۔ ورجل نے بتلایا یہاں وہ لوگ بھو نے جارہے ہیں، جنہو ںنے خدا کی دی ہوئی عقل کا غلط استعمال کیا اور اسے تخریبی کاموں میںاستعمال کیا۔‘‘

ہم میں سے اکثریت اقتدار، طاقت ، اختیا ر پاکر یکسر بدل جاتے ہیں اور ہر چیز کو بھلا بیٹھتے ہیں اور یہ بھی سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ اب انھیں کبھی بھی کہیں بھی نہیں جانا ہے اور ہمیشہ یہیں رہنا ہے اور یہ اقتدار ،طاقت اور اختیا ر ہمیشہ ہمیشہ اسی طرح سے جاری وساری رہے گا اور اب ہم ہراحتساب ، ریاست، معاشرے، قانون ، انصاف اور آئین سے بالا تر ہوگئے ہیں۔ آخر یہ لوگ یہ پاکر ایسے کیوں ہوجاتے ہیں ؟

آئیں! اس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں،انسان اپنی زندگی کی سب سے بڑی اور اہم ترین جنگ اپنے دل سے لڑتا ہے اگر وہ یہ جنگ جیت جاتاہے تو وہ اپنے دل پر حکمرانی کر نے لگتا ہے اور اگر ہار جائے تو دل اس پر حکمرانی کرنے لگ جاتا ہے۔ پہلی صورت میںوہ اپنی خواہشات کو اپنے تابع کر لیتا ہے، دوسری صورت میں خواہشات اس کو اپنے تابع کرلیتی ہیں جب انسان اپنی خواہشات کو اپنے تابع کر لیتاہے تو پھر وہ عقل ، سمجھ بوجھ ، سو چ و فکر سے کام لیتا ہے اور اس کے فیصلے ، اقدام ، دانش مندانہ ،نیک و صالح ہوتے ہیں۔

دوسری صورت میںجب خواہشات اس کو دبو چ لیتی ہیںتو وہ اپنا پہلا حملہ اس کی عقل و سمجھ بوجھ پر کرتی ہیںاور انھیں تہس نہس کرکے رکھ دیتی ہیں پھر اس کے بعد انسان اپنی باقی زندگی عقل و سمجھ بوجھ کے بغیر گزارنا شروع کردیتا ہے اور ایک خونخوار درندے میں تبدیل ہوجاتا ہے پھر اس انسان پر وہ درندہ حکمرانی کرنے لگتا ہے اور یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہتا ہے پھر سالوں بعد جب انسان کی عمر اس کا ساتھ چھوڑنے لگتی ہے تو پھر اس درندے کا انسان بننے کا سفر دوبارہ شروع ہونے لگتا ہے، لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور فرشتے جہنم میں کشتیا ں لیے اس کا انتظار کررہے ہوتے ہیںپھر اس نے کچھ نہیں کرنا ہوتا سب کچھ ان فرشتوں نے کرنا ہوتا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔